محنت اور سرمایے کے بیچ کا تضاد ختم کیجیے : سہ روزہ لیبر کانفرنس کی تجاویز
ظہیر اختر بیدری
نیشنل لیبرکونسل کے زیراہتمام 2 روزہ سندھ لیبر کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں 150 سے زیادہ ہاری اور مزدور رہنما شریک ہوئے۔ مزدوروں اور ہاریوں کی تنظیموں کی طرف سے کچھ اہم تجاویزکو حتمی شکل دی گئی یہ تجاویز آیندہ ماہ حکومت سندھ کو پیش کی جائیں گی ۔ سندھ لیبرکانفرنس میں دیگر مزدور اور ہاری رہنماؤں کے ساتھ ساتھ ہیومن رائٹس کمیشن کی چیئرپرسن جسٹس ماجدہ رضوی اور پیپلز لیبر بیورو کے رہنما حبیب الدین جنیدی نے بھی شرکت کی ۔ تجاویز میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ پاکستان کے 7کروڑ مزدوروں اور ہاریوں کے لیے قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ میں نشستیں مخصوص کی جائیں اور سیاسی جماعتیں مزدوروں اور ہاریوں کو جنرل نشستوں کے لیے ٹکٹ فراہم کریں اور آئی ایل او کے ان تمام کنونشنوں کو پاکستان کے مزدور قوانین کا حصہ بنایا جائے جن پر پاکستان نے دستخط کیے ہیں محکمہ محنت مزید لیبر انسپکٹروں خصوصاً خواتین لیبر انسپکٹروں کا تقرر کرے۔
کانفرنس میں کہا گیا کہ سندھ میں زرعی مزدور سخت بد حالی کا شکار ہیں اس کی اہم وجہ ان کی لیبر قوانین کے تحت ملنے والی مراعات سے محرومی ہے ۔ لیبرکانفرنس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ زرعی مزدوروں اور ماہی گیروں کو بھی انجمن سازی کا حق دیا جائے اور ضلع سطح پر ہاری کورٹس قائم کی جائیں۔ مزدوروں کو حکومت کی طرف سے منظور شدہ کم سے کم اجرت کی ادائیگی کو لازمی بنایا جائے ۔ سرکاری اداروں میں محنت کشوں اور ہیلتھ ورکرز کے مسائل حل کیے جائیں، کانفرنس میں کہا گیا کہ گھروں میں کام کرنے والی خواتین حقوق سے محروم ہیں ہوم بیسڈ ورکرز کو بھی مزدور قوانین کے مطابق سہولتیں فراہم کی جائیں۔ جسٹس ماجدہ رضوی نے کہا کہ کمیشن مزدوروں کو حقوق دلانے میں مدد کرنے کے لیے تیار ہے۔
اس میں شک نہیں کہ لیبرکانفرنس میں پیش کی جانے والی تجاویز قابل تعریف ہیں ۔ خاص طور پر اسمبلیوں میں مزدوروں اور ہاریوں کے لیے نشستیں مخصوص کرنے کی تجویز قابل تعریف ہے لیکن اس حوالے سے دو اہم امورکی نشان دہی ضروری ہے۔ ایک مزدوروں اور ہاریوں کی تعداد دوسرے اسمبلیوں میں مزدوروں اور ہاریوں کے لیے نشستیں مخصوص کرنا۔ پائلر مزدوروں کے مسائل پر تحقیق کرنے اور مزدور حقوق دلوانے کے لیے کام کرنے والا ادارہ ہے۔ پائلرکے ڈائریکٹر کرامت علی سے میں نے پچھلے دنوں پاکستان میں مزدوروں کی تعداد معلوم کی توکرامت علی نے اپنی تحقیق کے مطابق مزدوروں کی تعداد ساڑھے چار کروڑ بتائی۔ ہاریوں اور کسانوں کی تعداد کا حتمی طور پر علم نہیں لیکن کہا یہ جاتا ہے کہ زرعی معیشت سے جڑے ہاریوں اور کسانوں کی تعداد 60 فیصد ہے اگر یہ اندازے درست ہیں تو ہاریوں اور کسانوں کی تعداد زیادہ ہونا چاہیے اور ان کی درست اور حقیقی تعداد کے مطابق ہی قانون ساز اداروں میں ان کی نشستوں کی تعداد کا تعین کیا جانا چاہیے۔اس کانفرنس میں ہی نہیں بلکہ ہر مزدورکانفرنس میں یہ شکایت کی جاتی ہے کہ پاکستان میں لیبر قوانین پر عملدرآمد نہیں ہو رہا ہے۔
