شادی کا تعلق اور اس سے بے زاری، اداریہ ایک روزن
“یہ وہ نو جوان ہیں جو لائی لَگ ہیں۔ ان پر کسی کی باتوں کا اثر ہو جاتا ہے۔ اس قدر معصوم کہ زور زبر دستی سے ان کو دوسرے کے گھر لایا جاتا ہے، تا کہ لانے والے ان کا گھر وغیرہ توڑ سکیں۔”
لمحہ بھر کے لیے ان فِقروں سے وابستہ ستم ظریفی ایک طرف کر دیجیے، یہ ایسے چند جملے ہیں جو ہمارے یہاں کا سماجی ذہن سننے کو تیار بیٹھا ہے۔
اگر صنفِ نازک نہیں ہو تو نو جوان جواب دو؟ یہ دنیا آپ کے وکیلوں سے بھری پڑی ہے، ہمت کرو!
اب سنیے اور اپنی سمجھ دانی میں گُھل جانے والا تعویذ بنا کر رکھ لیجیے:
بِالرَّضاء جنس رسائی، sex، کو برابری کا عمل سمجھیے۔ کوئی آپ کو زبر دستی کھینچ کر آپ کی سمجھ بوجھ کے آگے معصومیت کی چِلمن نہیں تان دیتا۔
یہ تصویری صاحب، جناب عثمان ملک، اگر کسی سے دھوکا دہی کر رہے ہیں تو اِن کا ہی قصور ہے۔ ہمارے یہاں لوگوں کی اپنی شادی شدہ زندگی میں بَہ وجوہ دل چسپی کم یا ختم ہو جاتی ہے۔
اس دل چسپی کے ختم ہونے کی وجوہات میں سے چند ایک درجِ زِیریں ہیں:
▪︎ ایک دوسرے کو for granted لینا
▪︎ باہمی تعلق کی ابتداء ہی کسی کاروباری لالچ/حرص و طمع کی بنیاد پر ہونا
▪︎ اس تعلق کو کسی business transaction کی مانند چلانے (جو کہ کاروباری گھرانوں کی فطرتِ ثانیہ اور لا شعور کا حصہ بن چکا ہوتا ہے)، یا پھر کسی انتہائی کسی حریصانہ مزاج فرد کی جانب سے شادی کے تعلق کو career ambition کے طور پر لینے (شُرَفاء، elites میں تاریخی طور پر شادی و ناتہ طاقت کا لین دین کا معاملہ رہا ہے، سول سروس اور فوجی کتنے سارے کیسز میں ایسے کرتے ہیں؛ گرین کارڈ اور نیشنیلٹی ہولڈرز ایسے تعلقات کا مرکز ہوتے ہیں… وغیرہ)
▪︎ تعلق میں دَر آنے والی اس سرد مزاجی کے پیچھے سیدھی سادی سنسنی ماندگی، یعنی:
… thrill of being in touch with the different flesh.
▪︎ یا پھر سیدھی سادی وجودی بے زاری، ennui، جو زندگی کی گاڑی کو چلانے میں دل چسپیوں کا قطعی متضاد ہونا بھی ہو سکتا ہے۔
▪︎ جنس طاقت ور ترین جبلتوں کی رانی ہے۔ آپ کو کوئی بھی پُر کشش لگ سکتا ہے؛ پر ہے یہ ہارمونوں کا جھکڑ ہی۔
▪︎▪︎ ان ہارمونوں کے فشار کو مناسب انداز سے ضبط میں رکھنے کی کوشش اور ہمت جمع کرنی چاہیے۔ یہ نہیں کہ کسی کو جو کوئی بھی پُر کشش لگے تو ضبط ہتھیلیوں سے سرکتی ریت بن جائے۔
▪︎▪︎ اپنے اپنے رضا کارانہ ناتوں اور تعلقات کے معاہدوں میں ہوش سے دست خط کر کے داخل ہونے کی سی شعوری کوشش کرنا ضروری ہے؛ اور پھر اپنی رضا کے ساتھ جتنے اور لوگوں کی رضا وابستہ ہے، ان سب کی رضاؤں کی باہمی ہم آہنگی ضروری ہے۔
▪︎▪︎ اگر ایسا نہیں ہے تو تعلق سے علیحدگی اختیار کر لیں، دھوکا نہ دیں۔ سستے ڈرامے کرنا نہیں بنتے، اور نہ ہی چپڑیاں اور دو دو مت مانگنا کوئی بھلی بات ہے۔
▪︎ اور سب سے آخری بات:
… learn to name and shame those, who are the responsible hotspot of any melodrama.