قہقہے موچی موچی کے نعروں میں بدل گئے
نصیر احمد
اختر اس لفظ موچی سے شدید نفرت کرتا تھا۔ اس لفظ سے اختر کے لیے ذلت کے احساسات وابستہ تھے۔ اس کا باپ موچی تھا اور اس کی ذات موچی تھی۔ اس حقیقت کی وجہ سے اس کا باپ معاشرے میں ایک اہم آدمی نہیں تھا۔ اور اختر چونکہ ماں کا لاڈلا تھا، اس لیے خود کو ایک اہم آدمی جانتا تھا لیکن یہ لفظ موچی گھر سے باہر نکلتے ہی اختر کی اہمیت کو ختم کر دیتا تھا۔ اختر کی ماں اس کا دکھ جانتی تھی اور پیروں اور ولیوں کے قصوں کے ذریعے یہ غم کم کرنے کی بھی کوشش کرتی رہتی تھی لیکن عزت و مرتبت، قدر و اہمیت کا شیدائی اختر نیکی کی کہانیوں کی بجائے اپنی موجودہ حالت پر زیادہ توجہ دیتا تھا۔
یوں تو پوٹھوہار کے خطے میں موچی ہونا کوئی ایسی بری بات نہیں تھی کیونکہ یہاں چھوٹی زمین داریاں تھیں اور چھوٹی زمین داریوں کے ساتھ بڑے بڑے ظلم روا نہیں رکھے جا سکتے تھے۔ اگر وسطی پنجاب میں زمیندار کسی کمی (غیر کاشتکاروں کے لیے ایک توہین بھری اصطلاح) کو گھر پر بلائے تو کمی جوتے کھانے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہو جاتا ہے، لیکن پوٹھوہار میں اگر کوئی کھڑپینچ (پنچ یا مُکھیا) کسی کمی کو گھر پر بلائے تو زیادہ سے زیادہ گالیوں کی ہی توقع کی جا سکتی تھی۔
پھر ان کھڑ پینچوں کے درمیان بھی مقابلہ و مسابقت کی فضا تھی۔ ایک ہی خاندان میں ہی کئی کھڑ پینچ مل جاتے تھے اور کمیوں سے زیادتی کی صورت میں کمیوں کی مدد کرنے کو تیار بھی ہو جاتے تھے۔ اسی طرح کے ایک کھڑ پینچ کا قصہ بیان کیا جاتا تھا کہ کسی راجے کا بیٹا کسی تیلی کی بیٹی کو بھگا کے ساتھ لے گیا۔ تیلیوں نے ایک نئے ابھرتے ہوئے کھڑپینچ کا سہارا لیا۔ تو یہ کھڑ پینچ جا کے راجے کے بیٹے کو جا کر ملامت کر نے لگا اور اس بات پر اصرار کرنے لگا کہ لڑکا لڑکی سے شادی کرے۔ وہیں پرانے وقتوں کا کوئی بوڑھا بیٹھا تھا وہ کھڑپینچ سے کہنے لگا کہ بیٹا لگتا ہے نئے نئے کھڑ پینچ بنے ہو، ہم نے تو نہیں سنا کہ کبھی موچیوں، تیلیوں اور ڈنگروں (مویشیوں) کے بیاہ ہوئے ہوں۔
بہرحال پوٹھوہار میں بھی باقی علاقوں کی نسبت ظلم کی شدت کم ہونے کے باوجود کمیوں کے لیے ایک حقارت پائی جاتی تھی جس کا اظہار بھی کافی گھناؤنا ہوتا تھا۔ لیکن تعلیم کے فروغ، بیرون ممالک نوکریوں، فوجی ملازمتوں، حکومتی مرکز کے قیام اور دیگر معاشی وجوہات کی وجہ سے علاقے کے غیر کاشتکار بھی معاشی ترقی کے حصہ دار بن گئے تھے اور کافی حد تک اپنی ذات کے حوالے سے بد سلوکی سے محفوظ بھی ہو گئے تھے لیکن ٹھپے چھاپے کی کرختگی سے محفوظ ہونا ممکن نہیں تھا کیونکہ معاشرے کی بنیاد ہی توہین کرنے کی صلاحیت پر استوار تھی۔
اگرچہ حکومت نے ذاتوں کی صحت کرانے کی پالیسی کے ذریعے عوام کی کافی مدد کی تھی۔ اب وہ پٹواری کے ذریعے اپنی ذات حکومتی کاغذوں میں تبدیل کروا سکتے تھے۔ اس سلسلے میں بھی ایک لطیفہ مشہور تھا۔ کہ ایک جولاہے نے اپنی ذات کی صحت کروالی۔ اس سے دوسرے جولاہے کو ذات کی صحت کی تحریک ہوئی۔ وہ بھی پٹوار خانے چلا گیا اور پٹواری سے اپنی ذات کی صحت کی درخواست کی۔ اور ساتھ ہی پٹواری سے دریافت کیا کہ میرے رشتہ دار نے اپنی کیا ذات لکھوائی ہے۔ پٹواری نے فائلوں کی جانچ پڑتال کی اور جواب دیا کہ تمھارے رشتہ دار نے اپنی ذات اعوان قطب شاہی لکھوائی ہے۔
