مشرف عالم ذوقی سے ایک ملاقات : یادیں جو یاد رہ جاتی ہیں
(محمد ریحان ، ریسرچ اسکالر جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی)
ذی علم اور ادبی لوگوں کے درمیان وقت گزارنا میرے نزدیک دنیا کا سب سے بہترین مشغلہ ہے۔ اس وقت اور لمحے کی اہمیت بے نظیر ہے کہ جس میں ہمیں کچھ نیا سیکھنے کا موقع ملتا ہے.میں اکثر اپنے علمی و ادبی ذوق کی تسکین کے لئے ادب سے وابستہ لوگوں سے ملتا رہا ہوں۔ پچھلے دنوں مشرف عالم ذوقی صاحب کے گھر جانے کا شرف حاصل ہوا. اتوار کا دن تھا. ذوقی صاحب اس دن خاص طور پر طلبہ سے ہی ملتے ہیں.اس کا علم مجھے پہلے نہیں تھا. یہ بات انہوں نے ملاقات کے دوران ہونے والی گفتگو میں بتائی.اس دن عزہ معین بھی آئی ہوئی تھیں.ان کا تعلق سنبھل سے ہے.انہوں نےاپنی علمی و ادبی سرگرمی سے نئے ریسرچ اسکالر کو کافی متاثر کیا ہے.ان کے کئی مضامین مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہو چکے ہیں.عزہ کئی سمینار میں اپنا تحقیقی مقالہ بھی پیش کر چکی ہیں.کچھ دن قبل اپنے کزن کی شادی میں وہ دہلی آئی تھیں.لیکن چونکہ وہ علمی و ادبی ذوق رکھتی ہیں اور فکشن کی تخلیق و تنقید کی طرف ان کا فطری رجحان ہے.اس لئے اپنے تفریحی سفر کو علمی بنانے کے لئے ذوقی صاحب سے ملنے کا ارادہ کیا۔
ذوقی صاحب سے فون پر بات ہوئی تو پتہ چلا وہ دہلی میں ہی ہیں.عزہ موقع کو غنیمت جانتے ہوئے ذوقی صاحب سے ملنے آئیں.ان کے ساتھ ان کی چھوٹی بہن بھی آئی تھیں.ان کے دو بھائی محمد فرحان اور محمد بلال بھی ساتھ تھے.فرحان مجھے مزاج کے کافی سنجیدہ لگے.فرحان وکالت کی پڑھائی یعنی ایل ایل بی کرتے ہیں اور اردو سے قلبی لگاؤ رکھتے ہیں.میں نے دیکھا ہے کہ وکیل حضرات بھی اردو اشعار خوب یاد کرتے ہیں.عدالت میں جرح کرتے ہوئے بسا اوقات ان کو استعمال میں بھی لاتے ہیں.مجھے فرحان کی شخصیت میں تہذیبی اور اخلاقی قدریں نمایاں طور پر نظر آئیں.عزہ کے چھوٹے بھائی یعنی محمد بلال بہت چھوٹے ہیں.عمر یہی کوئی دس سال کے آس پاس ہے.ان کی آنکھوں کی بناوٹ ان کی ذہانت کا پتہ دے رہی تھیں.ہم پر بعد میں یہ واضح بھی ہو گیا کہ ان کی ذہانت ان کی عمر سے زیادہ بڑی ہے.بلال ہمارے اور ذوقی صاحب کے درمیان ہونے والی گفتگو ٹکٹکی باندھے سن رہے تھے۔
