میڈیا اور سماجی تقاضے: ایک تہذیبی نوحہ

ایک روزن لکھاری
نعیم بیگ، صاحب مضمون

نعیم بیگ

بہت دنوں سے ذہن کے اندر ایک کھچڑی سی پک رہی تھی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق سیاسی ، معاشی اور معاشرتی حالات اس قدر دِگرگوں ہو چکے ہیں کہ آدمی جب تک پچھلی گتھی سلجھا رہا ہوتا ہے تب تک ایک اور نئی آفت سر پر آن کھڑی ہوتی ہے۔ ایسے میں جہاں ذاتی مسائل (ہر طبقہ  کا الگ معاشی و سماجی مسئلہ) الگ الگ سود و زیاں کا احساس دلاتے ہیں وہیں ایک بڑی کلاس جسے ہم زبانِ عام میں مڈل کلاس کہتے ہیں اپنی جدوجہد میں مصروف کسی نئی آفت یا خوشی کو اپنے دامن میں جگہ دیتے ہوئے اس قدر خوفزدہ رہتی ہے کہ ناجا نے آگے کیا ہو؟

یہ ایک فطری عمل ہے کہ انسانی سماجی رویے غیر ہموار معاشرتی سطح پر اور زیادہ غیر متوازن ہو جاتے ہیں۔ معاشرے کے اندر صرف ایک عنصر ان تمام برائیوں پر پل باندھ سکتا ہے اور وہ ہے انصاف کی بروقت فراہمی اور قانون کی بالادستی۔ بدقسمتی سے  دونوں عناصر ہمارے ہاں ابھی اس نہج پر نہیں آ سکے ہیں جہاں ان کے دور رس اور رسیلے نتائج ہمیں زندگی کی بہت سی نعمتوں سے نوازیں۔

جب ہم مغرب کی بات کرتے ہیں تو یہ بات ذہن میں رکھنی لازم ہے کہ بنیادی طور پر وہاں تمام سماجی رویے انصاف و قانون کے فطری تقاضوں کے تحت ر و ا رکھے جاتے ہیں۔ اور پھر جہاں کوئی شخص رو گردانی کرتا ہے تو ملکی قوانین حرکت میں آ جاتے ہیں۔ آپ دیکھئے فٹ پاتھ پر چلتے ہوئے اگر قدم آپ نے سڑک پر رکھ دئیے تو لمحوں میں ٹریفک رک جائے گی۔ لیکن کبھی آپ نے سوچا کہ ایسا کیونکر ممکن تھا کہ آپ نے قدم رکھے تو ٹریفک چند لمحوں میں رک گئی ۔ وہ یوں ممکن تھا کہ اس سڑک پر گاڑی کی رفتار پہلے سے ہی آس پاس کی آبادی کی بنیاد پر متعین کر دی گئی تھی اور سب ڈرائیور اس پر کاربند تھے۔ اگر بڑی سڑک ہے تورفتار کچھ زیادہ، اگر رہائشی ہے تو کچھ کم اور اگر اسکول یا ہسپتال ہے تو مزید کم۔ یہ وہ سسٹم ہے جس کی خواہش ہم اکثر یہاں کرتے ہیں ۔ لیکن بغور جائزہ لیں تو اس کے پس منظر میں ایک ہی عنصرغائب نظر  آئے گا اور وہ ہے قانون کی بالادستی جس کی بنیاد پر ملکی قوانین بنائے جاتے ہیں۔

