میشا شفیع میشا صوفی بن گئی ہے؟
از، منزہ احتشام گوندل
مروی ہے کہ عشق و تصوف کے اسباق سکھاتے ہوئے ایک دن شمس تبریز نے اچانک مولانا رومی سے کہا کہ جائیں اور فلاں شراب خانے سے سرخ شراب کی دو صراحیاں لے آئیں۔ مولانا رومی، اعلٰی خاندان کے پروردہ، مشرق و مغرب کے شعرہ آ فاق عالم، ایک سواد اعظم جن کے آ گے جھکتا تھا۔
عزت و شرف سے نکل کر جنہوں نے کبھی ایک لمحہ نہ دیکھا تھا، اس اچانک فرمائش پہ دنگ رہ گئے۔ مگر چونکہ محبوب کا حکم تھا، سرتابی کی مجال نہ تھی اس لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔
مے خانے میں پہنچے تو مے خانے کا مالک حیران و پریشان ہوگیا۔ یا حضرت آپ جیسی ہستی مے خانے میں؟ ساتھ ہی یہ بھی حکم تھا کہ وہاں بیٹھ کے کچھ دیر دیگر شرابیوں کے ساتھ بات چیت بھی کرنی ہے۔ آپ نے وہ بھی کی۔ خیر آزمائش ہوئی اور نتیجہ یہ نکلا کہ کامل صوفی بننے کے لیے ضروری ہے کہ آپ اس فریم سے باہر نکلیں جس میں آپ اس نفسیات کے اندر ہوتے ہیں کہ آپ بڑے معزز و محترم ہیں۔
اف ایسا ویسا کچھ ہوگیا تو “لوگ کیا کہیں گے۔ “اس لیے ضروری تھا کہ کچھ ایسا کیا جاتا کہ سارے شہر کے لوگ آپ کے کردار پر کیچڑ اچھالتے، آپ شکستگی اور کامل رضامندی کے ساتھ وہ سب سنتے رہے، اس آزمائش کے بعد آپ کے اندر جو صبر و استقلال کا جوہر آیا وہ اس سے قبل مشرق و مغرب کا سب سے مستند عالم ہونے کے باوجود ناپید تھا۔
میشا شفیع نے ایک ٹویٹ کیا (اس ٹویٹ کے متن کا عکس یہاں ساتھ میں بطور تصویر دے دیا گیا ہے) جس میں انہوں نے ایک بات کی۔ اس کے بعد گالیوں اور کردار کشی کا جو طوفان اس کے خلاف اٹھا اس کے بعد وہ بھی صبر و تحمل کے کسی ایسے درجے سے لازمی گزر رہی ہوگی۔
جب کسی انسان کی کردار کشی کی جارہی ہوتی ہے تو لازم نہیں کہ یہ کام وہی لوگ کریں جو اپنے نفس خدا کے پاس رکھ کے دنیا میں آ ئے ہیں۔ بلکہ معاملہ ہمیشہ اس کے الٹ ہوتا ہے۔ گناہ و ثواب کے چکر میں آ کے پتھر مارنے والےعموماً وہ لوگ ہوتے ہیں کہ بے ضمیری یا مردہ ضمیری جن کی ذات کا جزو اول ہوتی ہے۔ کیونکہ با صفا آدمی کو پہلے اپنی خرابی نظر آ تی ہے، اس کے بعد دوسرے کی۔
بعض اوقات تو یہ بھی ہوتا ہے کہ انسان اپنی اصلاح کرتے کرتے دوسروں کے عیوب کی طرف دیکھنا ہی بھول جاتا ہے۔ ایسے لوگ جو گناہ ثواب یا نیکی و بدی کی حقیقی پرکھ رکھتے ہیں، ان کے ہاتھ میں پتھر ہوتے ہیں نہ زبان پہ گالی ہوتی ہے۔
میشا شفیع نے یہ قدم کیوں اٹھایا اس پہ درد مندی سے سوچنا چاہیے تھا۔ کیا وہ ایک طے شدہ لمحہ تھا جس کی زد میں آ کے وہ یہ سب کہہ گئیں، اس بات کی معرفت سے دور کہ ان کی لکھی چند لائنیں ان کے لیے کتنا بڑا امتحان ثابت ہونے والی ہیں۔ عام اور خاص میں یہی فرق ہے۔ میشا کے چند جملے آج اس کا اتنا بڑا امتحان بن گئے ہیں مگر وہ ہزاروں عام لوگ جو اسے گالیاں لکھ لکھ کے بھیج رہے ہیں، اپنی ان گالیوں پہ بھی قابل گرفت نہیں کیونکہ وہ عام ہیں۔