مشرق وسطیٰ میں نئی علاقائی تبدیلیوں کا ظہور
از، حسین جاوید افروز
اکتوبر 2019 میں مشرق وسطیٰ میں دو اہم علاقائی تبدیلیوں نے جنم لیا جن کی بَہ دولت یہ خطہ ایک بار پھر بین الاقوامی تعلقات میں بحث و مباحثہ کا موضوع بن گیا۔ پہلی تبدیلی جب داعش کا بد نامِ زمانہ سربراہ ابوبکر البغدادی شام کے بریشا گاؤں میں اپنی محفوظ پناہ گاہ میں امریکی فورسز کے ایک سریع الحرکت آپریشن کے نتیجے میں خاندان سمیت ہلاک ہو گئے۔ دوسر واقعہ جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پرانے آزمودہ اتحادی کردوں کی پیٹھ میں خنجر گھونپتے ہوئے امریکی فوج کے شام کے شمال مشرقی علاقے سے انخلاء کا اعلان کر دیا اور گویا اس اقدام کے بعد ترکی کو کھلی چھٹی مل گئی کہ وہ اس علاقے میں اپنے مفادات کی روشنی میں ایک بفر زون قائم کرے اور اس کے ساتھ اپنی فوجی موجودگی کو بھی اس اہم تزویراتی علاقے ایک مستقل حیثیت دے دے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کہ ترکی کو یہ مسلح کار روائیاں کیوں کرنا پڑیں؟ در حقیقت میں ترکی دو مسائل کی بَہ دولت یہ انتہائی قدم لینے پر مجبور ہوا ایک تو ترکی ہمیشہ سے ہی کرد فیکٹر سے سخت شاکی رہا ہے اور شام کے شمال مشرقی حصے میں ایک آزاد کرد زون انقرہ کی نگاہ میں ایک سیکورٹی رسک کی شکل اختیار کر رہا تھا، دوسرے یہ کہ 36 لاکھ شامی مہاجرین جو خانہ جنگی سے مجبور ہو کر ترکی میں پناہ گزین تھے اور ان کی بَہ دولت خود ترکی میں بھی سماجی مسائل جنم لے رہے تھے۔
چناں چِہ حفظ ما تقدم کے طور پر طیب رجب اردگان نے امریکی انخلاء کے بعد اس خلاء کو اپنے مفادات کی روشنی میں پر کرنے کی کام یاب کوشش کی۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ترکی شام سرحد پر 18کلومیٹر کے علاقے پر ایک سیف زون تشکیل دینا چاہتا ہے جہاں 36 لاکھ شامی مہاجرین کو بھی آباد کیا جائے اور کردوں کو بھی لگام دی جا سکے یوں جہاں کرد فیکٹر کم زور ہوا ہے وہاں ترکی نے اس سیف زون کی آڑ میں اپنی گرفت خاصی مستحکم کر لی ہے۔
ٹرمپ کی سیماب صفت فطرت کی بَہ دولت کرد فائٹر اپنے عسکری قائد مظلوم عابدی کی قیادت میں جو کہ اس علاقے میں ایک آزاد کرد زون تشکیل دینے کے خواہش مند تھے اپنے دیرینہ اتحادی امریکہ کی اچانک حربی قلا بازی کی بَہ دولت جیسے ہکا بکا سے ہوکر رہ گئے۔
حیران کن امر یہ ہے کہ چھ اکتوبر کو اس فیصلے کے نتیجے میں ٹرمپ نے کرد کی وفا داری امریکیوں نے ترکی کو فروخت کی اور حتیٰ کہ اپنے مشیروں سے بھی اس بارے میں نے مشورہ تک نہ کیا۔ اب ان دو اہم واقعات کے اثرات مشرق وسطیٰ کے پیچیدہ خطے پر کیا اثرات مرتب کریں گے یہ سوال بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین کے اذہان میں مسلسل ہچکولے کھا رہا ہے۔