اس پر جولاہے نے پٹواری سے کہا، شریکے والوں سے پِیشے(پیچھے) رہنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ آپ ایشا (ایسا) کریں کہ ہماری ذات شوووووپر (سوپر) اعوان کر دیں۔ لیکن ایک علاقے میں رہنے کا نقصان یہ ہے کہ جو مہریں پُرکھے لگا دیں، وہ کم ہی ہٹتی ہیں اور آبا و اجداد کی پرستش کرنے والے لوگ کسی کو بھی اپنا ماضی بھولنے نہیں دیتے تھے۔
لیکن اختر، اختر تھا، اس نے ٹھان لیا تھا کہ ان مہروں، ٹھپوں، چھاپوں اور لیبلز سے ہرصورت نجات حاصل کرے گا۔ بچپن ، لڑکپن اور جوانی کی ابتدا تو کڑھتے ہی گزری مگر اسے ایک مقامی کھڑپینچ کی وساطت سے فوج کی ملازمت مل گئی اور اتفاق سے اس کے گاؤں کا یا قریبی علاقے کا کوئی بھی اس کی یونٹ میں موجود نہیں تھا اور اختر نے اپنی ذات کی صحت کر لی اور خود کو راجا اختر کہنے لگا۔
موچی کا لیبل ہٹنے کی دیر تھی کہ اختر کی خفیہ صلاحیتیں بیدار ہوئیں۔ نہ صرف بیدار ہوئیں کہ بلکہ ہر گزرتے دن ترقی پاتی گئیں اور اختر ان فوجیوں میں ایک ممتاز آدمی بن گیا۔ ہر طرف راجا اختر کی دھوم تھی۔ اور راجا اختر میر محفل بنا رہتا۔ وہ لوگوں کے چھوٹے چھوٹےمسائل حل کرتا کیونکہ اس کی افسروں سے اچھی علیک سلیک تھی کہ وہ ہاکی کا اچھا کھلاڑی تھا۔ اور کھیل کی وجہ سے بھی اس کی یونٹ میں عزت تھی اور اسے مشقت اور بیگار سے متعلق ڈیوٹی سے معافی تھی۔
اختر اپنی موجودہ صورتحال سے خوب لظف اندوز ہوتا اور اپنی راج گیری کے بارے میں شوخیاں بگھارتا ڈینگیں مارتا رہتا۔ اب اس کے بہت سے مریدین اور معتقدین بن گئے تھے جو اسے ہر وقت شمع محفل بنائے رکھتے۔ لیکن جب بھی کوئی آدمی ممتاز ہونے لگتا ہے، اس کے حاسد بھی پیدا ہو جاتے ہیں اور یہ حاسد اس کو گرانے کی پوری کوششیں بھی کرتے ہیں۔
اسی طرح کا ایک حاسد اختر کے گھر تک پہنچ گیا اور علاقے کے کسی معزز سے اختر کے سارے کوائف لے لیے۔ ایک نامراد صبح اختر اپنے مداحوں کے جھرمٹ میں اونچی اونچی پھینک رہا تھا کہ ایک رنگروٹ (ریکروٹ) کاٹن کے ایک ڈبے میں پوری یونٹ کے جوتے بھر لایا اور اختر کے سامنے پھینک دیے اور کہا، راجا اختر صاحب یہ جوتے مرمت کر کے پالش کر دیں۔
اختر نے قہر آلود نگاہوں سے اس رنگروٹ کی طرف دیکھا اور چلایا، تمھاری یہ جرات کہ تم ایسی حرکت کرو۔ کسی نے دھیمے لہجے سے کہا۔ راجا صاحب برا نہ مانیں، آپ کا تو یہ خاندانی پیشہ ہے۔ تب اختر کا ماتھا ٹھنکا اور اختر نے التجا آمیز نگاہوں سے اس فوجی کی طرف دیکھا لیکن وہ فوجی اختر پر بہت تپا رہتا تھا ، اس نے کہا ، میں تمھارے گھر تک پہنچ گیا ہوں، تمھارے باپ کا یہ نام ہے اور تمھارے تائے سے میں نے خود جوتے مرمت کروائے ہیں۔
اختر کے چہرے پہ تذلیل کا دکھ گہرا ہوتا گیا اور اس کا سر جھکتا گیا۔ اپنی بے مائیگی اور کم حیثیت کےاعتراف کے طور پر جھکا ہوا سر اور ندامت کے پسینے میں غرق چہرہ، ہماری ثقافت کا مقصد پورا ہو گیا تھا۔
اب جشن کا وقت تھا، مسکراہٹیں ہنسی میں بدلیں، ہنسی قہقہوں میں اور قہقہے موچی موچی کے نعروں میں بدل گئے۔ یوں اختر کی ذات ایک دفعہ پھر بدل گئی تھی۔ اس دن اختر نے اپنے زوال کے اعتراف کے طور پر پوری یونٹ کے جوتے بڑی دلجمعی سے پالش کیے۔ اور دوسرے دن اختر یونٹ سے فرار ہو گیا۔