میرواہ کی راتیں __ ناول، جسے ادھورا چھوڑنا گناہ ہے
تبصرۂِ کتاب از، اظہر حسین
کراچی کے معروف قلم کار کا رفاقت حیات کا یہ اب تک واحد ناول ہے۔ یہ دو ہزار سولہ میں شائع ہوا۔ اشاعت کے برس ہی اس کا پہلا ایڈیشن ختم ہو گیا۔ ناول نے کتاب پرستوں کو حیرت میں مبتلا کیا، کتاب پسندوں کو چونکایا اور عام قاری کو انگشتِ بَہ دنداں کیا۔ ناقدینِ ادب نے ناول کو اہم ناول قرار دیا۔ یوں دو برس بھر یہ ناول، فکشن کے پڑھنے والوں کے بیچ وجہِ گفتگو بنا رہا، اب تک بنا ہوا ہے۔ سوچنے کی بات ہے اس ناول میں ایسا کیا ہے کہ اس کا شمار قابلِ بحث ناولوں میں ہے؟
1۔ کسی کتاب کے اچھا ہونے کے اسباب ڈھونڈنے یا اس پہ دلائل لانے کی شاید زیادہ ضرورت نہیں ہوتی۔ ایک ناول کے عمدہ اور مستند ہونے کے لیے اس کا خواندنی اور پُر لطف ہونا ہی کافی ہو سکتا ہے۔ کسی ادب پارے کو خواندنی (readable) بننے یا بنانے کے لیے جو پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں اس کی توضیح صرف و محض ایک مستند فکشن نگار ہی کے سامنے کی جا سکتی ہے۔
عام قاری یا فکشن کے علاوہ کسی اور صنفِ ادب کا فرد اس بَہ ظاہر سادہ مگر بَہ باطن پیچیدہ نکتے کو سمجھنے سے قاصر رہے گا۔ ایک پختۂِ کار شاعر اسے سہلِ ممتنع کی مثال سے سمجھ جائے تو اور بات ہے۔ سادہ بیانیے اور سطحی تکنیک کے ناول کو وہی خدشہ لاحق ہوتا ہے جو ایک بَہ ظاہر سہلِ ممتنع میں کہی ہوئی غزل کو: ادھر تخلیق کار یا شاعر معنوی خطوط میں کم گہرا (shallow) یا سطحی ہوا اُدھر اس کا کام عوامی فنون (popular arts) کی کیچڑ میں گرا۔ چُناں چِہ اس پہ لازم آتا ہے کہ وہ سادہ بیانی میں بھی ایسی رچاوٹ اور گہرائی لائے کہ معانی، لا معانی ہو جائیں، مسلمہ غیر مسلمہ دِکھنے لگ جائے، سفید، سفید نہ رہے، سیاہ سفید دکھے، اور باقی سارے رنگ بھی قایم و سالم نظر آتے رہیں؛ گڈ مڈ بھی اور یکتا و تنہا بھی! ایسی ہنر وری کے لیے فکشن نگار کا کائیاں ہونا ضروری ہے۔ رفاقت حیات ایک کائیاں فکشن نگار ہیں اور میرواہ کی راتیں ایک سہل ممتنع ناول!
2۔ میرواہ کی راتیں کی ایک بڑی خوبی اس کا پریشان کن (disturbing) ہونا بھی ہے۔ ہر بڑا ناول پریشان کن ہوتا ہے۔ پڑھنے والے کے گزشتہ فکشنی علم کے لیے پریشانی کا سامان مہیا کرتا ہے۔ یہ پریشانی فکشنی حقیقت کو کڈھب سے پیش کر کے، متعین حقیقت پر انوکھے سوال اٹھانے سے بھی نمُو پاتی ہے اور ان سوالوں کے جوابوں کی تلاش میں خوار ہونے کی لذت سے بھی۔
ناول میں اس نوع کے سوالات حلوائی کے نو جوان بیٹے نذیر (مرکزی کردار) کی ذہنی اور جنسی آسودگی و نا آسودگی، اس میں برہنہ بدنی کو دیکھ کر ہیجانی کیفیت کی پیدائش، اندرونِ سندھ کے ایک گوٹھ میرواہ میں اپنی ادھیڑ چچی کی جانب جنسی رجحان، یا نذیر کی شمیم اور خیر النّسا کے ساتھ دل لگیوں سے پیدا نہیں ہوتے؛ یہ سوالات کردار نگاری، گرد و پیش (setting) اور پسِ منظر و پیشِ منظر کے باہمی ربط اور اس ربط سے تشکیل ہونے والی متنی حقیقت کے ہیولے سے پیدا ہوتے ہیں۔
یہ ہیولے یا فینتاسیاں نذیر کی شمیم کے ساتھ رات کی سیاہیوں میں ہونے والی ملاقاتوں کے بیانوں میں زیادہ شدت سے محسوس کی جا سکتی ہیں۔ ان ملاقاتوں کا احوال اور خوف و تشویش ابھارنے والا بیان گہرے انہماک والے قاری کے لیے انتشار (disturbance) کا خاصا سامان رکھتا ہے۔ اسی سامان کے اندر راحت اور طمانیت کی دیویاں بھی چھپی بیٹھی ہوتی ہیں، جن کا معروف نام جمالیات ہے۔
3۔ میر واہ کی راتیں موضوع اور طرزِ نگارش کے اعتبارات سے دل چسپ اور لطف کا حامل ہے۔ لطف خیزی کا یہ چشمہ ناول کے ابتدائی صفحوں ہی سے پھوٹنے لگتا ہے۔ نو جوان نذیر اپنے چچا کے گھر کے ایک کمرے میں تنہا اپنی سوچوں سے لڑ رہا ہے جب کہ ملحقہ کمرے میں اس کے چچا چچی اپنے تعلقِ خاص کے دوران پر سرور آوازیں پیدا کر کے اس کے جذبات کو انگیخت کرنے کا سبب ہیں۔
نذیر کا سوچوں کے ساتھ لڑائی کی وجہ اس کا آنے والی رات کی مہم جوئی کے لیے خود کو ذہناََ تیار کرنا ہے۔ وہ مہم جوئی کیا ہے؟ نذیر کا اپنی چچی کے ساتھ کیسا تعلق ہے؟ چچی کے دل میں بھتیجے کے لیے کیسے جذبات سر اٹھائے ہوئے، یا اٹھا سکتے ہیں؟
قاری کے ذہن میں کلبلانے والے یہ سارے سوالات اپنی مقصدیت میں جوابات ہیں۔ کیوں کہ چاہے ایسے سوالات کے جوابات تا حال لا موجود ہیں،یہ اپنی فطرت اور مزاج میں جمالیاتی حظِ وافر سے زیادہ رکھتے ہیں۔ مزید بَر آں، جہاں مرکزی کردار کا اضطراب کئی طرح کے معانی پیدا کرتا ہے، وہیں نذیر کی مہم جوئی کا سنسنی خیز بیان قاری کو تجسس اور حیرت سے ہم کنار بھی رکھتا ہے۔ تجسس سے ہم کناری ناول کے آخیرلے صفحے تک جائے گی!
