دو ٹکے کی عورت اور خوابوں کی بھیک کا بیانیہ
دیکھنے سننے میں بڑے انٹیلی جنٹ بزنس مین لگتے ہیں آپ، لیکن یہاں بھاؤ کرتے ہوئے آپ نے مجھے حیران کر دیا۔ اس دو ٹکے کی لڑکی کے لیے آپ مجھے پچاس ملین دے رہے تھے۔
ڈرامہ میرے پاس تم ہو کے اس ڈائیلاگ میں غلط کیا ہے؟
بات تو سچ ہے… اگر وہی لڑکی دولت کے لیے مرد کی بَہ جائے اپنی صلاحیتوں پر بھروسا کرتی، اگر وہ اپنے مرد کو کسی دوسرے مرد کی جاہ و حشمت سے اندھی ہو کر چھوڑنے کی بَہ جائے اس لیے چھوڑتی کہ اس کے ساتھ اس کی ذہنی ہم آہنگی نہیں تھی؛ اگر وہ محبت کی خاطر بہادری اور صداقت سے اپنے کم زور ہو چکے رشتے کو توڑتی، اگر وہ اپنے بچے کے باپ، ایک محبت کرنے والے شوہر کو دھوکے میں نہ رکھتی؛ اگر وہ اس آنے پائی کے نظام کے کھوکھلے پن کا ذرہ سا بھی شعور رکھتی تو شاید دو ٹکے کی نہ ہوتی۔
یہ لکھنے کے ساتھ ساتھ یہ نہ سمجھا جائے کہ میں نے خلیل الرحمٰن قمر کے مرد عورت کے بندھن، عورتوں کے سماجی مقام اور ان کی انسانی حیثیت کے بارے میں گھٹیا خیالات کی تائید کی ہے۔ لیکن ڈرامے میں مہوش کا جو کردار تخلیق کیا گیا ہے، ایسی عورتیں دو ٹکے ہی کی ہیں، کوئی شک؟
ہاں مگر… ایسی عورتوں کی تخلیق وہ سماجی اقدار کرتی ہیں جنھوں نے عورت کے ہاتھ میں کشکول تھما کر اسے کہا ہے کہ اپنے سب خوابوں کی تعبیر کی بھیک مرد سے مانگو۔ خود اپنی صلاحیتوں پر کوئی بھروسا نہ کرو۔
از، کوثر جمال