یہ تمہید کچھ زیادہ طویل ہوگئی ۔ یہ دیکھنا بہت ضروری ہے کہ ہمارے ہاں انصاف کی شروعات کہاں سے ہوں۔ اس پسِ منظر میں بظاہر تو ایک عام سی بات ہے کہ انصاف کا ترازو تو عدالت کے پاس ہے اور اسے ہی انصاف کو تولنا ہے اور بانٹنا ہے ۔ لیکن ایسا نہیں ہے اور یہ ایک بڑا سوال ہے ۔ جب ہم گزشتہ کئی دھائیوں سے عدلیہ کی آ زادی کا نعرہ بلند کرتے ہوئے ایک عام شہری کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ اب عدلیہ آزاد اور خود مختار ہے تو دیکھنا یہ ہے کہ واقعی ایسا ہی ہے جو کچھ کہا جا رہا ہے یا پھر یہ بھی ایک ایسی ہی چال ہے جو معاشرے کی غیر ہموار سطح پر رکھی شطرنج کی بساط کی طرح ڈولتی ہوئی طرفین کے کھلاڑیوں کو ان کے اپنے اپنے مفادات کا تحفظ فراہم کرتی ہے۔

لیکن ٹھہریئے۔ اس منظر کو دیکھنے سے پہلے ہمیں اس منظر کو سامنے لانے والے ان عناصرِ ترکیبی کو سامنے لانا ضروری ہے تاکہ ہمارا نقطہ نظر واضح ہو سکے۔ اس سارے کھیل میں آپ اگر توجہ دیں تو ایک بڑا فریق دونوں اطراف کے مقاصد کو پورا کر رہا ہے اور وہ ہے ہمارا میڈیا۔ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا اس وقت جس اونچے سماجی مقام پر کھڑا نظر آتا ہے، وہاں اپنے مقاصد میں اس کی صرف ایک ہی ترجیح اسکا مطمح نظر ہے اور وہ ہے اسکا معاشی مفاد۔ ہم سمجھتے ہیں کہ بنیادی معاشی مفاد کے بغیر کوئی کام آج کی دنیا میں آگے نہیں بڑھتا لیکن پھر وہی بات کہنی ہوگی کہ فوری اور فطری انصاف کا فقدان اس ناانصافی کی بنیاد ہے۔

 انصاف کی عدم موجودگی  کا اس بات سے اندازہ لگائیے کہ ایک ایسی گفتگو جو علمی اور عقلی دلائل پر مبنی اپنے معاشی مفاد سے آزاد صرف سوچ کے بہتے دھارے کو انصاف کے پلڑے میں لانے کی سعی کرتی ہے وہ قابل گردن زدنی قرار دے دی جاتی ہے  لطف کی بات یہ ہے کہ اس  ’’انصاف‘‘ کا تعین وہ ادارہ خود کرتا ہے جس کے خلاف انصاف کی دھائی دی جاتی ہے۔ مزید یہ کہ نان سٹیٹ ایکٹر بھی اس میں پوری طرح ملوث ہیں۔ جو اکثر ’’سوموٹو‘‘ فوری ’’انصاف‘‘ مہیا کر دیتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ  صرف سماجی رویوں میں تبدیلی لانے بلکہ اعتدال کا عنصر نمایاں کرتے ہوئے ہم اسے کے اثرات عام آدمی تک پہنچنے میں بری طرح ناکام ہو جاتے ہیں اور عدمِ برداشت کا ظالمانہ رویہ جس سے تشدد کی فضِا اپنے عروج پر آن پہنچی ہے، جنم لیتا ہے۔

مزید برآں یہ بنیادی سوال اٹھتا ہے کیا فطری انصاف کے قانونی اور تصوراتی تقاضے جو میڈیا کی آزادی سے منسلک ہیں جو بنیادی طور پر انسانی حقوق کی پامالی کے ردِعمل کے طور پر لکھے گئے اور عالمی منظر نامہ سے ہمارے ہاں بیدار ہوئے کیا وہ پورے ہو رہے ہیں یا ان میں ریاستی دباؤ کے تحت جمالیاتی دباؤ کے کم ہونے سے معاشی پہلو زیادہ نمایاں ہو گئے ہیں۔ دوسرے کیا میڈیا عوام کے ان مسائل کی صرف نشان دہی کر رہا ہے یا پھر انکا حل بھی پیش کر رہا ہے۔