جہاں یہ ٹرمپ کا یہ عمل تہران، انقرہ، ماسکو اور دمشق کے لیے باعثِ طمانیت رہا وہاں یہ امر بھی عیاں ہے کہ اب امریکی صدر کو خطے میں ایک نا قابلِ اعتبار اور احسان فراموش کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔ تاہم امریکہ اور ترکی کے مابین امریکی انخلاء کے اس فیصلے کو ایک خفیہ معاہدہ سے بھی تعبیر کیا جا رہا ہے جو کہ اب افشاء ہو چکا ہے۔
لہٰذا اب ترکی شمال مشرقی شام اور دریائے فرات کے مشرقی علاقے میں میں فوجی پیش قدمی سرعت کے ساتھ بڑھا رہا ہے اور ترک افواج کے شانہ بَہ شانہ شامی نیشنل آرمی نامی گروپ بھی موجود ہے۔ یاد رہے کہ یہ گروپ شام کی 19 اپوزیشن جماعتوں پر مشتمل ہے جو کہ چار اکتوبر کو تشکیل پایا ہے۔ ٹرمپ کے اس یُو ٹرن سے سیرین جمہوری فورسز مفلوج ہو چکی ہیں اور یہ سمجھا جارہا ہے کہ تقریباً چار برس بعد داعش کو طمانیت انبساط محسوس ہوئی ہے اور وہ متروکیت سے دامن بچانے میں کسی حد تک کام یاب رہی ہے۔
جب کہ مایوس ہر اول کرد ملیشیا کو بھی عالم مجبوری میں داعش کے قیدیوں کو بھی اپنی صفوں میں جگہ دینی پڑ رہی ہے جن کو اس نے قیدی بنایا تھا۔ کردوں نے جس طرح داعش، ترک فورسز اور شامی جمہوری فورسز کے خلاف محاذ ماضی میں کھولے اب وہی ان کے گلے پڑ رہے ہیں۔
کردستان تا حال ان کے لیے ایک خواب کی سی حیثیت رکھتا ہے، جب کہ امریکہ کا کردوں سے یہ عہد کہ شمالی شام میں ایک مخصوص پٹی پر ایک کرد زون قائم کیا جائے گا جس منصوبے کے حمایتی جمیز میٹس بھی رہے اور جو کہ اسرائیل کی طرح عراق ایران اور ترکی کے لیے ایک مستقل سوہانِ روح ثابت ہو گا۔
ٹرمپ کے امریکی فوجوں کے انخلاء کی خبر کے ساتھ ہی دم توڑ گیا۔ لہٰذا اب 9 اکتوبر کو ترکی نے اٹھارہ کلومیٹر کے شامی سرحدی علاقوں سرکانی اور تل ابیض کے علاقوں پر مشتمل پیس زون بنا کر اپنے منصوبے پر بہ زورِ عمل شروع کر دیا ہے، جب کہ اسرائیل کردوں کے لیے جعلی ہم دردی دکھاتے ہوئے ترک اقدامات کی زبانی کلامی مخالفت پر ہی اکتفا کر رہاہے۔
دوسری طرف ٹرمپ اپنی کار و باری خصلت کی بناء پر مشرقی شام میں تیل کے ذخائر پر امریکی فوج کی موجودگی پر مطمئن نظر آتا ہے، کیوں کہ تیل کے ذخائر ہی امریکی علاقائی مفادات کا کلیدی پہلو قرار دیے جاتے ہیں۔ اب اس پُر آشوب خطے میں حال ہی میں برپا ہونے والی دوسری اہم پیش رفت پر بات کرتے ہیں کہ ابوبکر البغدادی کی ہلاکت کے بعد داعش کا مستقبل کیا ہو گا؟
