شعبۂ طب کی صداقتیں اور ہمارا سماج؟
از، نعیم بیگ
نطشے نے کہا تھا، “محبت کے جذبے میں دیوانگی ہوتی ہے، لیکن اس دیوانگی میں عقل و فہم جزوِ لازم ہے۔” ایک اور جگہ نطشے نے کہا، “لوگ اکثر سچ سننا پسند نہیں کرتے، کیونکہ وہ اپنے فریبِ نظر کو برباد نہیں دیکھ سکتے۔ “
دونوں یہ اقوال کس قدر سماجی اہمیت کے حامل ہیں اور کس طرح پاکستانی سوسائٹی پر منطبق ہوتے ہیں اس پر ہم آگے چل کر گفتگو کرتے ہیں، لیکن یہ طے رہا کہ جذبوں کے پاگل پن میں عقل و فہم اور سچ میں فریب نظر کے دائرے اگر توازن کھو دیں تو انسان مکمل فرشتہ یا حیوان بن جاتا ہے اور دونوں صورتیں انسانی حیات کے لیے زہر ہلاہل ہیں۔
عرصے کے بعد جب مجھے پاکستان دوبارہ منتقل ہونا پڑا تو میرے دیرینہ خواب میرے ساتھ تھے۔ اس بار میرا مستقل ٹھکانہ لاہور تھا، لیکن عجیب اتفاق ہوا کہ چند ہی دنوں میں پاکستان میں تیزی سے بدلتے ہوئے سماجی، ثقافتی اور معاشرتی عوامل و ماحول کو دیکھ کر مایوس ہو گیا۔ مجھے اندازہ ہوا کہ ایک عام آدمی بے حد نفیساتی دباؤ کا شکار ہے۔ انتہا پسندی اور صبر و برداشت کا مادہ جو ہماری پہچان ہوتا تھا معدوم ہو چکا ہے اور سیاسی طبقاتی کشمکش جس میں مذہبی تفرقہ بندی بھی شامل ہے، میں چھینا جھبٹی اپنے عروج پر ہے ۔ مجھے احساس ہوا کہ یہاں آ کر جس سماجی آسودگی کو میں نے دل میں سجا رکھا تھا، وہ شاید حاصل نہ کر پاؤں گا۔
تاہم اس عالم مایوسی میں مجھے متوسط طبقے کے باشعور اہل علم و ہنر دوستوں نے بہت حوصلہ دیا، اور میں نے اپنی پوری توجہ لکھنے پر مرکوز کر دی۔ اپنے ادبی و علمی کاوشوں کا دائرہ کار بڑھا دیا اور اس کا رخ پرنٹ میڈیا سے سوشل میڈیا اور سائبر سپیس کی طرف موڑ دیا۔ گزشتہ ایک دھائی سے زاید عرصہ میں الیکٹرونک میڈیا میں آزادی تحریر و تقریر کے شتر بے مہار کے منفی اثرات کو اپنی تحاریر سے مثبت سوچ میں بدلنے کا بیڑا اٹھایا۔ اپنی کہانیوں اور ناولوں میں سوسائٹی میں نظر آنے والے منفی کرداروں کو اجاگر کرتے ہوئے میں مثبت انسانی وجود کی تلاش کا کام کیا۔ میرے تعیں ہر منفی پہلو کا دوسرا سرا مثبت ہوتا ہے مجھے صرف اسے ہے ضبطِ تحریر میں لانا ہے۔ کائنات میں جو فطری توازن اس کی اپنی اور انسانی بقا کی شرط ہے، اسے سماج میں کسی حد تک ایک ادیب لا سکتا ہے۔
میں جہاں ایک طرف فکش لکھ رہا تھا، وہیں دوسری طرف معاشرے کے چیدہ چیدہ معاملات میں اپنی سی کوشش سے اپنے مضامین میں مقصدیت کے مثبت رنگ بھرنے لگا۔ یہاں مجھے اندازہ ہوا کہ لوگ اپنے آس پاس ہونے والے واقعات میں مثبت رنگ دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ امن و سکون کی تلاش میں ہیں۔ ایک دھائی سے زائد عرصہ سے ملک میں مذہب اور لسانی و فقہی تفرقہ بندی کی آڑ میں دہشت گردی کے عفریت نے جو خوف اور بے یقینی کی فضا قائم کی ہے لوگ اسے مسلسل رد کر رہے ہیں۔
ایسے میں کچھ ادارے اور پیشے میرے سامنے ایسے آئے جس میں سرفہرست شعبۂ طب ہے، جن کے بارے میں الیکٹرونک میڈیا کا ایک مخصوص حصہ مسلسل بول رہا تھا اور یہ تاثر دے رہا تھا کہ شاید پاکستان میں اس وقت یہ ادارہ تباہ حالی کے دھانے پر پہنچ گیا ہے۔ یہ احساس اجاگر ہو رہا تھا کہ اچھے ڈاکٹرز سب ملک سے باہر جا چکے ہیں۔ باقی ماندہ سینئر ڈاکٹرز کام نہیں کر رہے ہیں اور جونیئرز ڈاکٹرز کے مالی معاملات، اوقاتِ کار اور دیگر سیکورٹی مسائل کو حکومتی سطح پر مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے اور پی ایم ڈی سی جو ڈاکٹرز کی آئینی ریگولیٹری اتھارٹی ہے، بری طرح سے مالی و دیگر بد عنوانیوں میں گری ہوئی ہے۔
