پاکستان کا معیاری وقت مصباح کو سمجھنے میں 20 سال لگائے گا
ناتھن بریکن نے آف سٹمپ پر ایک فل لینتھ سلو ڈلیوری پھینکی، بیٹسمین کریز میں تھوڑا پیچھے ہٹا، اس نے مضبوط قدموں پہ جم کر اپنا بلا گھمایا اور گیند فلڈ لائٹس کی چکا چوند میں کہیں کھو گئی۔
یہ پہلے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے پہلے اٹھارہ میچز کا طویل ترین چھکا تھا۔ اور یہ تھے مصباح الحق!
مصباح نے 2001 میںdebut کیا۔ اور صرف ڈیبیو ہی کیا۔ اس کے بعد اگلے چھ سال ٹیم میں جگہ بنانے کی کوشش کرتے رہے۔ پہلا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ آیا تو کپتان شعیب ملک نے بمشکل سلیکشن کمیٹی کو قائل کیا کہ مصباح کو یوسف پہ ترجیح دی جائے۔
مصباح پہلے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں پاکستان کے کامیاب ترین پلیئر تھے۔ کچھ ہی ماہ بعد وہ انڈیا کے دورے پہ بھی کامیاب ترین پلیئر ٹھہرے۔
پہلی بار جب مصباح نے پاکستان کی کپتانی کی، وہ میچ اسی حریف کے خلاف تھا جس کے مقابل وہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی ہارے تھے۔ مصباح نے 62 گیندوں پہ 70 رنز بنائے اور پاکستان نے ساڑھے پینتالیس اوورز میں ہی 309 کا ہدف آٹھ وکٹوں کی برتری سے حاصل کر لیا۔
اس کے بعد کبھی مصباح کو ہوم گراونڈز پہ کپتانی نصیب نہیں ہوئی۔
پلیئرز جب کوئی یادگار میچ جیتنے کا باعث بنتے ہیں تو تاریخ میں امر ہو جاتے ہیں۔ میانداد کا ایک چھکا آج تک زندہ ہے۔
مصباح نے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے پہلے فائنل میں جو شاٹ سکور برابر کرنے کے لیے کھیلا تھا، اسی شاٹ نے پاکستان کو میچ ہروا دیا۔ مصباح ہیرو بنتے بنتے رہ گئے۔ اور 33 سال کی عمر میں ایسا موقع گنوا بیٹھنے والے کرکٹر کو اپنا کریئر ختم کرنے کے لیے مزید کچھ درکار نہیں ہوتا۔
جب 2010 میں پاکستان کرکٹ دنیا بھر میں رسوا ہو گئی تو بورڈ کو اچانک خیال آیا کہ مصباح کو کپتان بنا دیا جائے۔ مصباح نے کبھی کپتانی کے لیے پاپڑ نہیں بیلے۔ جب 2011 میں وقار یونس سے اختلافات پر آفریدی نے مشروط ریٹائرمنٹ لی تو مصباح کو باقی دو فارمیٹس کی کپتانی بھی سونپ دی گئی۔
جس وقت مصباح کو کپتانی ملی، سری لنکن ٹیم پہ حملہ ہو چکا تھا، ممبئی دھماکے ہو چکے تھے، تین پاکستانی کرکٹرز برطانیہ کی جیل میں جا چکے تھے، پاکستان کے ہوم گراونڈز ویران ہو چکے تھے اور پاکستان پہ آئی پی ایل کے دروازے بند ہو چکے تھے۔
عرب امارات کے سنسان صحراؤں میں ایک لٹا پٹا قافلہ ایک 37 سالہ کپتان کے ہمراہ پاکستان کرکٹ کو زندہ رکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔
اگلے سات سال میں مصباح نے بے شمار ریکارڈز توڑے، کئی ٹرافیاں اٹھائیں، دنیا بھر سے داد و تحسین وصول کی، ایک بے گھر ٹیم کو نمبر ون بنا دیا، انگلینڈ اور آسٹریلیا کو کلین سویپ کیا، انڈیا کو انڈیا میں ہرایا، انگلینڈ میں سیریز برابر کی، ایشیا کی تاریخ میں پہلی بار جنوبی افریقہ کو اس کے ہوم گراونڈز پہ سیریز ہرائی، ایشیا کپ جیتا، آئی سی سی نے سپرٹ آف کرکٹ کا ایوارڈ دیا، وزڈن نے پچھلے سال کا چنیدہ کرکٹر قرار دیا، کرک انفو نے ہوم ایڈوانٹیج کے بغیر کھیلنے والے کپتانوں میں ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کا کامیاب ترین کپتان قرار دیا، گارڈین نے معزز ترین ماڈرن کرکٹر کا خطاب دیا۔
لیکن اس سب کے باوجود آج بھی پاکستان کی اکثریت کا متفقہ فیصلہ ہے کہ مصباح پاکستان کی تاریخ کے بزدل ترین کپتان تھے۔
جس ایک شاٹ کی قیمت پہ پاکستان ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ ہارا تھا، مصباح نے اپنے کریئر میں دوبارہ کبھی وہ شاٹ نہیں کھیلا۔ جس ایک اننگز نے پاکستان کو ورلڈکپ 2011 کا سیمی فائنل ہرایا، اس اننگز کا سٹرائیک ریٹ مین آف دی میچ ٹنڈولکر کی اننگز کے سٹرائیک ریٹ کے برابر تھا۔ اس میچ میں پاکستان کی جانب سے ٹاپ سکورر بھی مصباح الحق تھے۔
لیکن قوم آج بھی مصباح کو معاف کرنے پہ تیار نہیں۔
جس مصباح نے پاکستان کی ون ڈے کرکٹ کو 1980 کی دہائی میں دھکیل دیا، ان کی ٹیم کے اوپنرز کا سٹرائیک ریٹ پانچویں نمبر پہ آنے والے مصباح سے کم تھا، اس کے پاس کوئی وسیم اکرم، کوئی وقار یونس یا شعیب اختر نہیں تھا، اس کے پاس عبدالرزاق جیسے آل راونڈرز نہیں تھے۔ اور عموماً جب وہ کریز پہ آتے تھے، پاکستان کے 30 پہ چار آؤٹ ہوتے تھے۔
اس کے بعد وہ اتنا سست کیوں کھیلتے تھے، اتنی بزدل کپتانی کیوں کرتے تھے؟
یہ کافی مشکل گتھی ہے۔ پاکستان کے معیاری وقت کے مطابق یہ گتھی سلجھانے کو کم از کم 20 سال اور لگیں گے۔
جب پورا پاکستان یہ کہہ رہا تھا کہ یہ بوڑھا کپتان اتنے ‘جگرے’ والا نہیں کہ انگلینڈ کے دورے پہ جانے کی ہمت کر سکے، تب وہ بزدل کپتان انگلینڈ کے دورے پہ گیا اور سیریز برابر کر کے آیا۔ اور تاریخ میں پہلی بار پاکستان کو دنیا کی نمبر ون ٹیم بنا دیا۔
لیکن اس سارے فسانے کے بیچ اچانک کہیں پی سی بی کو خیال آ گیا کہ 90 کی دہائی کی نشاط ثانیہ کا آغاز کیا جائے۔ ‘ینگ’ ٹیم بنائی جائے اور مصباح کی ‘پسماندہ’ سوچ سے نکال کر دنیا کی نمبر ون ٹیسٹ ٹیم کو اور آگے لے جایا جائے۔
سو آج یہ حال ہے کہ وہ بزدل کپتان کسی آل راونڈر کے بغیر مسلسل تیسری سیریز کھیل رہا ہے، اسے ہر سیریز میں نئے اوپنرز ملتے ہیں اور ہر میچ میں نئے فاسٹ بولرز۔ اس کا لوئر آرڈر مسلسل ناکام ہو رہا ہے۔ اور اپنے کریئر کے آخری میچ میں وہ باون گیندوں پہ ایک سکور بنا کر ناٹ آؤٹ کھڑا ہے۔
جب وہ 148 گیندوں پہ 59 رنز بنا کر پویلین لوٹتا ہے تو کچھ ہی دیر بعد صرف 65 رنز کے اضافے پہ باقی چار وکٹیں بھی گر جاتی ہیں۔ ڈریسنگ روم کی سیڑھیوں پہ پاکستان کی تاریخ کا کامیاب ترین کپتان کھڑا ہے۔ اور شاید دل ہی دل میں سوچ رہا ہے کہ مصباح نے پاکستان کا کیا بگاڑا تھا؟