ذہین بچوں سے سوال کرنا میری عادت رہی ہے۔ میں نے بلال سے کئی سوال پوچھے.وہ ہنستے ہوئے ہرسوال کا جواب دے رہے تھے.ان کے انداز میں اعتماد تھا. مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ وہ ساتویں کلاس میں پڑھتے ہیں.جب کہ عام طور پر بلال کی عمر کے بچے چوتھی یا پانچویں کلاس میں ہوتے ہیں.بلال کے متعلق ایک خاص بات یہ معلوم ہوئی کہ وہ اتنی کم عمر میں نہ صرف اردو روانی سے پڑھتے ہیں بلکہ اردو میں کہانیاں بھی لکھتے ہیں.آج ادب اطفال کو ہمارے “بڑے”لکھنے والوں نے نظر انداز کر دیا ہےشاید اس لئے بلال اپناادب خود تخلیق کرتے ہیں.بلال کے بارے میں عزہ نے بتایا کہ وہ مشکل الفاظ کے معنی سیاق سباق سے سمجھتے ہیں. تذکیروتانیث کے معاملے میں خاصے محطاط ہیں.ہندی اچھی بولتے ہیں.کئی موقعے سے ہندی زبان میں ان کی تقریر بھی ہوئی ہے. ان کے اچھے خطیب ہونے میں کوئی شبہ بھی نہیں کیونکہ یہ کہا جاتا ہے A good listner is a good speaker
اور بلال ذوقی صاحب کے یہاں جس طرح ہم تن گوش تھے اس سے مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ ان کے اندر ضرور کوئی مقرر چھپا ہے۔
یہ جان کر حیرت ہوئی کہ ریاضی یعنیMathematics ان کا پسندیدہ مضمون ہے۔ میں نے پہلے ہی کہا کہ بلال کی آنکھوں سے ذہانت جھانک رہی تھی.ریاضی کو ایک ذہین بچہ ہی پسندیدہ سبجیکٹ کہہ سکتا ہے.بلال مجھے بہت اچھے لگے.میں ان کی کامیابی کے لئے دعا گو ہوں.ہم سب تقریبا ایک ہی وقت میں ذوقی صاحب کے دولت کدے پر پہنچے تھے. ذوقی صاحب کے استقبال کرنے کا انداز مجھے بے حد پسند آیا. پہنچتے ہی خیریت دریافت کی.میں پہلی دفعہ ان سے ملنے گیا تھا. عزہ بھی پہلی مرتبہ ان کے آشیانے پر گئیں تھیں.ظاہر ہے یہ بات انہیں معلوم تھی. اس لئے پہنچتے ہی انہوں نے راستے کی دشواریوں اور سواری کی دقتوں کے بارے میں دریافت کیا.پھر کچھ رسمی باتیں ہوئیں.انہوں نے ہمیں اس کمرے میں بیٹھایا جہاں وہ دیر رات تک اپنے تخلیقی کام میں مشغول رہتے ہیں۔
کمرہ بہت بڑا تو نہیں تھا. لیکن چھوٹا بھی نہیں تھا.دیوار کی ایک طرف سے ایک بڑا صوفہ اور دو سنگل صوفے لگے ہوئے تھے.وہاں دس بارہ لوگوں کے بیٹھنے جگہ تھی.دوسری طرف سے ایک لمبا مخروطی شکل کا ٹیبل تھا جس پر دو کمپیوٹر رکھے ہوئے تھے.رات کی خاموشی میں کاغذ پروہ جو کچھ رقم کرتے ہیں دن میں وہ اسےکمپیوٹر میں محفوط کردیتے ہیں.گیٹ سے قریب جس سے ہم لوگ داخل ہوئے تھے ایک بڑی سی آرام دہ کرسی تھی جس پر وہ اپنے خاص انداز میں بیٹھے ہوئے تھے.چہرہ ہشاش بشاش اور بے باک نطر آ رہا تھا.ویسے وہ فطری طور پر بھی بے باک اور بے خوف انسان ہیں. ان کی آرام دہ کرسی کے ٹھیک پیچھے دیوار کی الماری میں بے شمار کتابیں سجی ہوئی تھیں. کمرے کے شمالی حصے کی دیوار سے ایک بڑی کھڑکی لان کی طرف کھلتی تھی. اے سی چل رہا تھا اس لئے کھڑکی کا شیشا چڑھا ہوا تھا. کمرہ صاف ستھرا اور نکھرا ہوا تھا.ہر چیز سلیقے سے رکھی ہوئی تھی. کمرے کی نفاست دیکھ کر مجھے ان کی تحریر کی نفاست یاد آگئی۔
