میڈیا آزاد ہی تو ہے! کیا واقعی؟ اداریہ، ایک روزن
کئی ایک کو لگتا ہے کہ میڈیا آزاد ہے سوائے میڈیا کو خود اپنے آپ کو۔ میڈیا کی آزادی کو ہم کچھ essentialisms کی روشنی میں دیکھ سکتے ہیں۔ تقریباً ہر ریاست بھلے وہ لبرل جمہوریت کا گھونگھٹ کیے ہوئے ہو، سوشلسٹ جمہوریت کی چادر تانے ہوئے ہو، فلاحی ریاست کے لبادے میں ہو، سنہری دھاریوں والی اسلامی و کوئی خاص الٰہیت و پروہیت کی مقدس خلعت کی بُکل مارے ہوئے ہو، اپنے شہریوں میں یکسانیت homogenisation کی ہی خواہاں ہوتی ہے۔ فرق اگر کوئی ہے تو صرف اس یکسانیت خواہی کی سپیس کی وسعت کا۔ (اس ‘وسعت’ لفظ کا یہاں مطلب کشادگی و فراخی نا سمجھنے کی احتیاط کا مشورہ صائب معلوم ہوتا ہے۔)
سوشلسٹ، فلاحی اور دین و دھرم اساس ریاستوں کی عالمی سیاسی معاملات میں اہمیت و مقام و قبلہ طرفی کے موافق و عدم موافق لبرل جمہوریتیں ہمیں وہاں کی دستیاب و میسر آزادیوں (بشمول میڈیا اور آراء سازاداروں، آراء پروری کی ساختوں) کا وزن، پیمائش، اور تقابلی کیمیت و کیفیت وقتاً فوقتاً ارزاں کرتی رہتی ہیں۔
لیکن خود لبرل جمہوریتوں کی آراء سازی، آراء پروری، اور ان کے ممنوعاتی موضوعات کی بابت مواد و تجزیات حاشیائی ذرائع ہی سے دستیاب ہوتے ہیں۔ ان ذرائع سے رجوع اور اکتساب کرنے اور ان کا تجزیہ کرنے کی اہلیت و صلاحیت ہونے سے ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ وہاں آج بھی میکارتھی ازم کا جناتی سایہ مختلف انداز سے موجود ہے جس کا اثر ایک طرح کی تیزابی بارش ایسا ہے۔
اس عالمی نظری و کیفیتی سیاق میں ہم وطنِ عزیز میں میڈیا (جو کہ آراء سازی، آراء پروری، آراء کی ترویج و اشاعت کے قائم مقام تصور اور ادارے کے طور پر جانا جا سکتا ہے) کی آزادی کی حد بندیوں، دیواروں، فصیلوں، قلعوں اور دروازوں کی کیفیت اور دائرۂِ کار پر بات کر سکتے ہیں۔ ان سب نکات کی وطن عزیز میں عالمی اکادمیاتی، نام نہاد نان پرافٹس non-profits کے علاوہ عوامی و خواصی منطقے کے مختلف مکالمہ جاتی dialogic، کلامیہ سازی discursive practices، مخاطبہ کاری سیاقوں میں گونج، پائمال بیانی )cliche(ing، تشخیص کاری investigative diagnostics میں سنتے، پڑھتے، لکھتے، ترویج دیتے اور اس ترویج کے صارفِ محض بنے رہتے ہیں۔
ہمارے یہاں بھی میڈیا اس طرح آزاد ہے جس طرح ہماری جمہوریت اور اس کے تحت جمہوری ادارے۔ یہ میڈیا آزاد ہے اگر اسے سیاست اور سیاست دانوں کو ہی صرف بدعنوان کہنا ہو۔ میڈیا آزاد ہے اگر اسے دستور پاکستان کی شق 19 میں تنقید و بحث سے ماوراء اداروں کے گہرے سایوں میں رکھے گئے کسی رخ پر بات نا کرنا ہو۔ (ہمارے دستور ریاست کی اظہارو بیان سے متعلق شق کے آخر میں .etc یعنی وغیرہ کا لفظ اس کی تحدیدات اور ایک ہاتھ سے ارزانی کر کے دوسرے ہاتھ سے واپس لینے کی خواص پسندی کی ستم ظریفی کا بیان ہے۔)
Freedom of speech, etc.
