میلان کنڈیرا یہ کیا کیا: تخلیقیت اور showing بَہ مقابلہ telling پر شعوری ٹمٹماہٹ کی تصویر کشی
جب کوئی لکھاری، کہانی کار، فکشن نویس، ڈیجیٹل مواد تخلیق کار، اپنے قاری، ناظر، سامع کو دکھاتا نہیں، بَل کہ، بتانے کا انتخاب کرتے ہیں تو وہ یا تو:
1. قاری، ناظر، سامِع کو اس قابل نہیں سمجھتے کہ ان کے تخلیق پارے کی تفہیم، تخلیق کار کے تخیل کی صناعی اور پیدا وار کو internalise کر سکے،
2. یا، پھر وہ خود ابھی لکھنے کے لیے تیار نہیں تھے، لیکن اعتماد کے کسی بلند تر dopamine نے انہیں تخلیقِ مواد، content creation، کے گہرے پانیوں کے اوپر اوپر تیرتے رہنے کو پھینک دیا۔
ایسا کرنا کم از کم دو نتائج پیدا کرنے کے تُخم اپنے اندر رکھتا سمجھا جا سکتا ہے:
1. سطحیت، superficiality، کا خود کو نمونہ بنانا
2. سطحیت بیانی کو عام کرنے، normalising، کی سستی سیاست میں غیر شعوری طور پر ساجھی دار بنتے جانا
اس سلسلے میں نو آمدہ ڈیجیٹل مواد تخلیق کار، جن کا مرکزی دھارے کے مقامی میڈیا سے کم ہی ناتہ ہے، (ما سوائے جب شروع شروع میں ڈان انگریزی چینل تھا، اس میں، اس کی دستاویزی فلموں میں کچھ جگہوں پر ایسی کئی مثالیں سامنے آتی تھیں) نئے سوشل میڈیا کے مختلف اظہارات میں کچھ نو جوان نظر آنے لگے ہیں، جو دکھانے، showing، پر یقین رکھنے کی طرف چل نکلے ہیں، خاص طور پر کسی منظر، یا کچھ مناظر پر تبصرہ کاری سے باز رہ کر۔… مطلب یہ کہ ایسا ہو سکتا ہے، اور کیا جا سکتا ہے، صرف تخلیقی اُپج، تخلیقی ابلاغ پر یقین، کردار و شخصیت کی پختگی، اور حوصلہ چاہیے۔
یہ خیال کب آیا؟
یہ بتانا اس لیے ضروری ہے راقم کی رائے کو کسی نے سیاق کی قید میں سمجھ کر، اپنی سوچ کی کھڑکی سے برخاست کرنا ہو تو انہیں آسانی رہے۔ تو، اس خیالات کی ندی کا سیاق میلان کنڈیرا کے ناول، Life is Elsewhere کے حصّۂِ اوّل کے ذیلی باب ششم، بَہ مطابق Faber and Faber ناشر صفحہ نمبر 25، کے اس ٹکڑے کو پڑھ کر آیا، نقل کرتا ہوں:
… she explained that Jaromil always said that what interested him was not drawing landscapes or still lifes (?) but rather action scenes, and, she said, his drawings really did have astonishing vitality and movement, even though she didn’t understand why all the people in them had dogs’ heads; maybe if Jaromil drew people with real human bodies his modest work might have some value, but the way it was she unfortunately couldn’t say whether it made any sense at all.
جیرومل ایک چھ سات سال کا بچہ ہے، جس کو اس کی والدہ کی جانب سے غیر معمولی صلاحیتوں کا حامل بچہ باور کرایا جا رہا ہے؛ اس سے قبل اس بچے کے شاعر بننے کے عمل کی بنیادوں کی بھی انتہائی لطیف طنز کے ذریعے، جسے طنز کی بَہ جائے مزاح کہنا زیادہ محتاط بیان ہو گا، تفصیل بیان ہونا شروع ہوئی ہے۔ محولۂِ بالا ناول پارہ، ظاہر ہے، ہمہ دان راوی کے ذریعے ہم تک پہنچ رہا ہے، اور وہ صیغۂِ حاضر کے متکلم کے پہلے سے چلتے آتے بیانیے، narration، کا تسلسل ہے۔ اب اوپر بیان کیے گئے اصولوں کے مطابق اگر کنڈیرا، چلتے جملے، running sentence کی یہ والی دو clauses نا بولتے تو بگڑتا کیا تھا کنڈیرا کا:
“…even though she didn’t understand why all the people in them had dogs’ heads()”
“…but the way it was she unfortunately couldn’t say whether it made any sense at all.”
شاید یہ ایسی چیز ہے کہ جس اسلوبی قید اور چُنگل میں سے نثر کو بَہ طورِ صنفِ کلام نکلنا ہو گا۔ نثر کی صنف، بالخصوص فکشن کو، اپنے کرداروں کے فیض آباد والے جنرل فیض بننے کی ہوس، حرص اور طمع و ترغیب سے بچنا ہو گا۔