سیاسی محرکات واقعات اور روحوں کا قد ناپتے ہیں
از، یاسر چٹھہ
کچھ دن پہلے کراچی میں پولیس کے ذمہ داران دہشت گردوں کے ہاتھوں جان کی بازی ہارے، بے چاروں کو شہادت نا مل سکی۔ خبروں میں مدیروں/رن ڈاون پروڈیوسروں نے کہیں نیچے جا کر جگہ دی۔
اسی دن ہی میں جناب آرمی چیف صاحب آرمی کے آفیسرز کے گھر گئے۔ آخری ذکر کردہ آفیسرز دہشت گردوں کے ساتھ مڈھ بھیڑ میں جان خدا کے سپرد کرنے والےلیکن شہادت کے مرتبے پر فائز ہوئے؛ اور ایک سینئیر آفیسر ٹریفک حادثے میں جان رب کے حوالے کیے، انہیں بھی شہادت نصیب ہوگئی۔ ان کی خبریں بھی مدیروں/رن ڈاون پروڈیوسروں نے قدرے نیچے جا کر پیش کیں۔
جی ٹی روڈ سے نوازشریف کی ریلی گزر رہی ہے۔ ایک بچہ جس کی عمر ابھی پڑھنے اور کھیلنے کی تھی وہ بھی اس ریلی کو دیکھنے آیا ہوا تھا۔ تفصیلات تضادات سے بھرپور ہیں، مختلف رنگ لیے ہوئے ہیں۔ مختصر یہ وہ بچہ بھی خدا کے پاس چلا گیا۔ آہا، دلگیر۔۔۔ کس قدر سخت دل ہوں میں ایک جملے میں اس غریب کے بچے کی زندگی اور روح سمیٹ دی۔ عزرائیل سے بھی سخت جگر!
نہیں ایسا نہیں۔
نکتہ بلکہ نکات کچھ اور تھے۔ اوپر کے پیراگرافوں میں بھی نکات کچھ اور ہیں۔ ہم میں سے پر ایک پڑھے گا کشیدے گا مگر وہی مطالب جن سے اسے سیاسی غرض و تسکین ہے۔
ایک پوسٹ لکھی کہ والدین اس قدر غیر ذمے دار کیسے ہو سکتے ہیں کہ ایک نو برس کے بچے کو اتنے غیر محفوظ موقع محل میں جانے دیتے ہیں۔ (نکتہ گرفت نا ہوسکا۔ اکثر ہوتا جاتا ہے۔ ہم اپنی جذباتی تسکین کی چاہت میں رہتے ہیں۔ نا ملے تو دوسرا کافر!) کہا تھا کہ ان ظالم وی آئی پیز کے سیکیورٹی پروٹوکول بھی بہت ظالم ہوتے ہیں۔ ساتھ عرض کیا کہ خود کو محفوظ کرلو، اپنے منحصرین کو مامون کرلو۔
ٹی وی کوریج سے دل کے ٹکڑے واپس نہیں ملتے۔ وہ سب اپنی سیاست و کاروبار میں مگن ہیں۔ غم اور مظلومیت بیچنا ان کی پیشہ وری ہے۔ اس پیشہ وری میں انہیں یہ مناسب لگا کہ کراچی میں شہید ہونے والے پولیس کے ذمے داران کو کیا مقام دینا ہے، آرمی کے شہید افسروں کو کیا مرتبہ دینا ہے، اور جی ٹی روڈ ریلی میں شہید ہونے والے بچے کی کس انداز سے کوریج اور عکاسی کرنا ہے۔
کل کی ان تینوں خبروں میں پولیس والوں کے بچے بھی میرے چشم تصور میں آئے؛ آرمی آفیسرز میں سے ایک شہید کے چھوٹے سے فرزند کی تصویر بھی دل چیرنے والی تھی۔ جی ٹی روڈ پر والدین کی کوتاہی اور سیکیورٹی کی گاڑی کی ماوف ضمیر، انسانیت بیزار اور پروٹوکول کی مشینیت کی زد میں آکر شہید ہونے والے بچے کی تصویر بھی جگر فگار کردینے والی ہے۔
پر کیا؟
ان موقعوں سے کچھ سیکھنے اور خود کو محفوظ کرنے کی سوچیں تو وہ بھلا ہے کہ اپنے من بھاوت سیاست اور کاروباری کھیل کھیلیں اور جذبات کی تالیاں پیٹیں؟
ایک بہت اچھے دوست نے میری وہ پوسٹ شیئر کی ہوئی تھی۔ کسی نے وہاں تبصرے میں مجھے ٹیگ کرکےکامنٹ کیا کہ ” میری دعا ہے اگلی بار آپ کے بیٹے کے ساتھ ایسا ہو۔” وہ صاحب کس پارٹی کے ہمدرد ہیں، بتانے کی ضرورت نہیں، آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ہمارے ہاں رویوں کی کیا سطح آن پہنچی ہے اور حالیہ سالوں مہینوں میں ان رویوں کی آبیاری کس نے فرمائی ہے؟