Every citizen shall have the right to freedom of speech and expression, and there shall be freedom of the press, subject to any reasonable restrictions imposed by law in the interest of the glory of Islam or the integrity, security or defence of Pakistan or any part thereof, friendly relations with foreign States, public order, decency or morality, or in relation to contempt of court, [commission of] or incitement to an offence.
میڈیا ہمارے یہاں آزاد ہے اگر اسے یہ ثابت کرنا ہو کہ ہم 1947 کے بعد صرف انتہائی نازک وقت سے ہی گزر رہے ہیں کی گردان کرنا ہو۔ میڈیا آزاد ہے اگر اسے انسانی حقوق کی پائمالی کے قومی مفاد کے مصدقہ خوش نما ملی ترانے گانے ہوں کہ ایسا صرف بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ہی ہوتا ہے، ہمارے اپنے بلوچستان، وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات اور گلگت بلتستان جیسے سیاسی و معاشی حاشیوں پر دے مارے علاقوں میں صرف امن و امان کی عینک کا منظر نامہ پیش کرنا ہو۔
میڈیا اس وقت بھی آزاد ہے جب اسے زبردستی گم کردہ افراد کے متعلق یہ باور کرانا ہو اور حقانیت پروری کا بیانیہ دینا ہو کہ اول تو وہ گمشدہ افراد ہی خود سزاوار ہیں جو سرحد پار کہیں بھاگے ہوئے ہیں، یا اگر وہ ارض وطن میں ہی کسی جگہ ہیں تو وہ محض اسی لیے ہیں کہ انہوں نے کچھ ایسا ویسا، تیسا کیا ہی ہو گا، اس مفروضے کی ہوائی مچان scaffold in vacuum کو قطعی زیر سوال نہیں لانا ہوتا۔
میڈیا آزاد ہی تو پوتا ہے جب اسے یہ کہنا ہو کہ ہر سازش ہمارے خلاف ہی ہوتی ہے۔ یہ آزاد ہی تو ہوتا ہے جب اسے یہ باور کرانا ہو کہ افضل ترین حب الوطنی صرف عسکریت پر مبنی ہے اور شہادت سازی کے بیانیوں میں ہی پنہاں ہے۔ میڈیا آزاد ہی تو ہے جب اسے کسی اہم مفاداتی گروہ کے مزاحمت کار کی غداری و ایمانی پیمائش و کیمیت کی پروپیگنڈائی لسانی اکائیاں وضع کرنا ہوں۔
میڈیا اپنے سیٹھوں کے کاروباری، انانیت اساس اور ٹیکس مفادات سے آزاد نہیں۔ میڈیا اپنے کارکنوں کے حقوق اور تنخواہوں کو بر وقت دینے کے احسانات کرنے میں آزاد نہیں۔ میڈیا اپنے دفاتر میں معاشرے اور سماج کے حاشیائی گروہوں مثلا معذوروں، اقلیتوں اور خواتین کے لیے حوصلہ افزا حالات پیدا کرنے میں آزاد نہیں۔ میڈیا عوامی ایجنڈے کو پیش کرنے میں صرف اس وقت آزاد نہیں، ماسوائے اس وقت جب اس عوامیت اور عوامی ایجنڈے کو فرانسیسی مفکر لُوئی التھوسے Louis Althusser کے تصور Coercive State Apparatus کے مطابق کسی کی ایماء پر ابلاغی ہتھیار ساخت کرنا ہو weaponise۔ یہ اپنی Ideological State Apparatus کی حیثیت کو کسی طرح بھی Public Interest Apparatus بنانے میں آزادی حاصل کرنے کی جد وجہد کرنے کو تیار نہیں۔