قتل و غارت ، حادثاتی اموات کے نشان، بموں کے دھماکے، خو ن میں لتھڑے انسانی اعضا، روتی ہوئی انسانی آنکھوں کے زخم، بلبلاتی ہوئی بہنوں کی صدائیں، چینختے، سینہ کوبی کرتے ماؤں کے چہرے اور سینکڑوں خودکشیوں پر مبنی سنسنی پھیلاتی ہوئی خبریں، ٹی وی چینلوں پر بریکنگ نیوز، بلا سنسر سی سی ٹی وی کی فوٹیج، سڑکوں پر بہتے خون کی ندیاں اور اس پر ریٹنگ کے عَلم بلند کرتے دعوے اور کلاشنکوفوں کے سائے میں پروان چڑھتے لمبے بالوں والے نان سٹیٹ ایکٹرز کے ڈھکے چہرے اور ان کے ساتھ رعونت زدہ چہروں والےعوامی نمائندے جو علم و فکر کے دریا بہا رہے ہوتے ہیں کیا یہی سب کچھ دکھانا اور عوام تک انکی ترسیل صحافت ہے تو پھر یہ دیکھنا ہوگا کہ ابلاغیات کی اخلاقی تزویر کہاں سے شروع ہوتی ہے۔ جبر اور منافقت کے درخشاں ستارے کہاں چمکتے ہیں۔ حیوانی اور انسانی فطرت کی سرحدیں کہاں اپنی لکیر کھینچتی ہیں۔

اگر اب لفظوں نے اپنے معنی بدل لئے ہیں تو پھر ہمیں اپنی اقدار کو بھی بدل لینا ہوگا۔ اگر انسانی خون اتنا ارزاں ہو گیا ہے تو دنیا کو  علمِ معاشیات کے اشاریئے بدلنے ہو نگے۔ بھوک اور ننگ دھڑنگ جسم مٹی سے اٹے اور سردی گرمی سے بے نیاز ننگے پاؤں، چہروں پر یاسیت کے گہرے سائے تلے بھیک مانگنے والے بچے ہمارا اگر مستقبل نہیں ہیں تو ہمیں اپنے قومی نصاب کو نئے سرے سے لکھنا ہوگا۔ اپنی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کا نظام اب ری وزٹ کرنا ہوگا کہ آنے والے کل کے ہونے والے ہم اپنے شہید کہاں سے امپورٹ کریں گے۔

مجھے یاد پڑتا ہے کہ دو دہائیاں پہلے جب صرف ایک ٹی وی چینل ہوتا تھا تو اس پر کبھی کبھار ادب و علم و فکر ، انسانی رویوں پر مبنی مذاکرات یا سنجیدہ گفتگو پیش کی جاتی تھی گو دورانیہ کم تھا لیکن تھا تو سہی۔ اخبار آج بھی اپنے ادبی صفحات نکالتے ہیں لیکن مواد ملاحظہ فرمائیے۔ اِکا دُکا مضمون گو آج بھی ہم پرھتے ہیں لیکن اس سے ہٹ کر جو اخبار ہوتا ہے اس سے صرف مسائلستان کی دنیا کی سیر ہی کی جاسکتی ہے۔ ذہن پراگندگی کے اثرات سے بھرپور رویوں کا شکار ہو کر اپنے فرائض سے لا پروا ہو جاتا ہے اور پھر بے حسِی اپنے پوری طاقت کے ساتھ ان تمام معاملات پر حاوی ہو جاتی ہے۔ اسی لئے اب ایک حادثے یا بم کے دھماکے میں سینکڑوں انسانوں کے خون کے بعد بھی ہم چند الفاظ کہہ پر اپنی سماجی اخلاقی اور معاشرتی ذمہ داری سے مبّرا ہو جاتے ہیں اور پھر روز مرہ کے کاموں میں یوں مشغول ہو جاتے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔

