مذہبی فکر میں فرد معاشرتی تحریکات سے دور کیوں
از، قاسم یعقوب
ہم مذہبی معاشروں کے تشکیلی عناصر کا مطالعہ کریں تو بہت آسانی سے یہ اندازہ کر سکتے ہیں کہ فرد کی اخلاقی تربیت اور معاشرے کی تخلیقی نشوونما دو الگ الگ دھارے سمجھے جاتے رہے ہیں۔آگے جا کے فرد کی تعمیر سے معاشرے کی تخلیقیت جوڑ دی جاتی۔ یوں معاشرہ فرد کے تعمیری عرصے کا انتظار کرتا۔ یعنی مذہب کے زیرِ سایہ فرد الگ سے تیار ہوتا ہے اور معاشرہ الگ سے ۔ فرد اگر نا مکمل ہے تو معاشرہ بھی نامکمل ہوگا۔ معاشرہ اپنے جوہری امکانات سے منور ہے تو یہ لازمی امر ہوگا کہ فرد اپنی تعمیری جہات سے معاشرے کو ثروت مند کررہا ہے۔ فرد اور معاشرے کی اس ایک دوسرے پر منحصر فکریات نے دونوں کو الگ الگ خانوں میں بانٹے رکھا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اہلِ تصوف کے ایک خاص رجحان کے غیر حرکی فلسفے نے فرد کی تخلیقیت پر اتنا زور دیا کہ معاشرے کی فعلیت کو تقریباً رد کر دیا۔ معاشرے میں رواں سیاسی تعبیرات سے کنارہ کشی اختیار کر لی گئی جس نے اخلاقی تطہیر (جو انسانی عروج کی منہاجِ اول سمجھی جاتی ) کو پس منظر میں پھینک دیا۔ (کیوں کہ اخلاق اور معاشرے کا بہت گہرا ساتھ ہے) نتیجتاً معاشرہ کی مادی ترجیحات نے اولیت اختیار کر لی۔ فرد کی مادی اور روحانی اقدار میں عدم توازن پیدا ہوگیا۔ خدا اور بندے کی مابعد الطبیعاتی کائنات میں دراڑ پیدا ہوتے ہی معاشرے کی ظاہری ہیت میں ایک نا مختتم ہلچل پیدا ہو گئی۔
فرد کی برتری نے کچھ اس قسم کے خیالات پیدا کئے رکھے ہیں کہ معاشرہ اور فرد دو متوازی نظریات سمجھے جاتے رہے ہیں۔ فرد کی برتری کے دعوے دار آج بھی کچھ اسی قسم کے خیالات کے حامل ہیں۔ فرد اور معاشرے کی دوئی کے اس بنیادی نظریے میں ایک خطرناک تبدیلی یہ آئی ہے کہ اب فرد معاشرہ سے مکمل طور پر ہٹا دیا گیا ہے یعنی فرد کی تکمیل عین برحق اور انسانی معراج کا لازمہ تو ہے مگر معاشرے پر اس کے بالواسطہ یا بلاواسطہ اثرات یا تعلق کا امکان غیر اغلب قرار دے دیا گیا ہے۔ یہ ہمارے دور کے علماء کرام کا نیا تخلیقی فلسفہ ہے جو معاشرے کو فرد سے علیحدہ قرار دینے میں ایڑی چوٹی کازور لگا رہا ہے۔ یہ فکر مذہبی سطح پر قلب و ذہن کی یکسوئی کو حتمی تصور کر رہی ہے۔ ایک فرد کے معاشرتی کردار کو مکمل طور پر کاٹ دیا گیا ہے۔
طریقت بھی (جسے بے عملی کا فلسفہ کہا جا تا رہاہے) کبھی اتنا بے عملی کا نظریہ نہیں رہا تھا جتنی آج کی مذہبی فکر فرد کو بے عملی کی طرف دھکیل رہی ہے۔ داتا علی ہجویریؒ ’’کشف الملوک‘‘ میں لکھتے ہیں کہ انسان کا علم و عمل، ظاہر اور باطن پر مشتمل ہوتا ہے۔ معاملاتِ زندگی کی ظاہریت ان کا ظاہر ہے مگر ان کے پیچھے کارفرما عناصر کی نیت یا محرکات ان کا باطن ہیں۔ جب کہ باطنی حقیقت کے بغیر ظاہر نامکمل اور ظاہریت باطن کے بغیر ’’زندقہ‘‘ ہے۔ طالبِ حق کے لیے ظاہر اور باطن دونوں کا علم ضروری ہے۔ ہمارے آج کے علمائے دین نے ظاہریت اور باطنیت کے فرق کو اتنا بڑھا دیا ہے کہ مذہبی تفکر کے نام پر فرد کو معاشرے کی ظاہریت سے دور کر دیا۔ اب ایک مذہبی فرد کا پہلا کام معاشرے سے کنارہ کشی اختیارکرنا ٹھہر گیا ہے۔
کچھ حامیان مذہب آج بھی اسلام کے حرکی تصور پر بہت زور دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس وقت فکری سطح پر اگر کسی تحریک میں جان ہے تو وہ اسلام ہے جو ہر باطل کی قوت کو مزاحمت پیش کر رہی ہے۔ یہ باطل کی قوتیں خواہ بھیس بدل کے منظر نامہ پر موجود ہیں یا علی الاعلان اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل چاہ رہی ہیں۔ اسلام کی مزاحمتی تحریک اُن کے لیے ایک چیلنج بنی ہوئی ہے۔ اسی ضمن میں اقبال کو ایک متحرک شاعر کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اُن کے بقول اقبال واحد شاعر ہے جو تحرّک(Motivation)پر اُکساتا ہے اور اقبال کا سارا خمیرہند اسلامی فکریات کے تفکرسے جنم لیتا ہے۔
