پاکستان میں میڈیائی انقلاب بذریعہ تھرڈ ایمپائر
(ذوالفقار ذلفی)
کوے بھی کتنے کمال کے پرندے ہیں یہ اپنا گھونسلہ کسی آبپارہ مارکیٹ کے بڑے درخت کے آس پاس بناتے ہیں تاکہ کوئی ان کے آرام میں خلل نہ ڈال سکے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اپنےگھونسلے والے درخت پر خود نہیں بیٹھتے بلکہ کیموفلاج کرنے کیلئے ساتھ والے بحریہ ٹاؤن نامی درخت پر بیٹھ کر دھیان داری کرتے ہیں۔ ویسے بھی بحریہ والے ملک صاحب مضبوط گھونسلے بنانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔
آجکل ان کا بول بالا ہے جس طرف دیکھو ان کی کاں کاں سنائی دیتی ہے۔ حالات حاضرہ کی اونچی تال میں ایسے ایسے راگ الاپتے ہیں کہ انسان تو کیا حیوان بھی ان کے راگوں سے بچ نہیں پاتا۔
کُچھ مشہور و معروف انسان تو باقاعدہ ان کو پالتے ہیں۔ چوری کھلاتے ہیں اور یہ اُن کا ایجنڈہ لے کر باقی ماندہ لوگوں کو قائل کرتے ہیں تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔
کوے کے عادات و خصائل کو مزید باریک بینی سے جانچنے کے شوقین حضرات چند گھاگھ قسم کے کوؤں کی دانش سے مستفید ہونے کیلئے شاہی تاریخ کے اوراق پلٹتے “اوریا مقبول ہلکان”، مگر مچھ کے آنسو بہاتے “آمر لیاقت لمبی چھوڑ ” ، حکومت گرنے کے دن بتانے والے “ڈاک دار شاید مسود بوٹا” ، کھری کھری کہنے والے”مبشر پان دان” ، دانش بکھیرتے ” ڈاکٹر دانش چیخ دار” ، لمبی لمبی چھوڑتے “شری کامران زگوٹا ” فکشن کہانیوں کے اُستاد جناب ” زندہ جاوید خونخوار قلم چودھری” , قوم کے درد سے نڈھال جناب ” کشف لا متناہی عباسی ” ، شکار کے شوقین ” آفتاب اقبال گُد گُدی” ، جرگہ کے ذریعے ہاتھ صاف کرنے والے سائیں “سلیم آفت طالبانی”، سکینڈل اُبھارنے والے جناب “روف گلا سڑا” ، مایوسی کی دلدل میں دھنسے جناب “عارف خرافات بھٹی” ، اندر کی خبروں کے بے تاج بادشاہ سب کچھ جاننے کے باوجود ابھی تک “صابر و شاکر پالشی” اور سٹیٹس کو سے متنفر اور زبان سے پھُل جھڑیوں کی بارش برساتے ” حسن جاں نثار ملامتی”۔
ان ہستیوں کے دم سے ہی ہماری قوم علم کی رعنائیوں سے خوب لُطف اندوز ہو رہی ہے۔آئیے ان کے کئے دھرے کی منظر کشی کرکے دیکھتے ہیں۔
پہلا منظر
اللہ اللہ کیا منظر ہے شام کے آٹھ بج چُکے ہیں ٹی وی کی سکرینوں پر ورد ہو رہا ہے ، قصیدے پڑھے جا رہے ہیں، انقلاب انقلاب کی صدائیں ہیں، مُستقبل کے خواب بُنے جا رہے ہیں، شریفوں کی نام نہاد شرافت کا پردہ چاک کیا جا رہا ہے، زرداریوں کے کھیل کو بے نقاب کیا جا رہا ہے، غداروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی تاویلیں باندھی جا رہی ہیں، پردہ نشینوں کے آنے کی تیاریوں میں جوتیاں چمکائی جا رہی ہیں۔
