میرے پاس تم نہیں خلیل الرحمن قمر ہی ہیں
از، یاسر چٹھہ
میرے پاس تم ہو کی کہانی اوسط سے بھی کم درجے کی تھی۔
- مکالموں میں البتہ گونج تھی۔ کون سی گونج اور کس چیز کی گونج؟
لا یعنیت اور زنگ زدہ سماجی سانچوں میں لتھڑی type thinking کی گونج؛ بالکل ایسی ہی گونج جیسے کسی تُک باز شاعر کی شاعری ہو؛ وہ تُک باز شاعر جسے صرف اپنے شاعر ہونے میں، یا ہو جانے میں، یا خود کو ایسا مان جانے کا واہمہ اشد لاحق ہو؛ یا، اسے یہ احساس زدگی ہو کہ قدیم یونانی، شاعر کو پیغمبرِ پاک، a seer or prophet کا درجہ دیتے تھے۔ اس لیےوہ بھی اہم ہے، اور سچا ہے۔ متعفن اور انصاف کے تفکرات، گہرائی اور سنجیدہ سوچنے کی کسی سوچ سے تہی دامن، خالی ڈھول کی طرح اونچی آوازیں نکال کر اپنی بلند آہنگی اور بَہ زور مقبولیت کو اپنی paradoxical ادبی سند کا درجہ باور کرتا ہو۔
سڑک پر جوس کے خالی ڈبے پر زور سے پڑنے والے پاؤں سے پاؤں مارنے والے شریر لونڈے کو بھی یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ بہت مؤثر ہے، آس پاس کی خاموشی میں، یا خاموشی جیسے شور میں اسی کا راج ہے؛ بالکل اسی لپاڑے کی طرح جو موٹر سائیکل پر وَن وِیلِنگ، one wheeling کرنے والے کو ہوتا ہے کہ اس پھدکنے کے سَمے وہی مرکزِ کائنات ہے، اور سب کلیسا، سب مندر، سب مساجد، سب سورج، حتیٰ کہ سارے کاپرنیکس اور تمام تر گلیلیو بھی اس کے گرد گھوم رہے ہیں۔ عین اس گدھے کی طرح جو ہنہناتے ہوئے پُر اعتمادی کے اس اولمپس پہاڑ پر high ہوتا ہے اور سمجھتا ہے کہ ہے کھوتے کی بانگ اور …
یہ تو تھی خلیل الرحمٰن قمر کے مکالموں کی معنوی، فکری، ثقافتی، صنفی سیاسی، اور استعاراتی حیثیت اور حِسیّت، sensibility۔
- کہانی کیا تھی؟ کہانی پاکستان کے سب چینلوں پر اسی طرح کے چلتے ڈراموں سے کیا مختلف تھی، کچھ بھی نہیں۔ گِھسی پِٹی سٹوری لائن …
- ہاں ڈرامے میں ادا کاری میں بہت جان تھی۔ خاص طور پر عدنان صدیقی کی۔ ان کے علاوہ ہمایوں سعید بھی دیو داس جیسے مصنوعی پَنے سے کبھی کبھی باہر نکلتے محسوس ہوئے۔ سویرا ندیم اور عائزہ نے بہت اچھے انداز سے اپنے آپ کو conduct کیا۔ دیگر فن کار بھی مؤثر انداز سے کام کرتے دکھائی دیے۔
- ڈرامے کے سکرین پلے میں راحت فتح علی خان کے گانے سے مکالموں کی سطحیت کو کسی حد تک با عزت face saving کا سہارا ملتا تھا، جو اسے گھٹیا درجے کی مردانہ حِسیّت اور اسی طرح کی عورتانہ ذوق بندی کے لیے کشش کا سامان مہیا کرتی رہی۔
راحت اونچے سُروں میں گرجتے تھے، تاثر میں جان ڈالتے تھے۔ اپنے قوالی کے پسِ منظر کے پاؤں دھو دھو کر پِئیں، ورنہ وہ بھی کوئی عاطف اسلم ٹائپ ہی رہتے۔
- ساہنے کا تیل بیچنے والے کے گرد کھڑے ہجوم کا سا جنسی و جمالیاتی ذوق رکھنے والے شائقین نے اے آر وائی ڈیجیٹل، ARY Digital کے اس میرے پاس تم ہو پتلی تماشا کو پذیرائی کا فیڈر پلا کر ثابت کیا کہ ہمیں وہی تیل چاہیے جس کی دھار اچھی ہو۔ پس ہمارے پاس خلیل الرحمٰن قمر ہی ہیں۔