ناول میرواہ کی راتیں : پڑھت کی قوت اور کردار
از، رفیع اللہ میاں
ادب میں جب ہم قاری کے تناظر کو پیش نظر رکھتے ہیں تو اس سوال کو اہمیت دی جاتی ہے کہ متن میں پڑھے جانے کی قوت موجود ہے یا نہیں۔ اس سوال کے تعلق کی ایک سطح زبان کی سادگی بھی ہے تاہم پسند کے موضوع کو نمایاں اہمیت حاصل ہے۔ جب قاری دیکھتا ہے کہ اس کے پسند کے موضوع کو کس طرح برتا گیا ہے‘ تو یہ قضیہ پڑھے جانے کی قوت کے مقولے سے جڑ جاتا ہے۔ جس طرح ویڑول آرٹ میں دیکھنے والے کے حواس کا امتحان لیا جاتا ہے اسی طرح تحریر کے فن میں قاری کی پڑھت کے حوصلے کو آزمایا جاتا ہے۔
مابعد جدید تناظر میں ناول ایک خود مختار اکائی ہے جو نہ صرف اپنا بین السطور منتقل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے بلکہ ثقافتی تشکیل ہونے کے تناظر میں اپنے حسن و قبح پر خود دلیل بھی بنتا ہے۔ خود مختار اکائی ہونے کا مطلب مصنف کی مطلق العنان حیثیت کا انکار ہے جو معنیٰ پر اپنا اجارہ قائم کرتا ہے۔ ثقافتی تشکیل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ متن صرف وہ معنیٰ جو کْل کی حیثیت سے اس سے جڑا ہوتا ہے‘ منتقل نہیں کرتا بلکہ اپنے ذیلی ثقافتی متون کے ذریعے بھی یہ قاری کے ساتھ ربط پیدا کرتا ہے اور اسے شدت سے احساس دلاتا ہے کہ وہ عالم گیر سماجی رشتوں میں بندھا ہوا ہے۔
جس طرح متن اپنے اثرات منتقل کرنے میں آزاد ہوتا ہے‘ اسی طرح قاری بھی اس کے اثرات قبول کرنے میں آزاد ہوتا ہے۔ قاری موضوعاتی سطح پر خود کو کسی محدود دائرے میں کم ہی قید کرتا ہے۔ فرد کی تعمیر و ترقی معاشرے کے مرہون منت ہوتی ہے اور اس کی سطح یک رنگی نہیں ہوتی۔ فرد کی داخلیت میں معاشرے کے متعدد رنگ سموتے ہیں اور اس کی جمالیاتی احساس کے ڈھانچے کی تشکیل کرتے ہیں۔ ایسی فردیت جو اکہری سطح رکھتی ہو‘ ایک مجرد فردیت ہے جس کا روایتی تصور کے تحت تو امکان ہوسکتا ہے تاہم جدید سماجی تصور کے تحت اس کا وجود محض ایک دھوکا ہے۔ ایسی کوئی بھی صورتحال نارمل نہیں کہلائی جاسکتی۔
ادب کے ساتھ جمالیاتی سطح پر جڑنے والا قاری کسی خاص موضوع کی طرف میلان ضرور رکھتا ہوگا لیکن وہ اپنے جمالیاتی احساس کو کسی ایک خاص موضوع تک محدود کرکے ادب کی معنویت کو ایک چھوٹے سے دائرے میں قید کرنے کا مرتکب نہیں ہوسکتا۔ اس امر کی وضاحت اس لیے ضروری ہے کہ ادبی جمالیات کی سماجی سطح ذہن میں رہے اور روایتی اور مجرد تصور انفرادیت کے ساتھ جوڑ کر اسے اس کے زمینی رشتوں سے منقطع نہ کیا جاسکے۔ ادبی جمالیات کا یہ تصور قاری کی پڑھت کے حوصلے کے سلسلے میں بھی کارفرما ہوتا ہے۔
ایسا نہیں ہوتا کہ جاسوسی ادب کی طرف میلان رکھنے والا قاری دیگر ادبی متون سے جمالیاتی سطح پر جڑت استوار کرنے سے قاصر ہوجائے۔ ادب میں موضوع کی حیثیت ہمیشہ ثانوی ہوتی ہے اور جمالیات کو اس حد تک فوقیت حاصل ہوتی ہے کہ موضوع کا سوال پس منظر میں چلا جاتا ہے۔ اگر کسی ادبی متن میں پڑھت کی قوت محض اس لیے محسوس کی جارہی ہے کہ اس میں ایک خاص موضوع پر خاص توجہ مرکوز کی گئی ہے تو اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ قاری کو ادبی جمالیات سے غرض نہیں ہے بلکہ وہ ایک خاص قسم کے چسکے کا رسیا ہے۔ اگر قاری نفسیاتی طور پر سیکس آبسیشن کا شکار ہے تو ادبی جمالیات اس کے لیے بے معنی ہوسکتی ہے۔ کسی بھی چیز کا نفسیاتی طور پر غلبہ ہونا ایبنارملٹی کی نشانی ہے۔ ایسے مخصوص متون سے مخصوص نفسیات کو اپیل دراصل ’سماج ادبی جمالیات‘ کے مقابلے میں مجرد جمالیات کی تشکیل کے ذریعے قاری کو مجرد انفرادیت کے روایتی تصور کی طرف دھکیلنے کی کوشش ہوتی ہے۔
