امتحان ذہانت کا ہونا چاہیے یادداشت کا نہیں
(ظہیر استوری)
“بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ زندگی پہلے امتحان لیتی ہے پھر سبق دیتی ہے مگر استاد پہلے سبق دیتا ہے پھر امتحان لیتا ہے”۔ فرق دونوں میں اتنا ہے کہ زندگی کا امتحان ہمیشہ کے لئے سبق بن جاتا ہے مگر استاد کا امتحان پاس ہونے کے بعد کبھی یاد بھی نہیں آتا۔ سارا سال ماسٹر جی آنکھوں میں بڑا سا چشمہ لگا کر لکڑی کی کرسی پر ٹانگ پہ ٹانگ رکھ کر کروٹیں بدلتے ہوئے ٹاٹ یا لکڑی کی بینچوں پر بیٹھے بچوں کو زندگی میں کامیابی کا سبق پڑھا رہے ہوتے ہیں اور ٹوٹی پھوٹی بینچوں پر مٹی اور دھول میں ادھ لپٹے یہ مستقبل کے جانباز چپ چاپ ماسٹر جی کی باتوں کو اپنے سر کے اُوپر سے گزرتے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔
سکول، کالج سے لے کے یونیورسٹی تک ہمارا امتحانی نظام صرف اور صرف بچوں کی یادداشت ٹیسٹ کر رہا ہوتا ہے اُن کی ذہانت نہیں۔ سارا سال پڑھانا، یاد کرنا اور امتحان میں صرف تین گھنٹوں کے اندر سال بھر کی محنت کو کچھ صفحات میں بھر دینا اور اچھا گریڈ لینا، بچپن سے یہی سکھایا گیا ہے اور ہماری زندگی کا مقصد بھی یہی بن چکا ہے۔ کامیابی کی اس دوڑ میں صرف وہی بچے “آگے” نکل جاتے ہیں جن کی یادداشت دیگر کے مقابلے میں تیز ہوتی ہے۔ ہمارے نظام کا یہی رویہ بچوں کو رٹے کی طرف مائل کر دیتا ہے جس کی وجہ سے بچے نئی سوچ اور دیگر سرگرمیوں پر رٹا لگانے کو ترجیح دیتے ہیں اور یہ اُن کی مجبوری بھی بن جاتی ہے کیونکہ ان کی “کامیابی” ذہانت سے زیادہ ان کی یادداشت پر منحصر ہوتی ہے۔
تعلیم تو انسان کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے مگر بدقسمتی سے ہماری تعلیم ہیمں زندگی کی حقیقتوں کے متعلق سوچنے کے بجائے نمبر زیادہ لینے والی سوچ میں لگا دیتی ہے۔ ہم سودا کر رہے ہوتے ہیں کہ یاد کریں گے تو کامیابی آئے گی۔ سکول، کالج سے لے کے یونیورسٹیوں تک سب اس “جرم” میں برابر کے شریک ہیں۔ یونیورسٹی تو ایک ایسا ادارہ ہوتا ہے جہاں سے تھنک ٹینک پیدا ہوتے ہیں۔ یونیورسٹیاں اور کالجز تو بل گیٹس اور مارک زکربرگ جیسے لوگ پیدا کرتی ہیں جو دنیا کو بدل کر رکھ دیتے ہیں نہ کہ ڈگری لے کر نوکری کرنا سکھاتا ہے۔
برصغیر پاک و ہند میں علی گڑھ کے بعد شاید ہی کوئی ایسا تعلیمی ادارہ وجود میں آیا ہو جو علم کو علم سمجھ کر سکھائے۔ پاکستان کے وجود میں آنے میں جو سب سے اہم کردار تھے وہ علیگ تھے۔ اسی لئے تو جون ایلیا نے فرمایا تھا “پاکستان، علی گڑھ کے لونڈوں کی شرارت تھی” علی گڑھ کے “لونڈے” ایسے تھے کہ ان کی “شرارت” بھی برصغیر کو دو حصوں میں تقسیم کر گئی۔ اس “شرارت” کے پیچھے اُن کی وہ ٹریننگ تھی جو علی گڑھ کی چاردیواری میں اُن کو سکھایا گیا تھا۔