جس طرح ان کی نثر میں کوئی ابتری اور بکھراو نہیں ہوتا اسی طرح ان کی عام طرز زندگی میں بھی کوئی بےترتیبی نظر نہیں آئی. ذوقی صاحب مہمان نوازی کے سلیقے سے خوب واقف ہیں.پہنچتے ہی پینے کے لئے پہلے ٹھنڈا پانی پیش کیا.تھوڑی دیر بعد پھر شربت منگوائی.اس بیچ رسمی باتیں بھی ہوتی رہیں.کچھ ہی دیر میں پھر انواع و اقسام کے کیک، بسکٹ اور میٹھائیاں پروس دی گئیں.چائے کا بھی اہتمام کیا گیا تھا.حالانکہ ان کی اہلیہ گھر پر موجود نہیں تھیں.میں یہ بھول رہا ہوں کہ رسمی بات چیت کے بعد ادبی گفتگو کہاں سے شروع ہوئی. لیکن جہاں تک مجھے یاد آرہا ہے انہوں نے عزہ معین کی اس بات سے باضابطہ ادبی گفتگو کا آغاز کیا کہ لکھنے کی عمر کیا ہونی چاہئے یا کس عمر میں آکر قلم اٹھانا چاہئے۔
ذوقی صاحب نے بتایا کہ لکھنے کے لئے عمر کی کوئی قید نہیں ہوتی۔ انہوں نے اردو اور مغربی ادب سے ان ادیبوں کے نام گنوائے جنہوں نے نہ صرف کم عمر میں لکھنا شروع کیا بلکہ وہ کم عمری میں وفات بھی پاگئے. تاہم ان کے نام اور کارنامے سے پوری دنیا واقف ہے.جو نام مجھے یاد رھ گئے یا جن کے بارے میں مجھے پہلے سے معلوم تھا ان میں اردو کے مجاز اور انگریزی کے کیٹس قابل ذکر ہیں. کیٹس کا انتقال 25 سال کی عمر میں ہو گیا تھا.لیکن انگریزی شاعری کی تاریخ اس کے نام کے بغیر نا مکمل ہے. مجاز نے اگرچے 44 سال کی عمر پائی تھی لیکن یہ عمر بھی ادبی تاریخ میں انمٹ نشان چھوڑنے کے لئے کم ہے .منٹو نے بھی کوئی لمبی عمر نہیں پائی تھی.محض 43 سال کی عمرمیں اردو فکشن کے ذخیرے میں گراں قدر اضافہ کر کے وفات پا گئے. ان کی اس بات سے مجھے فرانسیسی ادیب البیغ کامیو کا نام یاد آگیا۔
میں نے جب کامیوں کا ذکر کیا تو ذوقی صاحب بہت خوش ہوئے. انہوں نے بتایا کہ کامیو ان کا سب سے پسندیدہ مصنف ہے.کامیوں نے بھی محض46 سال کی عمر پائی تھی.1960 میں جب وہ کار حادثے کا شکار ہوا اس وقت وہ “اجنبی” “زوال”، “طاعون” اور دوسرے لا فانی ناول لکھ چکا تھا. اس کو ادب کا نوبل انعام بھی دیا گیا.ایک اور فرانسیسی ناول نگاراور شاعر ریمنڈ رادیگیو ہے جو صرف بیس سال تک ہی زندہ رہ سکا تھا.اس نے محض اٹھارہ سال کی عمر میں Le Diable au corps یعنی “جسم کا آسیب” ناول لکھ کر بڑے بڑے نقادوں کی نظر اپنی طرف متوجہ کر لی تھی.خود ہمارے اردو میں کئی ایسے نام مل جائیں گے جو محض بارہ سے پندرہ سال کی عمر میں علمی و ادبی حلقے میں اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہو ئے.اس سلسلے میں مولانا آزاد کا نام لیا جا سکتا ہے.بارہ سال کی عمر سے وہ علمی اور بصیرت افروز مضامین لکھنے لگے تھے.اردو کے اکثر شاعروں کی شاعری کی ابتدا کم عمری میں ہی ہوئی.بہر کیف انہوں نے مثالوں کے ذریعے یہ واضح کر دیا کہ لکھنے کی کوئی عمر متعین نہیں ہوتی۔