رفاقت حیات کا ناول ’میرواہ کی راتیں‘ اگرچہ سیکس آبسیشن کی کہانی ہے تاہم اس میں پڑھت کی قوت کی سطح اس طرح اکہری نہیں ہے کہ ناول اپنے لوکیل کی ہلکی سی خبر بھی نہ دیتا ہو۔ یعنی ناول ذیلی ثقافتی متون کی تشکیل کی ایک ہلکی سی کوشش سے گزرتا محسوس ہوتا ہے۔ تاہم جب یہ سوال اٹھایا جائے کہ کیا یہ ناول ٹھری میرواہ کے چھوٹے سے قصبے کو اپنے متن کے ذریعے ایک تاریخی حیثیت میں استوار کرسکا ہے تو جواب ڈھونڈنا کچھ زیادہ مشکل نہیں ہوتا۔ ناول‘ کرداروں کا ایک مخصوص محل وقوع میں ایک ثقافت کو تشکیل دینے سے عبارت ہے۔ اس ناول کے عنوان ہی میں یہ تخصیص قائم کی گئی ہے کہ میرواہ نامی ایک چھوٹے سے قصبے کے سماجی و ثقافتی متون سے جمالیات کشید کرنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن اس ادبی متن کے تمام کردار جو آپس میں گفتگو کے ذریعے جڑے ہیں (چارلس ٹیلر کے Interlocutors ) اتنی عام گفتگو (غیر ثقافتی اور بہت زیادہ خود مرکزہ) کرتے ہیں کہ یہ ایک خاص لوکیل کو شناخت دینے میں معاون نہیں ہوپاتے۔
’سورس آف دی سیلف: دی میکنگ آف دی ماڈرن آئڈنڈٹٹی‘ میں چارلس ٹیلر نے باہمی گفتگو کے ذریعے ابتدائی سطح پر نہ صرف ذات کے تعارف کے حصول پر بلکہ بعد کی زندگی میں ذات کی تفہیم کو مختلف سطحات پر برقرار رکھنے اور اسے مزید وسعت دینے کے معاملے پر تفصیلی بحث کی ہے۔ ہمارے آس پاس موجود گفتگو کے ہمارے پارٹنرز نہ صرف ہمیں اپنی ذات کی تفہیم میں مدد دیتے ہیں بلکہ ماحول اور ارگرد اشیا کے حوالے سے فطری تعلق کی بنیادوں کو بھی واضح کرتے ہیں۔ میرا بنیادی مدعا یہ ہے کہ یہی باہمی گفتگو نہ صرف فرد کے فہم کی تشکیل کرتی ہے بلکہ ایک خاص جگہ کی ثقافتی تشکیل میں بھی اہم کردار کرتی ہے۔’میراہ کی راتیں‘ کا فوکس ایک محدود فریم پر ہے جس میں ثقافتی لوکیل کی اٹھان دکھائی نہیں دیتی اور باہمی گفتگو ’’سیلف‘‘ کی تفہیم اکہری سطح پر استوار کرتی ہے۔ اس تناظر میں آوارہ مزاج نذیر زندگی کے ابتدائی سہانے دنوں میں سیکس آبسیشن کا شکار ہوکر ایک ایسا روپ اختیار کرتا ہے جو نہ اس کی ذات اور نہ ہی معاشرے کے لیے پیداواریت کا حامل ہے‘ یعنی ایک ایسا کردار جو اپنی چاچی کے ساتھ سیکس کرنے میں زندگی کے چھ ماہ ضائع کردیتا ہے۔
’میرواہ کی راتیں‘ اپنے انتہائی سادہ اور مسلسل متن میں قاری کو قرأ ت کے سلسلے میں کہیں نہیں الجھاتا۔ یہ ایک ہی نشست میں پڑھے جانے والے ناولوں میں سے ہے۔ موضوع کے علاوہ اس حوالے سے بھی اس میں Readability پائی جاتی ہے۔ اس ناول کی اہمیت اس تناظر میں محسوس کی جاسکتی ہے کہ ہماری ثقافت بالخصوص دیہی علاقوں میں بلوغت کے دور میں داخل ہونے والے لڑکوں میں جنسی و نفسیاتی تبدیلیوں اور ان سے جنم لینے والے مسائل کی طرف توجہ نہیں دی جاتی اور بہت سارے نوجوان جنسِ مخالف کی فطری کشش کے آگے خود کو آزاد چھوڑ دیتے ہیں۔ اس قسم کے ناول عموماً ہمارے معاشرے میں گوارا نہیں سمجھے جاتے لیکن موضوعاتی سطح پر اس کے حقیقت ہونے سے آنکھیں نہیں چرائی جاسکتیں۔ اس کے ذیلی ثقافتی متون ہمیں یہ بھی بتاتے ہیں کہ کہیں بے جوڑ شادیوں کے باعث بیویاں اپنے شوہروں سے بے وفائی کرتی ہیں اور کہیں میاں چرس اور جوئے کی لت یا مردانگی کے تفاخر میں مبتلا ہوکر بیوی کو تشدد کا نشانہ بناتا ہے جس کی وجہ سے وہ کسی اور کی طرف متوجہ ہوجاتی ہے۔ ’میرواہ کی راتیں‘ کا متن اپنے ذیلی متون کے ساتھ قاری کو جنس کے ایک مسئلے سے رسان کے ساتھ متعارف کراتے ہوئے ایک خاص کلائمکس پر اس طرح آکر رکتا ہے کہ کہانی کا منطقی سفر بھی اپنے فل اسٹاپ پر آکر ختم ہوجاتا ہے۔