کامیابی کو اچھے گریڈز کے ترازو میں تولنا سکھانے سے زیادہ بہتر کم سکھانا اور اس پر عمل کرنا سکھانا ہے۔ آج کل تو ہر گلی محلے میں ہر کوئی اپنی ایک یونیورسٹی کھول کے بیٹھا ہوا ہے جن کا کام صرف ڈگریاں دینا اور پیسے بٹورنا ہے۔ میرٹ کو تو ہم کب کا بیچ کے کھا چکے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں یونیورسٹی تک پہنچنے کے پاپڑ بھیلنے پڑتے ہیں مگر ہمارے ہاں اس میں نہیں ہوا تو وہ ہے نا والی کہانی۔ جب یہی اس اور وہ والی ہونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبا عملی میدان میں مار کھا جاتے ہیں اور بیٹھ کے سسٹم کو کوس رہے ہوتے ہیں کہ ہم تو چاند پہ گھر بنا سکتے ہیں مگر حکومت کی طرف سے کوئی سپورٹ نہیں ملتی۔ پڑھائی کے بعد نوجوان نسل کا سب سے اہم خواب صرف اچھی نوکری ہے جس میں ان کو کرنا کچھ نہیں ہونا چاہئے مگر تنخواہ اتنی ہونی چاہئے کہ عمر بھر پاؤں پھیلا کر کھانے کے بعد بھی ختم نہ ہو۔ محنت کرنا سکھایا نہیں جاتا کبھی تو خواب بھی ایسے ہی آئیں گے۔ ہم خود تو بیٹھ کے نصیحتیں کرنا چاہتے ہیں مگر کام کوئی نہیں ہونا چاہئے۔ اسی سوچ کے ساتھ اپنی محفلوں میں چوہدری بن کے سسٹم اور معاشرے پر الزامات لگانے کے علاوہ کچھ ہوتا نہیں ہے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ہماری اس سوچ کی ذمہ داری والدین سے لے کے تعلیمی اداروں تک کی ہے جنہیں معاشرے کے لئے اچھے انسان دینے کے بجائے گریڈ اور مارکس دینے والی مشینیں چاہئے۔ جو زندگی میں کچھ بھی کرے جس طرح سے بھی کرے بس پیسے کمائے باقی دیکھا جائے گا۔ جب اسی تربیت کا نتیجہ سامنے آتا ہے تو پھر معاشرہ اور سسٹم کو کوسنا شروع کر دیتے ہیں مگر کبھی غلطی سے بھی یہ نہیں سوچتے کہ آخر اس نتیجے کی وجہ کیا ہے؟
انسان آج تہذیب یافتہ، ماڈرن اور ٹیکنالوجی سے بھرپور زندگی گزار رہا ہوتا اور خود کو اسی ترقی کا حصہ کہلانا پسند کرتا ہے، اس تہذیب کو اس مقام تک پہنچانے میں کتنی محنت اور کتنی زندگیاں صرف ہوئی ہیں اس پہ کوئی توجہ نہیں دیتا۔ تھامس ایڈسن کو اسکول سے احمق کہہ کے نکال دیا مگر اس کی ماں نے اسے ایڈسن بنا کے دنیا کو تا ابد روشن کر دیا۔ یہ ایڈسن کی ماں کی تربیت کا ہی اثر تھا جس کی وجہ سے ایک احمق دنیا کو روشن کر گیا۔ ہمارا تعلیمی نظام ہمیں احمق تو بناتا ہے مگر ایڈسن بنانے کی وقعت ابھی تک نظر نہیں آتی۔ ہمیں بچوں کی یادداشت سے زیادہ ان کی ذہانت پر توجہ دینی چاہئے اور امتحان ذہانت کا ہونا چاہئے یادداشت کا نہیں۔