ویسے تو ہم نے گزشتہ چالیس برس میں یہی دیکھا جب بھی امریکی سامراج نے اپنے حربی و تزویراتی مقاصد کی تکمیل پر سارے عالم کو یہ نوید سنائی کہ فکر مت کرو اب دنیا پہلے سے زیادہ محفوظ ہو چکی ہے تو ہم نے یہی دیکھا ہے کہ دنیا پہلے کی نسبت زیادہ پیچیدہ اور غیر محفوظ ہوتی چلی گئی ہے۔ چاہے 1989 میں سرخ ریچھ کو افغانستان کے سنگلاخ پہاڑوں میں گرانے پر مغرب کا جشن ہو یا 1991 کے آپریشن ڈیزرٹ اسٹارم کے بعد صدام کی شکست پر امریکی ورلڈ آرڈر کے نفاذ کا اعلان ہو، 2001 میں نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف گلوبل جنگ کا اعلان ہو یا 2003 میں صدام حکومت کا انہدام ہو، یا پھر 2011 میں اسامہ بن لادن اور اب 2019 میں البغدادی کی ہلاکتوں پر امریکی صدور کی جانب سے سینہ چوڑا کر کے بہ بانگِ دُہل یہ اعلان کرنا ہو کہ وہ کتے کی موت مار دیا گیا ہے، یہ سب مان لیجیے ایک سراب سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔
ہر عالمی حملے کے نتیجے میں خیر نے نہیں بل کہ شر کی قوتوں نے ہی زور پکڑا ہے اور اس خلاء کو طاقت سے پُر کرنے کی کوشش کی ہے جو کہ عراق، شام یا افغانستان میں ایک مضبوط مرکزی حکومت کے سقوط کے نتیجے میں عمل پذیر ہو جایا کرتا ہے۔ عرب سپرنگ کے نتیجے میں انقلاب کے نام پر تیونس، مصر، لبییا، شام اور عراق میں انسانی خون انقلاب کی جھوٹی آس میں اتنا سستے داموں بہایا گیا کہ ہلاکو اور چنگیز خان کی بربریت بھی اپنا اثر کھو چکی۔
ابوبکر البغدادی بھی اسی خلاء کی پیدا وار تھا جو کہ صدام حکومت کے منہدم ہونے کے بعد عراق میں ابھرا۔ وہ اپنے کٹر پن اور غیر لچک دار مقاصد کے حصول میں اتنی تن دَہی سے مصروف عمل رہا کہ عراق میں دوران قید ابو غریب جیل اس کے لیے ایک جہادی یونی ورسٹی کی صورت اختیار کر گئی۔ جب کہ القاعدہ جیسے متشدد گروپ نے بھی البغدادی کے اَڑیل نظریات کی بَہ دولت اس سے دوری اختیار کر لی یوں اس معروض میں داعش کا مظہر ابھرا جس نے خصوصاً عراق کے ایک فرقہ ورانہ معاشرہ میں جو شکست و ریخت کی پستیوں تک پہنچ چکا تھا۔
عرب سپرنگ کے غلغلے کے بعد اپنی گہری چھاپ چھوڑی۔ اس طرح آن کی آن جس طرح داعش کے کالے جھنڈے موصل سے رقاء تک لہرانے لگے اس نے البغدادی کو ایک ہی جست میں خطے کا سب سے خطر ناک نان سٹیٹ ایکٹر بنا دیا۔ یقیناً پانچ برس تک داعش کی نام نہاد خلافت کے خلاف ہونے والی جنگ نے کئی عالمی حریفوں کو بھی بادلِ نا خواستہ ایک دوسرے سے تعاون پر مجبور کر دیا تا کہ داعش کے مہیب اثرات سے متاثرہ خطے میں توازن طاقت بہ حال کیا جا سکے۔
آج جب ٹرمپ ایک بدمست ہاتھی کی طرح البغدادی کی موت پر پھولے نہیں سما رہا تو دوسری جانب یہ سوال بھی پوچھا جانا چاہیے کہ داعش نے جو زخم شام اور عراق کے معاشروں پر چھوڑے ہیں جن کی تکلیف دھائیوں تک اپنے اثرات جاری رکھے گی اس کا ذمہ دار کون ہے؟