مجھے یاد آ رہا ہے خود ذوقی صاحب نے اپنا پہلا ناول غالبا اٹھارہ سال کی عمر میں لکھا ہے۔ انہوں نے لکھنے کے معاملے میں عمر کے مسئلے کو لیکر سب سے بڑی بات یہ کہی کہ آپ کو اگر یہ احساس ہوتا ہے کہ آپ لکھ سکتے ہیں تو کسی چیز کاانتطار نہ کریں.لکھنا شروع کر دیں. تنقید کا خوف ذہن سے نکال دیں.آپ اچھا لکھتے ہیں یا خراب دونوں صورتوں میں نقاد آپ کے پیچھے لگے رہیں گے.نقاد کی تو سانسیں ہی آپ کی تخلیق پر منحصر ہوتی ہیں. لہذا جب آپ لکھیں گے تو وہ آپ کے پاس آکسیجن لینے آئیں گے ہی.نکتہ چینی سے گھبرائیں نہیں. آپ بس اپنا کام کرتے رہیں. آپ کا حلقہ خود بخود بنتا جائےگا اور بڑھتا بھی جائے گا. انہوں نے لکھنے کے ساتھ ساتھ مطالعہ سے اپنا رشتہ ہمیشہ بنائے رکھنےکی نصیحت بھی کی. ظاہر ہے ہم اگر مطالعہ کو اپنی ڈھال بناتے ہیں تو ہم نکتہ چینوں کے کسی بھی طرح کے وار کو روک سکتے ہیں.اس کے علاوہ ہمارا مطالعہ جتنا وسیع ہوتا ہے ہماری تحریریں اسی قدر نکھرتی چلی جاتی ہیں. عالمی افسانوی ادب پر بڑی سیر حاصل گفتگو کی. تقریبا ہر بڑی زبان کے فکشن لکھنے والوں کے موضوعات اور انسانی زندگی اور سماج پر ان کے ہونے والے اثرات پر تفصیل سے اظہار خیال کیا۔
فرانسیسی اور روسی ادیبوں پر گفتگو زیادہ مرکوز رہی۔ اس کی وجہ یہ کہ ان دونوں زبانوں کا ادب زیادہ رچ ہے۔ ادب پر گفتگو ہوگی توفرانسیسی اور روسی ادب کا کچھ زیادہ ذکر ہونا فطری ہے۔ میں بھی ان کی گفتگو میں شریک ہو جاتا تھا۔ وہ مجھے اس کا موقع بھی دے رہے تھے۔ یہ صفت ایک بڑے فنکار کے یہاں ہی پائی جاتی ہے.وہ صرف اپنی بات نہیں کہتے.وہ دوسروں کے خیالات کو بھی جگہ دیتے ہیں.فرانسیسی ادب کے تراجم پر ہی میرا کام ہے. اس لئے میں زیادہ دلچسپی بھی لے رہا تھا. جہاں کچھ چیزیں گنجلگ معلوم ہوتی تھیں.ان کے متعلق درمیان میں سوال بھی کر لیتا تھا.وہ فوری ان سوالوں کے اطمنان بخش جواب بھی دیتے تھے.برصغیر ہند و پاک میں جو فکشن لکھا جا رہا ہے اس کی کیا صورت حال ہے اور آنے والے دنوں میں کس طرح کا فکشن لکھا جائےگا اس کا انہوں نے بھر پور جائزہ لیا. ان کی گفتگو سے میرے لئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ وہ ہندوستان کی ہر زبان میں لکھے جانے والے افسانوی ادب سے اچھی واقفیت رکھتے ہیں۔