ان باتوں کو مان بھی لیا جائے تویہ تحرک ایک خاص فکر کے زیرِ سایہ ابھی تک موجود ہے جو اشیا کی ظاہریت اور باطنیت جیسے باریک تفکرانہ عناصر کی پہچان سے محروم ہے اور دوسری بات یہ کہ تحرک کے اس فلسفے کو جس بری طرح مذہبی ملّا تباہ کر رہا ہے اس کی مثال اسلامی فکر کی تاریخ میں نہیں ملتی۔
آج کل ایک معروف دینی سکالر ٹی وی ایک بڑے اجتماعات میں فرد کی اصلاح کا بِیڑہ اٹھائے خطابات کر تے نظر آتے۔ بات بات پہ امت کی زبوں حالی پہ روتے بھی ہیں اور فرد کو خدائے واحد کے احکامات پہ عمل کی تلقین کرتے نظر آتے ہیں۔ان معروف دینی سکالر کی فرد کی تعمیر کے حوالے سے گفتگو کے چند نکات ملاحظہ کیجیے:
۰ اسلامی فکر فرد کی تعمیر کے لیے وجود میں آئی ہے۔ معاشرے کے سیاسی معاملات فرد کا معاملہ نہیں۔معاشرے میں عدم توازن فرد کی ناکامی کے نتائج ہیں۔فرد درست ہوگا معاشرہ بھی درست ہوجائے گا۔
۰ اس سوال کے جواب میں کہ معاشرے کے کچھ افراد اپنی تعمیر پر توجہ نہ دیں اور اور کچھ اپنے فرد کی خودی کو مکمل کر لیں تو اس صورت میں بھی عدم توازن پیدا ہو سکتا ہے، اور وہ نامکمل افراد معاشرے میں فتنہ و فساد کا باعث بن سکتے ہیں،اُن کا جواب ہوتا ہے کہ تمام افراد اگر اپنی تعمیر پر توجہ دیں تو کوئی فرد بھی نامکمل نہیں رہ سکتا۔ جو نامکمل ہوں گے معاشرہ خود بخود اُن کو نشان زد کرے گا اور اُن کو اپنے فرد پر توجہ کا کہے گا۔
۰ لہٰذا فرد کی تعمیر کے علاوہ فرد کی اور کوئی ذمہ داری نہیں، کسی طرف توجہ کی کوئی ضرورت نہیں۔ اور فرد ٹھیک ہوتا ہے شریعت کے انتہائی بنایدی ارکان کی پابندی سے۔ یعنی نماز روزہ اور حیا کی پاسداری سے۔ فرد کی خرافات یعنی زنا، چوری ،نشہ،فساد اور سود سے بچنے سے۔
گویا یہ ایک ایسی نشہ آور نیند (Doze)ہے جو آپ کو تمام تر ٹھیک کر دے گی۔جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا کہ اسلامی فکر کے صوفیانہ طریقت میں بھی معاملاتِ زندگی کے ظاہری عوامل کے پیچھے باطنی تحرکات کی کھوج کا درس موجود تھا مگر آج مذہبی فکر کے یہ نمائندے جس زہر ناکی سے فرد کو معاشرے کے معاملات سے دور کر رہے ہیں اس کا انجام مذہب کی فکری خاموشی کی صورت میں نظر آ رہا ہے۔مذہب کو ہر معاملے میں خاموش کردار بنا دیا گیا ہے
تحرک اور تحریک جہادی مزاحمت کے ہاتھوں تک محدود ہو گیا ہے اور فرد کومعروضی تعمیری جہات سے کاٹ کے معاشرے کی نشوونما کا سانس روک دیا گیا۔
بڑے بڑے اجتماعات میں یہ خاص فکر کے علما کرام فرد پر زور اس طرح دیتے ہیں کہ پوری اشرافیہ خوش ہو جاتی ہے۔ ان کی مجلس سے اٹھنے والا فرد کسی بھی سیاسی، معاشرتی، اقداری معاملے سے خود کو دور رکھنے اور ’’پاکیزگی‘‘ کو دامن گیر کرلینے کا عہد لے کر اٹھتا ہے۔
ایسے علما کرام فردکو اُس طاقت کے راستے میں بند باندھنے سے روک رہے ہیں جو معاشرے میں ظلم اور سفاکی کا بازار گرم رکھے ہوئے ہیں۔ جو پورے معاشرے میں عدم توازن کا باعث ہے۔بڑے بڑے اجتماعات میں جذباتی خطابات کے ذریعے سادہ لوح عوام کوکسی بھی ظلم اور اشرافیہ کی کبر ونخوت سے بے پرواہ کر کے یہ علما کرام دینی فکر کی ترویج نہیں خفیہ طاقتوں کی دنیاداری کا سامان بہم پہنچا رہے ہیں۔
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.