مگر افسوس اب بھی داعش ختم نہیں ہوئی بل کہ امریکہ کے کردوں پر دستِ شفقت اٹھنے سے کہیں نہ کہیں اسے نئی توانائی ملی ہے اور وہ اپنے سلیپر باغیانہ سیل کی بَہ دولت اغوا برائے تاوان، بھتہ، عراقی فورسز پر حملے، خودکش حملوں جیسی کارروائیوں میں دھیرے دھیرے شدت لا رہی ہے۔ شاید عراقی معاشرے میں داعش کو پہلے جیسا دبدبہ تو نہ مل سکے کیوں کہ عراقی عوام اس خون آشام تنظیم کی بربریت کے نمونے موصل اور شام سے ملحقہ سرحد کے علاقوں میں کافی نزدیک سے دیکھ چکے ہیں۔
البتہ شام میں داعش کے کارندے اپنی محدود استعداد کو بڑھانے کی اس لیے بھی صلاحیت رکھتے ہیں کیوں کہ اب شام، ترکی، کردوں اور امریکہ کا فوکس ان سے ہٹ چکا ہے اور یہی داعش کے باقی ماندہ عناصر کے لیے نئے ولولے کا سبب بن سکتا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کی پُر خطر سیاسی اور حربی حرکیات نے اس سارے خطے میں انارکی اور بے یقینی کے فشار کو جنم دیا ہے جس سے کئی ممالک ب راہِ راست متاثر ہوئے ہیں۔
جیسا کہ ہم ملک شام پر نگاہ ڈالیں تو اسلامی تاریخِ تمدن اور پیغمبروں کی سر زمین گزشتہ آٹھ برس سے ایک نہ ختم ہونے والے آزار میں بری طرح جکڑی دکھائی دیتی ہے جہاں اب تک پانچ لاکھ سے زائد شامی باشندے لقمۂِ اجل بنے اور قریباً ایک کروڑ شامیوں کو مہاجرت اختیار کرنا پڑی۔ جب کہ اس میں کچھ شک نہیں کہ بشار الاسد کی شام پر گرفت ہر گزرتے وقت کے ساتھ مستحکم ہوتی جا رہی ہے اور شام سے امریکی فوجوں کے انخلاء کے بعد تہران، ماسکو اور انقرہ کے لیے بھی حالات خاصے ساز گار ہوتے جا رہے ہیں۔
البتہ روس کو علاقے میں ایک کنگ میکر کی حیثیت حاصل ہو چکی ہے جو کہ ایک قابلِ قبول اور با وقار ثالث کا کردار بھی با آسانی نبھا سکتا ہے، بَل کہ یوں کہیے کہ پیوٹن نے کمال مہارت سے انقرہ، تہران، بشار الاسد کے ہم راہ گہری مطابقت قائم کرلی ہے جس سے خطے میں ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک غیر سنجیدہ عُنصر کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بشار الاسد جتنا استحکام پذیر ہوتا جائے گا اتنا ہی روس کا اثر و نفوذ خطے میں اہمیت اختیار کرتا جائے گا۔ تاہم اگر الیسیی کے مصر کا جائزہ لیں تو اس وقت وہ بلا شبہ اپنے مشکل دور سے گزر رہا ہے کیوں کہ اب مصریوں کو عرب اتحادیوں سے مفت تیل کی سپلائی بند ہو چکی ہے اور وہ عراقی تیل کے لیے عراقی قیادت کی ناز برداریاں کرنے میں مشغول ہیں۔ جب کہ مصر میں فارن سرمایہ کاری بھی تا حال ایک خواب ہی لگ رہا ہے۔
مجموعی طور پر یوں لگتا ہے کہ السیسی کا دور حکومت مصریوں کے لیے کسی ریلیف کے بہ جائے بلیک ہول بنتا دکھائی دے رہا ہے اور 2011 کے عرب سپرنگ کی مانند ایک بار پھر مصر ایک اور تباہ کن داخلی شورش کے دو راہے پر کھڑا دکھائی دیتا ہے۔ جب کہ عراق جو خلیج کی پہلی جنگ سے اب تک مسلسل ایک عذاب سے دو چار رہا ہے وہاں بھی تا حال حالات خلفشار اور انتشار کی جانب دکھائی دیتے ہیں۔
