میرا جسم میری مرضی کا ایک اور پہلو
از، عامر فاروق
14 یا 15 برس قبل اسلام آباد میں ماں اور بچے کی صحت کے حوالے سے ایک قومی سطح کی ورکشاپ میں شریک تھا جہاں اس شعبے کے مختلف ماہرین نے اعداد و شمار اور تحقیق کے نتائج شیئر کیے۔
پاکستان میں حمل اور زچگی کے سبب ماؤں کی شرح اموات (maternal mortality rate) تشویش ناک حد تک زیادہ تھی۔ اصل نمبر یاد نہیں (گوگل پر ہر برس کا تاریخی ڈیٹا موجود ہے، دل چسپی رکھنے والے دیکھ سکتے ہیں) لیکن پاکستان اور ترقی یافتہ ملکوں میں فرق شاید کئی سو فیصد سے بھی زیادہ تھا۔
تھوڑا بہت یاد پڑتا ہے کہ اس وقت پاکستان میں ہر ایک لاکھ زچگیوں میں 300 کے لگ بھگ خواتین زندگی کی بازی ہار جاتی تھیں۔ جب کہ اس وقت یورپ کے ایک ملک سویڈن میں یہ شرح 4 یا 5 اموات فی ایک لاکھ تھی۔
بہ ہر حال، چاروں صوبوں کے طول و عرض میں سال ہا سال کی ریسرچ کے بعد ماہرین نے ملک میں ایم ایم آر کی بلند شرح کی وجہ کے طور پر 3 تاخیروں delays کا تعین کیا تھا۔ ماہرین نے یہ نتیجہ بھی نکالا تھا کہ اگر مذکورہ بالا 3 مواقع پر تاخیر نہ کی جائے تو دورانِ زچگی مرنے والی بہت سی ماؤں کو بچایا جا سکتا تھا۔ (یاد رہے کہ زچگی کے دوران ہونے والی موت کو avoidable death یعنی ایسی موت کہا جاتا ہے جس سے بچا جا سکے)۔ یہ 3 تاخیریں درج ذیل تھیں:
1۔ دردِ زِہ شروع ہونے پر گھر میں تاخیر (اس تاخیر کا شکار ہونے والے اکثر کیسوں میں سبب یہ دیکھا گیا کہ حاملہ عورتیں خود سے ہسپتال جانے کا فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں رکھتی تھیں۔
اور یہ اختیار رکھنے والے گھر کے مرد موقع پر موجود نہیں تھے۔ جب تک وہ آتے، یا فیصلہ کرتے عورتیں ایک نئی زندگی جنم دیتے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتی تھیں۔
2۔ گھر سے ہسپتال منتقل ہونے میں تاخیر (اس تاخیر کا سبب سواری نہ ہونا، کرایے کے پیسے نہ ہونا ہوتا تھا۔)
3۔ ہسپتال میں تاخیر (ہسپتال میں بر وقت طبی امداد یا ماہرانہ مشاورت کی عدم دست یابی)
اوپر بیان کردہ حقائق سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سائنسی بنیادوں پر تحقیق سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تین تاخیروں کی وجوہات دور کر کے ماؤں کو بچایا جا سکتا تھا۔ آپ کو بتاتا چلوں کہ ماں اور بچے کی صحت پر یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں میں وزارتِ صحت نے غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ مل کر ملک بھر میں ایم ایم آر کم کرنے کے لیے شان دار کام کیا، کیوں کہ سائنسی تحقیق بھی یہی بتاتی تھی کہ اس طریقے سے ماؤں کو بچایا جا سکتا ہے اور تاریخی حقائق بھی یہی بتاتے تھے۔
اگر آپ کے ذہن میں اب یہ سوال آئے کہ میں نے سویڈن کا حوالہ کیوں دیا تو اس کی وجہ یہ کہ ایک دور میں سویڈن کے بادشاہ کی ملکہ بھی دورانِ زچگی خون ضائع ہونے سے مر گئی تھی۔ اسی طرح کی وجوہات سے ایک ملکہ یہاں بھی مری تھی، ممتاز محل۔ شاہ جہاں کی بیوی اور اورنگ زیب کی ماں، جس کی یاد میں تاج محل بنایا گیا۔ لیکن ایسے ہی واقعے کے بعد سویڈن میں مڈ وائفری کا پہلا انسٹی ٹیوٹ قائم کیا گیا تھا۔
بہ ہر حال، اس جملۂِ معترضہ سے قطعِ نظر اس تحریر کا مقصد یہ عرض کرنا تھا کہ مذکورہ بالا تین تاخیروں میں اولین تاخیر کا ایک حل “میرا جسم مری مرضی” تھا اور ہے اگر کسی کو ڈرامہ نویس کی طرح یہ جملہ سنتے ہی تن بدن میں آگ نہ لگے تو۔
ویسے آج کل پاکستان میں ایم ایم آر 178 فی ایک لاکھ زچگیاں ہے، دس برس پہلے یہ 276 تھا اور 1995 میں 374 تھا۔ اس سے آپ یہ اندازہ بھی کر سکتے ہیں کہ چند لیڈرز، شام کو سیاپا کرنے والے چند اینکرز، فیس بک اور ٹوئٹر پر جھوٹ پھیلانے والے کچھ مخصوص عناصر اور ہمیشہ سیاست دانوں کو گالیاں بَکنے والی قوتیں جو مرضی کہتے ہوں پاکستان میں مسلسل مختلف شعبہ جات میں بہتری ہو رہی ہے اور ہر دور میں ہوتی رہی ہے۔ نہیں ہوئی تو میرے اور آپ کے حقِ اختیار اور حق انتخاب پر ڈاکے اور قدغنوں میں نہیں ہوئی۔ چلیں کوئی بات نہیں ان کا ملک، ان کی مرضی۔