مصباح اور یونس اور آفریدی کے بعد کرکٹ کا منظر
(معصوم رضوی)
یہ خلا کبھی پورا نہ ہو سکے گا، رخصت ہونیوالوں کیلئے یہ گھسا پٹا جملہ اگرچہ ایک علامت تھا مگر دردناک پہلو یہ ہے کہ اب معاشرے میں ایک حقیقت بن چکا ہے۔ کسی بھی شعبے کو اٹھا کر دیکھ لیں، جانیوالے اگر دیو ہیں تو انکی جگہ لینے والے بونے نظر آئینگے۔ معاشرے کی مجموعی صلاحیت مسلسل زوال کا شکار ہے۔ قومی کرکٹ ٹیم میں مصباح الحق، یونس خان اور شاہد آفریدی جیسے کھلاڑیوں کی رخصت پاکستان میں کرکٹ کیلئے یقینی طور پر ایک دھچکہ ثابت ہو گی۔ کیا پاکستان کرکٹ بورڈ کے پاس متبادل کھلاڑی تیار کرنے کی حکمت عملی موجود ہے، شاید نہیں کیونکہ ستر سال بعد بھی پی سی بی سیاسی مداخلت، نااہلی اور دانشمندانہ حماقتوں کا ایک حسین امتزاج ہے جس میں اہلیت و قابلیت کا کوئی پودا نہیں پنپ سکتا۔
کپتان مصباح، مرد بحران یونس خان اور کرشماتی شاہد آفریدی، تینوں اپنی اپنی جگہ میچ وننگ کھلاڑی ہیں۔ مصباح الحق، پاکستان کے کامیاب ترین کپتان، مرد بحران یونس خان ٹیسٹ کرکٹ میں دس ہزار رنز کا ہندسہ عبور کرنیوالے پہلے پاکستانی کھلاڑی، بوم بوم شاہد آفریدی کسی بھی وقت میچ کا پانسہ پلٹنے کی صلاحیتوں سے مالامال، بھلا ان تینوں کی کمی کیوں نہ محسوس ہو، مگر افسوس اس بات پر ہے کہ دور دور تک انکی جگہ لینے والا کوئی کھلاڑی نظر نہیں آتا ہے۔ میں ان لوگوں سے اختلاف کرتا ہوں جو پاکستان میں صلاحیتوں کی کمی کا رونا روتے ہیں، ایسا ہرگز نہیں کرکٹ کو ہی دیکھ لیں۔ ستر سال میں ہم کرکٹ کا اسٹرکچر طے نہیں کر سکے کہ علاقائی ہو گا یا ڈیپارٹمنٹل، اسکول اور کالجر کی سطح پر کھلاڑیوں کی دیکھ بھال تو دور کی بات فرسٹ کلاس کرکٹ میں بھی جدید ٹریننگ نہیں دے سکتے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کی صورتحال ہمیشہ ہی ایک دکھ بھری داستان رہی ہے۔ تو پھر کیا یہ معجزہ نہیں کہ بغیر وسائل اور سپورٹ کے وطن عزیز میں کھلاڑی پیدا ہو رہے ہیں تو یہ خداداد صلاحیتوں کا ثبوت ہے مگر صورتحال زیادہ عرصے ایسے نہیں چل سکتی، ہاکی اور اسکواش کا حشر ہمارے سامنے ہے، ایک وقت تھا جب ان دونوں میدانوں میں بھی پاکستان کا ڈنکا بجتا تھا آج کسی قطاروشمار میں نہیں ہے۔
مصباح الحق کا کیرئیر لگ بھگ 16 سالوں پر محیط ہے، 73 ٹیسٹ میچز میں 5 ہزار سے زائد رنز، 162 ون ڈے میں بھی 5،122 رنز، 42 نصف سنچریاں، 39 ٹی ٹیونٹی میچز میں 788 رنز، 3 نصف سنچریاں، عمران خان کا ریکارڈ توڑ کر پاکستان کا سب سے کامیاب کپتان ہونے کا اعزاز، وہی مصباح جو کبھی ٹک ٹک کہلاتے تھے آج قومی ٹیم کی بیٹنگ لائن کا سب سے بڑا سہارا ہیں۔ خاموش طبع مصباح نے مخالفین کے اعتراضات کا جواب زبان کے بجائے بلے سے دیا، آج ان کے بدترین مخالفین بھی مصباح کو ایک بہترین کھلاڑی کہنے پر مجبور ہیں۔ اس سے پہلے عمران خان کامیاب ترین کپتان تھے انہوں نے 41 ٹیسٹ میچز میں 13 فتوحات حاصل کی تھیں جبکہ مصباح الحق نے 54 ٹیسٹ میچز میں 18 بار کامیابی حاصل کی۔ یونس خان، 116 ٹیسٹ میچز میں 10،041 رنز، 34 سنچریاں، 265 ون ڈے میچز میں 7249 رنز، 7 سنچریاں اور 48 نصف سنچریاں بنا کر پاکستان کے کامیاب ترین بیٹمسمین بن گئے۔ یونس خان دس ہزار رنز کا ہندسہ عبور کرنیوالے پہلے پاکستانی اور 13ویں عالمی کھلاڑی ہیں۔ دنیا کے پہلے بلے باز جنہوں نے گیارہ ملکوں کے خلاف سنچری بنانے کا کارنامہ سرانجام دیا ۔ بحران میں پاکستانی بیٹنگ لائن کا سہارا بننے والے یونس خان کئی بار نشیب و فراز کا شکار بنے۔ راست گو اور نیک نیت یونس خان ہمیشہ مسائل سے نکلنے میں کامیاب رہے اور آج انکا شمار پاکستان کے عظیم کھلاڑیوں میں ہوتا ہے۔ بوم بوم شاہد آفریدی کی اپنی پہچان ہے، اکیلے میچ کا پانسہ پلٹنے کی صلاحیت، دنیا بھر کے شائقین کرکٹ میں مقبول ترین شخصیت مگر اعدادوشمار میں خاصے پیچھے، 27 ٹیسٹ میچز میں 1716 رنز، 5 سنچریاں، 48 وکٹیں، 398 ون ڈے میچز میں 8064 رنز، 6 سنچریاں اور 39 نصف سنچریاں اور 395 وکٹیں، 98 ٹی ٹیونٹی میچز میں 1405 رنز، 4 نصف سنچریاں اور 97 وکٹیں، ریکارڈ کی بہ نسبت آفریدی کی شخصیت، چھکے اور چوکے شائقین کرکٹ میں روح پھونک دیتے تھے۔ ہم عصر ڈریوڈ، گنگولی، سنگا کارا، جے وردھنے، کیون پیٹرسن، مائیکل کلارک، ایڈم گلکرسٹ، گریم اسمتھ آج کہیں بڑے ریکارڈ کے ساتھ کہیں پہلے ریٹائر ہو چکے ہیں مگر ماننا پڑیگا ایسی عوامی مقبولیت ان کے نصیب میں نہیں آئی۔
مصباح، یونس اور آفریدی، تینوں آج بھی نوجوان کھلاڑیوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ فٹ ہیں۔ مصباح اور یونس نے ریٹائرمنٹ کا فیصلہ عزت اور وقار کیساتھ کیا ہے، افسوس شاہد آفریدی ایسا کرنے میں بوجوہ ناکام رہے۔ بہرحال یہ تو ایک علیحدہ بث ہے مگر شاید سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم متبادل یا نئے آنیوالے کھلاڑیوں کی تربیت میں ناکام رہتے ہیں۔ دور کیوں جائیں عمران خان نے بطور کپتان کتنے کھلاڑی ٹیم کو دیئے، کتنوں کو صلاحیتوں کو زمین سے آسمان پر پہنچا دیا، وسیم اکرم، وقار یونس، انضمام الحق، محسن حسن خان کے علاوہ متعدد کھلاڑی شامل ہیں۔ بھارت میں دھونی ہمارے سامنے ہیں جو رفتہ رفتہ ویرات کوہلی کی جگہ بنا رہے ہیں اور جڈیجا اور رائنہ سمیت نجانے کتنے کامیاب کھلاڑیوں کی صلاحیتوں کو نکھار چکے ہیں۔ یہ روایت نجانے کیوں پاکستان میں ختم ہو گئی، اب کوئی آنیوالوں کی تربیت اور نگرانی نہیں کرتا، قصور نئے کھلاڑیوں کا ہے یا پرانوں کا اس بارے میں رائے مختلف ہو سکتی ہے مگر حقیقت بہرحال اپنی جگہ قائم ہے۔
دنیا بھر میں یہ ذمہ داری کرکٹ بورڈ کی ہوتی ہے مگر پاکستان کرکٹ بورڈ ایسی توقع رکھنا دیوانے کا خواب ہی ہو سکتا ہے، شہریار خان، نجم سیٹھی کے’’ ممنون ‘‘ بنے ہوئے ہیں، وہ جائینگے تو کوئی اور ممنون انکی جگہ لے لے گا، مستقبل قریب میں ایسے کوئی آثار نظر نہیں آتے کہ پی سی بی کو پروفیشنل بنیادوں پر چلایا جائے۔ دنیا بھر میں کرکٹ بورڈز اسکول کی سطح سے کھلاڑیوں کا اٹھاتے ہیں، مسلسل تربیت، جدید فزیکل ٹریننگ، آداب زندگی اور تعلیم کیساتھ ان کی صلاحیتوں کو نکھارا جاتا ہے جب کہیں جا کر عالمی معیار کا ایک کھلاڑی بنتا ہے۔ یہ بھی ایک سنگین مسئلہ ہے کہ پہلے متعدد کھلاڑی اعلیٰ اور بیشتر تعلیم یافتہ ہوتے تھے، میرا مقصد انگریزی بولنا نہیں بلکہ تعلیم ہے جو زندگی برتنے کا سلیقہ دیتی ہے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ بیشتر کھلاڑی میٹرک یا انٹر ہیں، وژن اور مقصد سے محروم، انہیں نہیں پتہ کہ کس سے کیسا برتائو رکھنا ہے، کس سے ملنا اور کس سے بچنا ہے، شہرت کی چکاچوند میں غلط راستوں پر نکل جائے تو حیرت کیسی، انہیں روکنے ور سمجھانے والا تو کوئی ہے ہی نہیں، تو پھر محمد عامر، محمد آصف، سلمان بٹ کے بعد شرجیل اور خالد لطیف کیوں نہ جنم لیں، شاید اب بھی ہم نے اس سنگین مسئلے کو حل کرنے کیلئے کوئی سنجیدہ اور ٹھوس کوشش نہیں کی ہے۔
خدا خدا کر کے ٹیم ون ڈے ورلڈ کپ کیلئے کوالیفائی رائونڈ کھیلنے سے بال بال بچی ہے۔ بہرکیف جناب اب صورتحال یہ ہے کہ نوجوان اور باصلاحیت کھلاڑی سرفراز کی قیادت پر سب متفق ہیں۔ عماد وسیم ، بابر اعظم، حسن عباس، یاسر شاہ جیسے کھلاڑیوں کو بھرپور توجہ مل سکے تو شاید یہ پاکستان کا سرمایہ بن سکیں۔ ہیرے تو موجود ہیں مگر تراش خراش کرنے والا کوئی نہیں۔