اردو ادب کے فیبرک میں عورت دشمنی کا دھاگہ
از، خضر حیات
مولانا اشرف علی تھانوی، ڈپٹی نذیر احمد، راشد الخیری سے لے کر ممتاز مفتی، قدرت اللہ شہاب، اشفاق احمد، بانو قدسیہ، عمیرہ احمد و نمرہ احمد اینڈ کمپنی تک بُنے جانے والے اُردو ادب کے فیبرک میں ایک دھاگہ عورت دشمنی misogyny رنگ کا ضرور ساتھ ساتھ چلتا رہا ہے۔ غصہ اس بات پر آتا ہے کہ خواتین کی بھی ایک بڑی تعداد کو اسی قسم کا ادب پسند آتا ہے۔
اس قسم کا فکشن شروع سے ہی پاپولر رہا ہے۔ آج ہم کتابوں کی کسی بھی دکان میں چلے جائیں، اردو ادب سے متعلق کوئی اور کتاب ملے نہ ملے ممتاز مفتی، اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کا کچھ نہ کچھ ضرور مل جائے گا۔ یہ بات میں اپنے تجربے کی بنیاد پہ کہ رہا ہوں۔
یہ ایک دو طرفہ عمل ہے۔ خاص قسم کا ادب اتنی آسانی سے دست یاب ہونا شروع ہو جائے تو غالب امکان ہے کہ پڑھا بھی زیادہ وہی جائے گا یا کم از کم بِکنا تو شروع ہو جائے گا۔ اور جب سال ہا سال کی مشق کے بعد لوگ ایک ہی طرح کی چیزیں پڑھنے لگ جائیں تو پھر اسی قسم کی چیزیں ہی چھاپنے میں پبلشر کو فائدہ نظر آ رہا ہوتا ہے۔
یہ پاپولیرٹی کس طرح حاصل کی جاتی ہے، اس کی ایک مثال یوں دی جا سکتی ہے۔ برٹرینڈرسل لکھتے ہیں کہ اردو کے پہلے ناول ‘مراۃ العروس’ کو برطانوی سرکار کی جانب سے ایک ہزار روپے بہ طورِ انعام دیے گئے تھے۔ انگریز حکومت نے اس ناول کو نہ صرف تعلیم و تربیت کے اعلیٰ اصولوں کا پاسدار سمجھا بل کہ وقت کی بہت بڑی ضرورت بھی گردانا۔
ڈپٹی صاحب کے پہلے تینوں ناول، یعنی مراۃ العروس (1869ء)، بنات النعش (1873ء) اور توبتہ النصوح (1877ء) برطانوی سرکار کی طرف سے ایک ایک ہزار روپے انعام حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ حکومتی سرپرستی کا یہ اثر ہوا کہ اشاعت کے بعد محض 20 ہی سالوں میں مراۃ العروس کی ایک لاکھ کاپیاں چھپ کے فروخت ہو چکی تھیں۔
مولانا اشرف علی تھانوی نے 1905ء میں جب بہشتی زیور لکھی تو رہنمائی کے لیے انہوں نے بھی ‘مراۃ العروس’ سے ہی استفادہ کیا۔ اس بات کا انہوں نے اعتراف بھی کیا ہے۔
میں شاید یہ کہنا چاہ رہا ہوں کہ اردو ادب میں خواتین کو شروع سے ایک خاص طرح سے پیش کیا جاتا رہا ہے۔ ان پیش کاروں میں اکثریت مرد ادیبوں کی ہے مگر اس میں خواتین بھی مردوں کے شانہ بہ شانہ نظر آتی ہیں۔ بر صغیر میں مرد ادیب تو ہمیشہ سے ہی اپنی ذمہ داری سمجھتے رہے ہیں کہ وہ خواتین کی تعلیم و تربیت کے لیے کچھ لکھیں۔ اور انہوں نے عورتوں کو سُدھارنے کے لیے لکھا بھی بہت کچھ ہے۔
ہماری خواتین نہ صرف اس لکھے کو پڑھتی رہی ہیں بَل کہ اس کا اثر بھی لیتی رہی ہیں۔ آج بھی بر صغیر کی خواتین کی ایک بڑی تعداد اپنے آپ کو انہی پیش کاروں کی آنکھوں سے دیکھتی ہے۔