عراقی عوام عادل المہدی کی نومنتخب حکومت سے ابھی سے نالاں دکھائی دیتی ہے جو کہ گڈ گورننس، صاف پانی کی کم یابی، بجلی بحران کی بَہ دولت عوام میں غیر مقبول ہو چکی ہے۔ جب کہ عراقی تیل جو کہ عراقی معاشرے اور ریاست کی لائف لائن اور ایک گیم چینجر کی حیثیت رکھتا ہے اس کی آمدنی کے معاشی ثمرات بھی گراس روٹ لیول تک نہیں پہنچائے جا رہے جس سے طوائف الملوکی کی صورت حال نے جنم لیا ہے یوں عوامی غیض و غضب میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
ایسے ہی انارکی کے اسباب لبنان میں بھی بڑھتے ہی جا رہے ہیں جہاں بیڈ گورننس، مہنگائی، معاشی بدحالی اور بے روز گاری کی بَہ دولت وزیر اعظم سعد الحریری کو بھی زمامِ اقتدار سے محروم ہونا پڑا ہے۔ یمن میں خانہ جنگی کے ایک طویل دور کے بعد اب سعودی کوششوں کے نتیجے میں حوثی باغیوں اور حکومت کے درمیان 5 نومبرکو ایک ڈیل ہوئی ہے جس کی رُو سے فریقین 30 یوم کے اندر مشترکہ طور پر حکومت سازی کے عمل کو شروع کریں گے۔
اس سارے منظر نامے کا بہ نظر غائر جائزہ لینے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ انارکی اور افتراق کے ایک لمبے دور کے با وجود مشرقِ وسطیٰ میں قیام امن کے امکانات تا حال معدومیت کی جانب ہی گام زن ہیں۔ بد قسمتی یہ رہی کہ عثمانی سلطنت کے سقوط اور اسرائیل کے قیام کے بعد سے ہی یہ بد نصیب خطہ سامراجی طاقتوں کے لیے پراکسی جنگوں کا ایک اکھاڑہ سا بن کر رہ گیا ہے جہاں انسانی جان کی قیمت بے وقعت ہو چکی ہے۔ اگر چِہ تیل کی دولت سے یہاں وسائل کی فراوانی تو ہمیشہ سے ہی موجود رہی۔
مگر سچ تو یہ ہے کہ مغرب نواز بادشاہتوں اور آمریتوں نے اپنے شخصی اقتدار کی جھوٹی آن بان قائم رکھنے کی بہت بڑی سزا اپنی عوام کو دی ہے جس کی واضح مثال ہمیں عراق، شام، یمن، مصر اور لیبیا میں دکھائی دیتی ہے، جہاں ہمیشہ انقلاب کی کوکھ سے انتشار کی ہی پیدائش ہوتی رہی اور ہر بہ ظاہر نظر آنے والی تبدیلی کی چکا چوند سے القاعدہ اور داعش جیسے خوف ناک غیر ریاستی عناصر ہی ابھرے جن کی کٹر اور بنیاد پرست پالیسیوں نے عام آدمی کے لیے زمین پر ہی جہنم تخلیق کر دی۔
تاہم سامراجی ہتھکنڈوں، نام نہاد بادشاہتوں اور آمروں کے اغلاط کے با وُجود عرب سپرنگ جیسے عوامل نے کچھ مَثبت عوامل کو بھی نمایاں کیا جیسا کہ اب مشرق وسطیٰ کے عوام کو بھیڑ بکریوں کی مانند ہانکنا کسی بادشاہ یا آمر کے لیے ممکن نہیں رہا، کیوں کہ اب سوشل میڈیا اور ابلاغ کی ترقی نے احتجاج کے نئے مظاہر کو جنم دیا ہے جس کی بَہ دولت ایک عام فرد نے بھی اپنے ڈیجیٹل احتجاج سے بڑے بڑے ایوانوں پر لرزہ طاری کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو بھی محبوس سعودی سماج کو کھولنا پڑ رہا ہے تا کہ عوام کی توجُّہ احتجاجی تحاریک سے ہٹائی جا سکے۔