ماضی تمنائی بر طرف، مستقبل کی آس و شاید، شاید، شاید
از، تسنیم عابدی
خواہشِ ترکِ تمنا بھی تو پوری نہ ہوئی
ہم چلے ائےاِدھر دل کو اُدھر چھوڑ دیا
ہم لوگ جو صرفِ مہاجرت ہوئے ہیں اپنے اپنے بدن کو لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ خانہ بدوشوں کی طرح پھرتے رہتے ہیں کیونکہ قصور صرف اتنا ہے کہ اپنی مٹی کو زرخیز بنانے کے لیے ہمیں کھاد کسی اور جگہ سے لینی تھی یہ کام ہمارے حصے میں آیا تھا تو ہم زرِ مبادلہ تو بھیجتے رہے مگر خود کوصرفِ مہاجرت ہونے سے بچا نہیں سکے مٹی سے دوری نے مٹی کی محبت میں زیادہ اضافہ کردیا اس بچے کی طرح جو کسی میلے میں ماں سے بچھڑ کر کبھی روتا ہے کبھی اداس ہوتا ہے اور کبھی میلے کی رونقوں میں خود کو لگانے کی کوشش کرتا ہے۔
دوری نے جہاں تڑپ میں اضافہ کیا وہیں تدبر کی نعمت سے بھی آشنا کیا مِن حیث القوم اپنی کمزوریوں کو سمجھنے کا ہُنر بھی عطا کیا مملکتِ خداداد میں الیکشن کا سال آنے سے پہلے ہی ایک اضطراب اور بےقراری کی فضا چھا جاتی ہے۔ کسی کی مالی بد عنوانی کے چرچے ہوتے ہیں تو کسی سیاسی جماعت کے گِدھ نیم مردہ عوام سےووٹ لینے کے لیے گلی چوباروں پر منڈلاتے نظر آتے ہیں کیونکہ الیکشن کی بعد پھر انہیں ان گلیوں میں کوئی نہیں دیکھ پائے گا۔
پاکستان سے جب لوٹ کر آتی ہوں تو میرے ساتھ خوبصورت یادیں، دوستوں کی کتابیں ملاقات کی تصویریں اور نوجوان نسل کی خواب بھری آنکھیں ساتھ ہوتی ہیں ۔۔۔۔۔ اس مرتبہ بھی یہی اثاثہ میرے ساتھ ہے کمرے میں یہ علم و ادب سے مزین کتابیں یہ شعری مجموعے کمرے کی ویرانی کو آباد کیے ہوئے ہیں بد حواسی میں کبھی سید کاشف رضا کا ناول “چار درویش اور ایک کچھوا” پڑھتی ہوں کبھی فہیم شناس کی کتاب راہ داری کی نظمیں میرے دماغ میں چہل قدمی کرنے لگتی ہیں کبھی قائم نقوی کا رسالہ اور مجموعہ مجھے آواز دیتے ہیں کبھی اشرف شاد کے “جج صاحب” میری بے اعتنائی پر سوموٹو لینے کے درپے ہوجاتے ہیں۔ ہمدم دیرینہ سحر تاب کی کتاب قرابت داری کا فرض یاد دلاتی ہے۔ شبیر نازش کی کتاب سامنے کھلی ہوئی ہے “آنکھ میں ٹھہرے ہوئے لوگ“:
بے مثل تھا خلوص کا رشتہ ہمارے بیچ
جانے کہاں سے آگئی دنیا ہمارے بیچ
میں تشنہ لب ادھر ہوں تو وہ تشنہ لب ادھر
یوں بہہ رہا ہے عشق کا دریا ہمارے بیچ
واہ شبیر نازش واہ
اختر عثمان تو وہ شاعر ہے جس نے ابد تاب سے رفتہ رفتہ ہم کو اپناایسا اسیر کیا کہ اب ہم مکمل طور پر اس کی نظم اور غزل کے حصار میں ہیں۔
تو عزیز ہم وطنو! (یہ وہ اندازِ تخاطب نہیں جس سےبُوٹ کی چاپ سنائی دے ہم تو ویسے بھی اب انا کی پاپوش کو اتار کر ننگے پاؤں چل رہے ہیں تاکہ شوق کی وادئِ پُر خار کی پیاس بجھ سکے) الیکٹرانک میڈیا کے تماشے دیکھ کر زیرِ لب مسکراتے ہیں اسی لیے اب سوشل میڈیا ہمارے لیے گاؤں کی چوپال یا شہر کی بیٹھک لگتی ہےکھڑکی کھول کر تازہ ہوا لینا چاہتے ہیں تواس میں سیاست کا تعفن، صحافت کی گھٹن، عدالت کی چبھن اور ریاست کے وردی نما کفن کی آمیزش کا احساس ہوا۔ فعل ماضی تمنائی کی گردان سے بہتر ہے کہ مستقبل کی تمنا کی جائے:
پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ
شاید کہ اچھے دن آ جائیں، شاید کہ گم شدہ لوگ پلٹ آئیں، شاید کہ امام باڑوں پر حملہ کرنے والے قانون کی گرفت میں آجائیں، شاید کہ فاٹا کے پختون بھی اپنے مطالبات منوانے میں کامیاب ہو جائیں، شاید کہ کالعدم جماعتیں وجود سے عاری ہو جائیں، شاید کہ اسیر کبھی اپنے گھر لوٹیں اس سے پہلے کہ بوڑھے شجر وقت کی آندھی کی نذر ہوجائیں ۔۔۔۔۔۔ شاید، شاید، شاید