اس حوالے سے اس حقیقت کا ادراک ضروری ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں خاص طور پر شکاگو کے سانحے کے حوالے سے سرمایہ داروں اور صنعتکاروں نے مزدوروں میں بڑھتی ہوئی بے چینی کو روکنے کے لیے مزدور قوانین کا ہتھکنڈا استعمال کیا تاکہ مزدوروں کی طبقاتی جدوجہد کی ناک میں مزدور قوانین کی نکیل ڈال کر انھیں قابو میں رکھا جائے لیکن اس نظام کی خباثت کا عالم یہ ہے کہ یہ نظام اپنے بنائے ہوئے قوانین پر ہی عملدرآمد ہونے نہیں دیتا۔ کیونکہ قوانین پر عملدرآمد کرانے والے ادارے کرپٹ اور سرمایہ داروں کے ایجنٹ ہوتے ہیں۔ جب صورتحال یہ ہو تو مزدور قوانین پر عملدرآمد کا رونا حماقت ہی نہیں بلکہ غیر منطقی بھی ہے۔اصل مسئلہ یہ ہے کہ محنت اور سرمائے میں حصہ داری کیا ہو۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ مزدور کی محنت کے بغیرپیداوار کاتصور ہی ممکن نہیں خواہ وہ مزدورکارخانوں، ملوں سے جڑا ہوا ہو یا کھیت اور کھلیانوں سے سرمایہ دار کا سرمایہ تو مختلف حوالوں سے حاصل کیا جاتا ہے خواہ لوٹ مار کا موروثی ہو یا بینکوں کے قرض کی شکل میں لیکن محنت انسان کا وہ سرمایہ ہے جو سرمایہ دارانہ نظام میں سرمایہ دار کا باجگزار بنا رہتا ہے۔
اصل مسئلہ نہ لیبر قوانین پر عملدرآمد کا ہے نہ اجرتوں میں اضافے کا اصل مسئلہ ہے پیداوارکے دو بنیادی عوامل محنت اور سرمایہ کاری کا۔اس حوالے سے مارکس نے اس حقیقت کی نشاندہی ’’قدر زائد‘‘ کے حوالے سے کی ہے کہ مزدوروں کی اجتماعی محنت سے جو سرمایہ حاصل ہوتا ہے اس میں سے بہ مشکل ایک چوتھائی حصہ صنعتکار مزدوروں کو اجرت کی شکل میں ادا کرتا ہے اور باقی تین چوتھائی حصہ خود ہڑپ کرجاتا ہے۔ جبتک اس تین چوتھائی سرمائے کو مزدوروں میں منصفانہ طور پر تقسیم نہ کیا جائے مزدور کے ساتھ انصاف نہیں ہوسکتا۔ یہ کام اس وقت ہی ہوسکتا ہے جب ریاست کو کنٹرول کرنے والے اداروں میں محنت کشوں کو ان کی تعداد کی مناسبت سے قانون ساز اداروں میں نمایندگی نہیں مل جاتی۔
اس تناظر میں لیبر کانفرنس کا یہ مطالبہ البتہ جائز ہے کہ اسمبلیوں میں مزدوروں اور ہاریوں کو ان کی تعداد کے حوالے سے نمایندگی دی جائے۔ لیبر کانفرنسوں میں ہاریوں کے لیے مزدور قوانین کے اطلاق کا مطالبہ کیا گیا ہے ۔ بادی النظر میں یہ مطالبہ بڑا منصفانہ نظر آتا ہے لیکن کانفرنس کے زعما غالباً اس حقیقت سے واقف ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام میں مزدور قوانین مزدوروں کی اشک شوئی کے لیے بنائے جاتے ہیں، عملدرآمد کے لیے نہیں اور جو مزدور قوانین بنائے جاتے ہیں وہ کسی حوالے سے منصفانہ نہیں ہوتے بلکہ ان کی حیثیت حاکم ومحکوم کی ہوتی ہے، ان قوانین کا ہاریوں اور کسانوں پر اطلاق محض اشک شوئی کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا۔ ان قوانین کے ہاریوں پر اطلاق سے وہ تضاد ختم نہیں ہوگا جو محنت اور سرمائے کے درمیان حائل ہے۔
نوآبادیاتی نظام کے خاتمے کے بعد تمام نو آزاد ملکوں نے ہاریوں، کسانوں اور جاگیرداروں کے درمیان صدیوں سے موجود تضاد کو ختم کرنے کے لیے زرعی اصلاحات نافذ کرکے جاگیردارانہ نظام کو ختم کردیا۔ لیکن پاکستان غالباً دنیا کا واحد ملک ہے جہاں ابھی تک جاگیردارانہ نظام نہ صرف موجود ہے بلکہ سیاست اور اقتدار پر بھی اس کا تسلط قائم ہے۔ اگر لیبر کانفرنس میں ہاریوں کے حوالے سے مزدور قوانین کے اطلاق کے بجائے زرعی اصلاحات کا مطالبہ کیا جاتا تو یہ مطالبہ زیادہ منصفانہ اور منطقی ہوتا۔ اس حوالے سے اس تحقیق کی البتہ ضرورت ہے کہ پاکستان میں جاگیر داروں کی ملکیت میں ابھی تک کس قدر زرعی زمین موجود ہے کیونکہ ایوب خان اور بھٹو کے دور میں ہونے والی زرعی اصلاحات کو جاگیرداروں اور وڈیروں نے ناکام بنادیا تھا کیونکہ ان اوقات میں جاگیردار اقتدار کا حصہ اور بیورو کریسی کے مالک تھے۔
بشکریہ: ایکسپریس اردو