میری رائے میں میڈیا کا  بنیادی رول اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ جہاں ایسی خبریں عوام تک پہنچانا اسکے فرائض منصبی میں ہے وہیں سماجی اور سوشل معاملات میں فکری اور علمی گفتگو کو بروئے کار لاتے ہوئے فورمز کی سطح پر تھنک ٹینک کا رول ادا کرنا اسکا ایک منصب ہے۔ قومی نزاکت کے معاملات پر گفتگو کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ ان کو ایک خاص سطح پر رہنے دیا جائے۔ لیکن لوکل اور بنیادی ماس لیول پرگفتگو، کھیلوں کی ترویج ، اسکی کوریج،سکولوں اور بچوں کی خبریں، چھوٹے چھوٹے گلیوں اور محلوں کے معاملات پر مثبت انداز میں عوامی مسائل کو سامنے لانا عوامی سطح پر انقلاب لا سکتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اس وقت یہ کام سوشل میڈیا پرکچھ حد تک ممکن ہو رہا ہے۔ البتہ اسے ابھی مزید نکھارنے اور دیکھنے کی ضرورت ہے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ سوشل میڈیا اس وقت دنیا کے طول و عرض پر پھیلے ہم زبان دوستوں کو جس طرح اکھٹے کئے ہوئے عالمی سطح پر ہر سماج کی اپنی اقدار کو ترویج دے رہا ہے وہیں’’ اکروس دی گلوب’’ تمام اقوام کو یک جا کرنے میں اپنا رول بھی ادا کر رہا ہے۔ ہمارے بہت سے دوست اردو پوسٹ پر متن کا اندازہ کرتے ہوئے یا ٹرانسلیشن کی سہولت کا استعمال کرتے ہوئے نہ صرف اپنی پسندیدگی کااظہار کرتے ہیں بلکہ کبھی کبھار انگلش یا جرمن زبان میں جواب بھی دیتے ہیں بلکہ اکثر یہ بھی ہوا کہ انہوں نے اس پوسٹ کو فالو بھی کیا۔

بہرحال اب وقت آ چکا ہے کہ ہم ان معاملات کو ایک نئی نظر سے دیکھیں اور سرعت سے تبدیل ہوتی ہوئی عالمی فضا کو اپنے موافق کریں اور قومی تشخص کو نرم و گداز کرتے ہوئے اپنے عالمی رتبہ کو کمال اوج تک لے جائیں یا کم از کم اسے خواہش کی حد تک تو ضرور رکھیں ، کہ خواب تعبیر پا لینے کی ایک سیڑھی ہے ۔ بقول ہمارے دوست انیس یعقوب  ’’ ملک کئی دہائیوں تک شناختی بحران کا شکار رہا، پھر تھک ہار کر انہوں نے بحران کو ہی اپنی شناخت بنا لیا۔‘‘

About نعیم بیگ 146 Articles
ممتاز افسانہ نگار، ناول نگار اور دانش ور، نعیم بیگ، مارچ ۱۹۵۲ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ گُوجراں والا اور لاہور کے کالجوں میں زیرِ تعلیم رہنے کے بعد بلوچستان یونی ورسٹی سے گریجویشن اور قانون کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۷۵ میں بینکاری کے شعبہ میں قدم رکھا۔ لاہور سے وائس پریذیڈنٹ اور ڈپٹی جنرل مینیجر کے عہدے سے مستعفی ہوئے۔ بعد ازاں انہوں نے ایک طویل عرصہ بیرون ملک گزارا، جہاں بینکاری اور انجینئرنگ مینجمنٹ کے شعبوں میں بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے رہے۔ نعیم بیگ کو ہمیشہ ادب سے گہرا لگاؤ رہا اور وہ جزو وقتی لکھاری کے طور پر ہَمہ وقت مختلف اخبارات اور جرائد میں اردو اور انگریزی میں مضامین لکھتے رہے۔ نعیم بیگ کئی ایک عالمی ادارے بَہ شمول، عالمی رائٹرز گِلڈ اور ہیومن رائٹس واچ کے ممبر ہیں۔