ہو سکتا ہے کہ کسی حد تک ایسا درست بھی ہو کیونکہ دو روز پہلے ہی حکومت پاکستان نے ایک آرڈیننس کے ذریعے پی ایم ڈی سی کی ایگزیکٹو کونسل کو تحلیل کر دیا ہے اور ایک عارضی نظام قائم کر دیا ہے، جو نئی کونسل کے قیام تک کام کرے گا۔ اسی کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے پرائیویٹ میڈیکل کالجز میں ہونے والی بد عنوانیوں اور عدم نظم و ضبط پر سخت موقف اپنایا ہے۔ یہ ایک ایسا پہلو تھا جو مستقبل میں شعبۂ طب میں رونما ہونے والے نئے منظر نامے کو رقم کرے گا۔
اس واقعے سے پہلے راقم اپنے ایک مضمون میں کراچی کے معروف یورالوجسٹ سرجن ڈاکٹر ادیب رضوی کے پیشہ ورانہ اور فلاہی ذاتی سرگرمیوں پر واقعاتی طرز پر ایک اظہاریہ لکھ چکا تھا، جو ایک روزن کی سماجی وہب سائٹ پر نہ صرف شائع ہوا بلکہ ملک بھر میں اس کی پذیرائی ہوئی۔ اس مضمون کی سوشل میڈیا پر پذیرائی پر مجھے سینکڑوں افراد کے فوری فیڈ بیک اور کمنٹس سے اندازہ ہوا کہ لوگوں کا شعبۂ طب پر ابھی تک بھروسہ قائم ہے۔ اگر کچھ لوگ اسے بگاڑ کی شکل دے بھی رہے ہیں تو یقیناً کامیاب نہیں ہوں گے۔
اس پس منظر اور صورت حال میں راقم کو حال ہی میں اپنی ایک قریبی عزیزہ کی شدید بیماری کے سلسلے میں لاہور کے سروسسز انسٹیچیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے زیر نگرانی یا اٹیچیڈ سروسسز ہاسپیٹل میں مسلسل آٹھ دس دن ہسپتال کے متعدد شعبوں سے براہِ راست واسطہ پڑا۔ مریضہ کو شعبۂ پلمونالوجی کے سینئر ترین ڈاکٹر کامران چیمہ کی زیر نگرانی رکھا گیا۔ وہ خود کئی بار مریضہ کو دیکھنے آتے رہے۔ میڈیکل کالج کے پرنسپل ڈاکٹر محمود جو سرجن ہیں، نے حد درجہ انسانی و پیشہ ورانہ تعاون کیا، جس سے ان کی انتظامی و پیشہ ورانہ قابلیت روز روشن کی طرح عیاں ہوئی۔
شعبۂ امراضِ سینہ یا پلمونالوجی کے ڈاکٹر مظہر اور ڈاکٹر افضال و دیگر ڈاکٹروں نے جس قدر توجہ دی وہ حیران کن حد تک پیشہ ورانہ تھی۔ راقم کو ہسپتال کے دیگر شعبوں میں، وارڈ در وارڈ، میڈیکل آئی سی یو اور دیگر میڈیکل وارڈز اور ریڈیالوجی شعبوں میں پے دے پے جانا پڑا۔ جس سے ذاتی طور پر ہسپتالوں کی بیشتر شکایات اور توہین آمیز رویوں کا جائزہ لینے میں آسانی ہوئی۔
قابل تحسین بات یہ تھی مجھے ہمہ وقت ڈاکٹروں (بلا تفریق سینئر یا جونیئر) کے رویے عام مریضوں سے بے حد مشفقانہ اور پیشہ ورانہ محسوس ہوئے۔ راقم اکثر اپنے فارغ اوقات میں کسی نہ کسی وارڈ میں جاکر خاموشی سے اپنے طور پر ڈاکٹرز، پیرا میڈیکل سٹاف اور نرسوں کے رویوں کا جائزہ لیتا رہتا اور یہ دیکھنے کی کوشش کرتا کہ میڈیا کی اکثر اوقات شکایات میں کتنا سچ پنہاں ہے لیکن راقم کی کسی ایسے منفی واقعہ کی تلاش رائیگاں ہی گئی۔
میں نے عام لوگوں کو مرض کی تکلیف میں مبتلا ضرور دیکھا لیکن سٹاف کے رویوں سے مطمئن پایا۔ کئی ایک لوگوں سے ذاتی گفتگو کی تو محسوس ہوا اگر کوئی کمی ہے تو ہسپتالوں میں ایسے سٹاف کی کمی ہے جو لوگوں کو مکمل طور پر معلوماتی آگہی دے سکیں اور اس کی وجہ صرف اور صرف تعلیم کی کمی تھی ورنہ ہسپتال میں ہر جگہ معلوماتی نشان اور بورڈ آویزاں تھے لیکن استقبالیہ کاؤنٹرز اکثر خالی نظر آئے۔
انسانی تعلقات میں ساری محبت ایک دوسرے کے دکھ درد کے اندر چھپے ہوئے جذبوں میں پوشیدہ ہوتی ہے جس میں عقل و فہم اور پیشے سے دیوانگی کی حد تک پرخلوص ہونا پہلی شرط ہے اور طب کے شعبۂ میں یہی انسانیت کا متبرک درجہ حاصل کر لیتی ہے۔ اس کا عملی مظاہرہ میں ان وارڈز میں مریضوں اور ڈاکٹرز کے چہروں سے محسوس کرتا تھا۔
نطشے درست کہتا ہے، سچ کی حقیقت جاننے کے لیے سراب یا فریبِ نظر کو برباد کرنا ہوگا جو میرا خیال ہے کہ ابھی پاکستانی الیکٹرونک میڈیا کے بس میں نہیں۔ وہ فی الحال صارفی نظام کے کل پرزے ہیں، جب عقل و دانش اور اپنے مالی مفادات سے نکل کر انسانی مفادات تک رسائی حاصل کر لیں گے تب انھیں شعبۂ طب کے علاوہ بھی کچھ شعبوں میں انسان بستے نظر آئیں گے۔