جدید ریاست اور موت سے پہلے کی زندگی

Mubashir Ali Zaidi

جدید ریاست اور موت سے پہلے کی زندگی

از، مبشر علی زیدی

کوئی مذہب، کوئی نظریہ، کوئی ریاست اور کوئی نظام فرد سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ تمام مذاہب، نظام اور ممالک فرد کی فلاح کے لیے وجود میں آئے ہیں ورنہ ان کا کوئی جواز نہیں۔

جو مذہب یا نظریہ، نظام یا ریاست فرد کو تحفظ، انصاف اور اطمینان فراہم نہ کر سکے، اس کے جتنے مرضی قصیدے گھڑ لیں، وہ نا کام ہے۔ جب تک سیاسی گروہ آئین اور قانون کا احترام کرنے والی ریاست تشکیل نہیں دے سکے تھے، نیک بندوں نے مختلف جغرافیائی حدود میں آسمانی قوتوں کے نام پر قوانین فراہم کیے تا کہ جنگل کے قانون کے بجائے انسانوں کا معاشرہ تشکیل پا سکے۔ ان میں کچھ کو مذہب کا نام دیا گیا۔

لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ ہر مذہب مختصر عرصے تک ہی مؤثر رہا۔ مذہب کے نام پر بنی ریاستیں کئی صدیوں تک قائم رہیں لیکن وہ در حقیقت بادشاہتیں تھیں۔ عوام استحصال کا شکار ہی رہے۔


مزید دیکھیے: پاکستان میں جدید ریاست کے نظریے کی تدوین کیوں نا ہوسکی؟  از، ڈاکٹر منظور اعجاز

لبرل ازم، مذہب اور معاشرہ  از، خورشید ندیم


سیکولر جمہوریت کے سوا کوئی نظام ایسا نہیں جس میں ریاست نے اپنے شہریوں کو تحفظ، انصاف اور اطمینان فراہم کیا ہو۔ اگر چِہ اس میں بھی کچھ مسائل موجود ہیں لیکن بہ ہر حال ریاست اپنے شہری سے قوانین کے احترام اور ٹیکس کی ادائیگی سے زیادہ تقاضے نہیں کرتی۔ یہ مذہب سے بہتر ہے جو اپنے ماننے والوں سے جان کی قربانی بھی طلب کرتا ہے۔

کسی مذہب، نظریے، نظام یا ریاست کی خاطر جان دینا یا کسی کی جان لینا کوئی خوش گوار خیال نہیں۔ قومی ریاست میں ٹیکس گزاروں سے مذہبی چندے لینے کا بھی کوئی جواز نہیں۔

آج کے دور کی ریاست صرف موت سے پہلے کی زندگی پر یقین رکھتی ہے۔ چُناں چِہ اس کا فرض ہے کہ کام کرنے کے قابل تمام افراد سے ٹیکس وصول کرے اور اس سے ریاست کے تمام شہریوں کی زندگی کو بہتر سے بہتر بنائے۔ موت کے بعد زندگی کا سوال مذہب سے جڑا ہوا ہے۔ اس پر ایمان رکھنے والوں کو علی شریعتی کا یہ قول ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ جو مذہب زندگی میں  کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا، وہ مرنے کے بعد بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔

About مبشر علی زیدی 15 Articles
مبشر علی زیدی کم لفظوں میں زیادہ بات کرتے ہیں۔ سنتے بھی ہیں اور سوچتے بھی ہیں۔ روز گار کے لئے براڈکاسٹ جرنلسٹ ہیں اور جیو نیوز سے وابستہ رہنے کے بعد اب وائس آف امریکہ سے منسلک ہو گئے ہیں؛ لیکن دل کی اور شعور کی گتھیاں لفظوں میں پرونے کو ادیب بھی ہیں۔ سو لفظوں میں کہانی لکھنا، لوگوں کو مبشر زیدی نے سکھایا۔