دوسرا منظر
سکرین سے پردہ اُٹھتا ہے اب کوؤں کی جگہ مرغ دکھائی دیتے ہیں۔
مُرغ آپس میں لڑ رہے ہیں واہ کیا منظر ہے، مُرغوں کو لڑانے والے اپنے اپنے مُرغوں کو شہ دے رہے ہیں اور مُرغ لڑ پڑے کوئی ٹانگ کھینچ رہا ہے کوئی آنکھ نکال رہا ہے قسم سے ایک مُرغ نے تو ایسا وار کیا کہ گردن دبوچ لی، کُچھ مرغیاں بھی کُٹاں کُٹاں کر رہی ہیں مگر اُن کی کُٹ کُٹ پہ کوئی دھیان نہیں دے رہا کیونکہ اکھاڑا بہت گرم ہو چُکا ہے، سانسیں تھم چُکیں ہیں دل کی دھڑکن تیز ہوتی جا رہی ہے اور کُکڑ باز زور زور سے چلا رہے ہیں تماشائیوں کے جذبات اُبھار رہے ہیں اور تماشائی دم بخود ہیں۔ لڑائی کو 3 گھنٹے بیت چُکے ہیں مگر کوئی نتیجہ نہیں نکل رہا۔ آہستہ آہستہ کُکڑ باز، کُکڑ اور تماشائی سب دھیمے ہوتے جا رہے ہیں۔ سب کی نظریں ریفری پر ہیں کہ وہ کیا فیصلہ دیتا ہے کس کُکڑ کی تیاری پر داد دیتا ہے اور کس کو ٹیکنیکل وجوہات کی بنا پر کمزور پاتا ہے۔
تیسرا منظر
ایک انقلابی 62 سالہ نوجوان پردے پر نمودار ہوتا ہے
لو جی ایک اور آواز آ رہی ہے جو تھرڈ ایمپائر کی بات کر رہی ہے۔ نوجوان اُس کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے شور و غل کرتے ہیں۔ سبز انقلاب کی فصلیں لہلانے لگتی ہیں۔اُس کے چاہنے والے یو شکل میں لبیک لبیک کی آوازیں کستے ہیں اور تبدیلی کی گرم ہوا میں لہلاتی سبز انقلاب کی فصلیں پکنے سے پہلے جل جاتی ہیں اور وہ انقلابی آواز یو ٹرن لے لیتی ہے۔ اب اُن کی اُمید کا محور تیسری قوت ہے۔
چوتھا منظر
تھرڈ ایمپائر ملاکا کین چھڑی گُھماتے ہوئے نمودار ہوتا ہے
تبدیلی کے شوقین تھرڈ ایمپائر کی اُنگلی کی طرف دیکھنے لگتے ہیں۔ تھرڈ ایمپائر کی ٹوپی پر سبز اور پیلی بتی جلنے بُجھنے لگتی ہے تھرڈ ایمپائر ہر زاویے سے تبدیلی کی ہوا کا جائزہ لیتا ہے مُختلف فریمز میں عقابی نظریں ڈالتا ہے اور فیصلہ دیتا ہے کہ یہ میچ کل پھر ہوگا۔یہ تھرڈ ایمپائر نہ صرف ریفری کا کام کرتے ہیں بلکہ خود بھی کھیلتے رہتے ہیں خاص کر ‘پراکسی پچ’ ، ‘محب وطن پچ’ ، ‘غداری پچ’ تزویراتی پچ اور اُمت مُسلمہ پچ پر ان کا مقابلہ پوری دُنیا میں کوئی نہیں کر سکتا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی یہ چین سے نہیں بیٹھتے ان میں سے بیشتر بیرون مُلک جا کر اپنا کھیل جاری رکھتے ہیں۔
آخری منظر
کُکڑ باز، کُکڑ اور ریفری نئے داؤ پیچ کے ساتھ کل پھر حاضر ہونگے تب تک تماشائی بھی بہت تھک چُکے ہوتے ہیں۔ سب اپنے اپنے بستروں میں دُبک کر خواب خرگوش کے مزے لیتے ہیں۔ ہاں جاتے جاتے اتنی سی عرض ہے ذرا خراٹے دھیرج سے لیجئے گا کیونکہ باقی قوم نے بھی تو سونا ہے کہیں نیند میں خلل نہ آجائے۔