4۔ ناول کی تفہیم میں ایک قدم اور آگے جانے کے لیے اسی ناول کے مصنف کی تنقیدی بصیرت والی گلی سے گزرنا ایسا بے فائدہ بھی نہیں ہوتا۔ چُناں چِہ، جب ہم رفاقت حیات کے کسی دوسرے ناول پہ کیے گئے تبصرے کی روشنی میں اس کے اپنے ناول میں جھانکتے ہیں تو اور ہی طرح کی تفہیم ہوتی ہے۔ کراچی ریویو شمارہ 3 میں بھید کا تجزیہ کرتے ہوے ہمارے ناول نگار لکھتا ہیں:
” … میری ناقص رائے میں زبان دنیا کی سب سے زیادہ پامال اور آلودہ شے ہے۔ دنیا بھر کے صنعتی اور کیمیائی فضلے سے کہیں زیادہ آلودہ شے، اور شاید آسمانوں سے اترنے والے صحیفے اس کی اسی آلودگی اور کثافت کو کم کرنے کی ایک بَر تَر کوشش قرار دیے جا سکتے ہیں۔ ایک فکشن لکھنے والا بھی اپنے تئیں یہی کوشش کرتا ہے۔ وہ اس پامال اور غلاظت میں لتھڑی چیز کو بلندی اور ترفع عطا کرنے کے لیے اپنے سے جتن کرتا ہے … “ اور
” … ہر انسان اپنی زندگی کا کوئی نہ کوئی ایسا بھید ساتھ لیے پھرتا ہے جس اس کے چہرے مہرے اس کے حلیے اور اس کی حرکات و سکنات سے آشکار نہیں ہوتا۔ وہ بھید اس کے دل یا اس کی روح میں بند ہوتا ہے۔“
ان دونوں تنقید پاروں کو سامنے رکھ کر میرواہ کی راتیں کی زبان، زبان کے دم خم سے پیدا کیے جانے والے مضبوط بیانیے اور بیانیے کے جادو سے وجود پذیر ہونے والے تمام ناولائی عناصر پہ توجُّہ کریں تو معلوم دیتا ہے کہ ناول نگار نظری اور عملی، ہر دو صورتوں میں ناول نگاری کو موضوع کے ساتھ ساتھ، زبان، اسلوب اور ہیئت کی طاقتوں اور توانائیوں سے بننے پر یقین رکھتا ہے۔ وہ کرداروں کی زندگیوں کے بھیدوں کو بَہ ظاہر راست مگر فی الاصل تہ دار بیانیے سے متشکل کرتا ہے۔ داستانی طرز میں خارجی واقعات سے نئے واقعات کا ظہور کرتے جانے کے بَہ جائے، کہانی کا بہاؤ کرداروں کے اندر سے باہر کی اور رہتاہے؛ ایک ایسا طرز جو ریاضت طلب ہے۔
5۔ فکشن کے تجزیے کا آخری اور حتمی نتیجہ ابد سے لا موجود رہا ہے۔ ایک نکتہ سارے نکتوں کا خدا ہوتا ہے: فلاں کتاب اپنے کو پڑھواتی ہے اور آخری سطر تک۔ میر واہ کی راتیں پر ایسا مبالغہ، مبالغہ نہیں سنائی دیتا۔
راقم کو اس ناول نے لطف و حظ بھی دیا ہے اور خیالات کے نئے پن کا مقدس اور روحانی احساس بھی۔ یہ احساس ثواب نما ہے۔ ثواب جو نیکی کی تکمیل کے بعد محسوس ہوتا ہے۔ ادھوری رہ جانے کی صورت میں فکشنی نیکی گناہ کا روپ دھار سکتی ہے۔ اس ناول کو نہ پڑھنا بدعت، جب کہ ایک مرتبہ شروع کر کے ادھورا چھوڑنا گناہ ہے۔
اشاعت و طباعتِ مکرر میں ناول، عکس پبلشرز، لاہور نے شائع کیا ہے۔