مختلف زبانوں میں لکھنے والے ناول نگاروں پر بات کرتے ہوئے انہوں نے گتفگو کا رخ اپنی طرف موڑ دیا.انہوں نے کب سے لکھنا شروع کیا.ان کا تخلیقی ویژن کتنا اثرانگیز ہے. ان کے ناول کی انفرادیت کیا ہے.لکھنے والوں کی بھیڑ سے خود کو کیسے الگ کیا. ان سارے گوشوں پر انہوں نے کھل کر روشنی ڈالی.وہ کہانی کیسے بنتے ہیں اور مواد کیسے تیار کرتے ہیں اس پر بڑی دیر تک گفتگو کی.انہوں نے اپنے تخلیقی سفر کے بہت سے پڑاؤ کا ذکر کیا.انہوں نے باتوں بات میں بڑی اچھی بات یہ کہی کہ جینون رائٹر ہمیسہ اپنی نظر مستقبل پر رکھتا ہے. میں نے ان کی گفتگو میں ان کی تحریر کی سی روانی پائی.زبان کی صفائی ان کی سب سے اہم خوبی ہے. ان کو میں نے پڑھا ہے. پوکے مان کی دنیا اور لے سانس بھی آہستہ یہ دونوں ناول میرے مطالعے کا حصہ رہے ہیں. ان کو سنتے ہوئے ایسا لگ رہا تھا جیسے میں ان کو پڑھ رہا ہوں. ہم لوگ ان کے یہاں تقریبا تین گھنٹے تک بیٹھے رہے لیکن ان کی گفتگو کی چاشنی نے ایسا سحر پیدا کر دیا تھا کہ وقت کے گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلا. باتیں اتنی مفید اور معلوماتی کر رہے تھے کہ بس سنتے ہی رہنے کو جی چاہ رہا تھا.لیکن شام ڈھلنے لگی تھی.عزہ کو اسی دن سنبھل لوٹنا تھا اور ذوقی صاحب کو بھی منور رانا کی تیمار داری کے لئے ایمس جانا تھا. اس لئے مجلس بادل نخواستہ برخواست کی گئی۔
آخر میں انہوں ایک دلچسپ اور حقیقت پر مبنی بات کہی کہ ادب کو سمجھنے کے لئے وقت کی قربانی دینی ہوتی ہے۔ اپنے آپ کو وقف کرنا ہوتا ہے۔ ہمارا بدن جب تک ادب کی بھٹی میں تپتا نہیں اس وقت تک نہ ادب کی تخلیق ہوتی ہے اور نہ اس کی سمجھ پیدا ہوتی ہے۔ ادب کی بھٹی میں ہم اپنے جسم کو جلا کر ہی ادب کو سمجھنے والا دل اور روح تیار کرتے ہیں۔ ادب کا رشتہ انسان کے دل اور اس کی روح سے ہوتا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ آج کا مصنف اوپر اوپر کی چیزیں لکھ رہا ہے اور قاری بھی سطحی چیزوں میں خوش ہے.نتیجہ یہ ہے کہ چیتن بھگت کے ناول ہمارے سلیبس کا حصہ بن رہے ہیں اور اردو کا تو خیر پوچھنا ہی نہیں۔ ناول نگار جو تو لکھ کر چاہتا ہے تنقید نگار اسےکافکا اور چیخوف کے برابر رکھے۔ بہر کیف یہ ملاقات بہت خوشگوار رہی۔ آتے وقت انہوں نے مجھے اپنا ناول “نالۃ شب گیر” مطالعے کی غرض سے دیا۔
ناول دیتے وقت ایک اور اہم بات انہوں نے کہی کہ آپ میری باتوں سے اختلاف کر سکتے ہیں اور کرنا بھی چاہئے لیکن اختلاف کرنے سے پہلے پڑھئے ضرور۔ اکثر دفعہ ہوتا کیا ہے کہ لوگ سنی سنائی باتوں پر اپنا نظریہ قائم کر لیتے ہیں۔ افسوس کہ یہ چلن ان دنوں کچھ زیادہ ہی عام ہے۔ متن سے دوری ہمارے دور کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ خیر انہوں نے جو ناول مجھے دیا تھا وہ میں نے پڑھ تو لیا ہے۔ لیکن اس پر اپنے تبصرے کو محفوظ رکھتا ہوں۔ یہاں پر میں بات کرنا مناسب نہیں سمجھتا۔ کسی اور موقعے سے اس ناول کے تھیم اور کردار کے حوالے سے بات کی جائےگی۔