کون کہتا ہے کہ مذہبی لوگ سوال نہیں کرتے ؟
(رضا علی)
مذہبی ذہن رکھنے والوں پر اکثر یہ الزام لگتا ہے کہ یہ سوال سے دور بھاگتے ہیں، تقلید کو تنقید پر ترجیح دیتے ہیں اور عقیدت پسند ہوتے ہیں۔ میری اس تحریر کا مقصد آپ کو یہ ثابت کرنا ہے کہ ایسا قطعی نہیں ہے- مذہبی ذہن اتنی ہی تنقید، تشکیک اور تحقیق کی صلاحیت رکھتا ہے جتنا کوئی اور- اور وہ اس کا استعمال بھی کرتے ہیں۔
پہلے لفظ ‘سوال’ کی نوعیت سمجھ لیتے ہیں- انگریزی کا لفظ question اپنے اندر ایک ہی وقت میں دو معانی رکھتا ہے، ایک سوال کرنا اور دوسرا سوال اٹھانا- اگر آپ کسی سے پوچھیں کہ کیا اسلام میں سوال کی اجازت ہے تو وہ فوراً کہے گا کہ جی ہاں بالکل اجازت ہے- لیکن یہاں سوال کا مطلب پہلا والا ہے- یعنی اگر آپ نہیں جانتے تو آپ کسی صاحب علم سے سوال کریں اور وہ آپ کو جواب دے دے گا۔ اگر تسلی نہ ہو تو اور سوال کر لیں، لیکن بہت زیادہ نہیں کیوں کہ یہ ادب کے خلاف ہے۔
اگر ایک صاحب علم کی رائے سے آپ کی تسلی نہ ہو تو دوسرے سے بھی مشورہ کیا جا سکتا ہے- جس کی اجازت نہیں ہے وہ ہے سوال اٹھانا- کیوں کہ سوال اٹھانے کا مطلب ہے کہ آپ کو ایمان نہیں شبہ ہے- ہو سکتا ہے یہ شبہ آپ کو کسی گروہ کے نکتہ نظر پر ہو لیکن کیوں کہ ہر گروہ یہی سمجھتا ہے کہ اس کا نقطہ نظر عین اسلام ہے، اس لئے وہ شک اور شبہ بھی اسلام پر ہوتا ہے۔
میری بحث ایک اسلامی موضوع پر ایک روایتی نکتہ نظر رکھنے والے پڑھے لکھے حضرت سے ہو گئی۔ یہ حضرت ایک Phd ڈاکٹر ہیں اور انہوں نے اپنی ڈاکٹریٹ ایک یورپی ملک سے کی ہے۔ کیوں کہ مجھے بھی برطانیہ کی ایک یونیورسٹی سے پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے تو میں یہاں کی اعلی تعلیم کے مزاج سے واقف ہوں۔ یہاں critical thinking یا تنقیدی سوچ پر بہت زور ہے۔
اگر آپ کو ایک مضمون پر لکھنے کو کہا جائے اور آپ اس پر بہت اچھی ریسرچ کر کے تمام حقائق لکھ دیں تو وہ آپ کو پچاس فیصد نمبر بھی نہیں دیں گے۔ کیوں کہ اس سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ کو پہلے کیا لکھا جا چکا ہے وہ نقل کرنا آتا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اب آپ اپنی سمجھ کی گہرائی کا مظاہرہ کرتے ہوے ان ذرائع اور پچھلے کام کا تنقیدی جائزہ لیں- یونیورسٹی سطح کی تعلیم کا یہ لازمی جز ہوتا ہے اور Phd اس کا سب سے اونچا مقام ہوتا ہے- Phd میں آپ علم کی حدود کو نئے کام سے آگے بڑھاتے ہیں- تو جس نے یورپ سے Phd کیا ہو گا اسے یہ لازمًا آتا ہوگا۔