میرا جواب تھا، شکریہ ساجد صاحب آپ نے مجھے اور میرے بیٹے کو دعا دی۔ ساتھ ہی اپنی طرف سے ساجد صاحب کو بد دعا دی کہ خدا کرے آپ کے کسی بیٹے اور بھتیجے وغیرہ کے ساتھ البتہ ایسا نا ہو۔
ایک روزن کی خوشن نوا لکھاری نسیم سید صاحبہ نے کہا بہت بھلا کہا؛ دل سے کہا:
آپ کی بات سے متفق ہوں یاسر۔ ماں باپ کو اپنے بچوں کی حفاظت خور کرنی چاہیے۔ لیکن یہ بچہ حفاظتوں میں پلنے والا نہیں تھا۔ یہ غریب بچے سڑکوں پر ہی پلتے ہیں. زندگی بری بھلی گزارتے ہیں اور مرجاتے ہیں ان کی حفاظت کون کرے، ماں باپ کہیں محنت کی تغاریاں ڈھو رہے ہوتے ہی۔ .ان بچوں کے لیے ایسی شاندار ریلیاں۔ بلٹ پروف گاڑی سے خطاب کرتے ملک کے کرتا دھرتا وہ مناظر ہیں جو انہیں کسی طلسماتی دنیا میں لے جاتے ہیں۔ ان کو دیکھ کی اپنی حسرتوں کوذرا کی ذرا جی لیتے ہیں۔ جب نوٹ برس رہے ہوں اوپر سے تو کبھی ان نوٹوں کی لالچ میں جان کی پروا نہیں کرے؛ اورپھر یہ گاڑی سے کچلے بھی جائیں توبھلا نقصان کی کون سوچے گا۔ ان کی عمر کے سبب تو ایک ووٹ بھر نقصان بھی نہیں ہوتا۔ ٹی وی پر اس کی لاش سے اتنی ہمدرد کیوں؟ یہ ہم سب جانتے ہیں۔ انسانیت کس چڑیا کا نام ہے ہم نہیں جانتے ہم صرف سیاست جانتے ہیں۔
عرض کروں کہ میں تو شاید ساجد صاحب سے اپنے بیٹے اور اپنے لیے دعا لینے سے پہلے بھی پولیس اور آرمی کے شہداء کی اولاد کو اور جی ٹی روڈ پر شہید ہونے والے بچے کو اپنی اولاد کے روپ میں دیکھ چکا تھا؛ بعد از دعائے محترم ساجد تو جیسے خود اپنے چشم تخیل میں قبریں کھودتا پھرا۔۔۔۔ اور قبریں کھود کھود تھک ہار کر خود بھی گر گیا۔
مجھے کوئی شہید نا لکھے، مجھے کوئی شہید نا پکارے، میری کہانی پر کوئی کاروبار نا کرے کہ میری روح کو سخت اذیت ہوتی ہے۔ اور ایسے ہی حفظ ماتقدم کہہ رہا ہوں، ہمارے یہاں شہادت کا رتبہ بھی نصیبوں سے اور سیاسی اور ادارہ جاتی وابستگی سے ملتا ہے۔ مجھے انسان رہنا قبول، میری سیاست و کاروبار میں عکاسی کے دھندے سے معذرت۔
لیکن ساتھ کہوں گا کہ اپنے بچوں کی حفاظت اپنے والدین پر سب سے پہلے تھی۔ پروٹوکول کی مشینیت کو پکارنے سے اور عکاسی کی دھاندلیوں میں صرف سیاست ہے۔
یہ ایک غیر منطقی harangue ہے، لایعنی غوغا ہے۔ معذرت، آپ کا وقت ضائع کیا!
پس تحریر: آہ و زاری پر آنسو، ٹی وی کوریج، فیس بک سٹیٹسز، اور ٹویٹر کی ٹویٹوں کا بعد ازاں ایسا قحط پڑ گیا کہ اگلے ہی روز بلوچستان میں بم دھماکہ ہوا تو دکھ، کرب، کوریج، سٹیٹسز اور ٹویٹوں کے سمندر خشک ہو چکے تھے۔ کتنے خدا نے پاس بلائے؟ نہیں یاد؟ رہنے دیجیے، کیا فرق پڑتا ہے۔
پتا نہیں حاشیہ بھی سیاستوں کے تحت کھینچا اور پہچانا جاتا ہے۔ خدا جانے، یا ہماری شہری متوسط طبقے کی عقل دانیاں جانیں۔
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.