اس مضمون کو بھی دیکھئے: کیا سیکولر مسلم کی اصطلاح درست ہے؟
تو اس بحث کی طرف واپس آتے ہیں- موضوع اہمیت نہیں رکھتا لیکن حضرت کا جواب ضرور رکھتا ہے- جب میں نے اپنے دلائل مکمّل کیے تو انہوں نے کہا کہ وہ بات ایک صحیح حدیث میں لکھی ہے اور ان کے لئے یہ کافی ہے- اس سے پہلے کہ پڑھنے والے بپھر جائیں میں اس کا ایک آسان جواب دیتا ہوں- اگر یہ بات کافی ہوتی تو دنیا میں صرف ایک اسلامی نکتہ نظر ہی ہوتا- لیکن ایسا نہیں ہے- چاہے قرآن ہو، حدیث یا تاریخ، ہر اسلامی علم کا ذریعہ تشریح interpretation کا متقاضی ہوتا ہے- اسی لئے فرقے، مذہب، مسلک اور اختلاف رائے موجود ہیں- صرف لکھا کافی نہیں ہوتا، بلکہ پڑھنے والا اسے کیسے پڑھتا ہے اور اس سے کیا مطلب لیتا ہے اس سے زمین آسمان کا فرق پڑ جاتا ہے۔
تو اب میں اپنے دعوے پر واپس آتا ہوں کہ مذہبی لوگ سوال اٹھانا، اور تنقید کرنا جانتے ہیں بس یہ تنقید وہ دوسروں پر کرتے ہیں- اپنے لئے لیکن ایمان کا راستہ اپناتے ہیں- پی ایچ ڈی کرنے کے بعد انھیں بھی تنقید کرنا آتی تھی، اور حضرت نے اسے بھرپور استعمال بھی کیا لیکن جب وقت آیا تو اپنی بات کے حق میں اپنی تنقیدی ٹریننگ کے برخلاف پوزیشن اپنا لی۔
اگر آپ نے اس تنقیدی صلاحیت کا مظاہرہ دیکھنا ہو تو انٹرنیٹ پر موجود کسی بھی مسلک کی دوسرے مسلک کے خلاف لکھی کتاب اٹھا کر پڑھ لیں- یا یو ٹیوب پر کوئی بھی مناظرہ دیکھ لیں- تنقید کے تمام اصول اور طریقے آپ کو بروئے کار لاتے آپ انھیں دیکھیں گے- پہلے وہ ان کے دلائل کو چیلنج کریں گے، اگر کافی نہ ہوا تو جن بنیادوں پر وہ استوار ہونگے انھیں چیلنج کریں گے اور اگر ضرورت پڑی تو آخر میں ان شخصیت پر بھی اعتراض اٹھا دیں گے جن کی باتیں نقل کی جا رہی ہوں گی۔
فرق صرف اتنا ہے کہ وہ تمام اصول اپنے لئے نہیں ہوتے- اپنی شخصیات علم میں مکمّل اور نیّت میں شک سے بالاتر ہوتیں ہیں- ان کی کہی ہوئی باتیں، اور جہاں سے انہوں نے وہ باتیں لیں ہیں وہ بغیر کسی سوال کے قابل اعتبار ہوتی ہیں- اور آخر میں ان بنیادوں پر استوار دلائل ناقابل تردید اور سورج کی طرح واضح ہوتے ہیں- انھیں صرف اور صرف کوئی اس لئے رد کرے گا یا ان پر تنقید کرے گا کیوں کہ وہ ماننا نہیں چاہتا- اور جو ماننا نہ چاہتا ہو اس پر دنیا کے تمام دلائل ناکام ہو جاتے ہیں- یا اپنے آپ کو تو کم از کم یہی تسلی دی جاتی ہے۔
اگر آئندہ آپ کو کوئی یہ کہے کہ مذہبی لوگ سوال یا تنقید کرنا نہیں جانتے، یا کوئی یہ کہے کہ سوال کی بالکل اجازت ہے تو سمجھ جانا چاہیے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