نریندر مودی اور بھارتی سیکولر ازم اور جمہوریت : نریندر مودی کا سیاسی و سماجی نظریہ
از پروفیسر منوج کمار جھا ، سوشل ورک پروفیسر، دہلی یونیورسٹی
مترجم : ابو اسامہ، اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ سوشل ورک، مولانا آزاد نیشنل یونیورسٹی ، حیدرآباد، بھارت
The Policy Times کے ذریعہ کیے گئے ایک انٹرویو میں پروفیسر منوج کمار جھا (پروفیسراور سابق صدر شعبہ سوشل ورک ، دہلی یونیورسٹی اور قومی ترجمان ، راشٹریہ جنتا دل ) نے جدید اقدار سے متعلق کئی دلچسپ پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے۔ یہاں یہ واضح رہے کہ موجودہ دور میں سیکولرازم، جمہوریت، انصاف اور ڈویلپمنٹ جیسی اہم اور ترقی پسندانہ اقدار کی از سر نو تعریف کی جارہی ہے۔ فرقہ پرست طاقتیں نہ صرف یہ کہ سیاسی منظرنامے پر حاوی ہو رہی ہیں بلکہ اپنی تمام تر کوششوں سےان تعریفوں کے ذریعہ عوامی نفسیات کو بھی اپنے قبضے میں لے رہی ہیں۔
عوام کو یہ سمجھنا ہوگا کہSelective Development کو عوامی فائدہ بتا دینے سے ترقی کی ایک مسخ شدہ شکل سامنے آتی ہے جہاں حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کے لیے سیاسی طاقتوں کے پاس ماہرین کی ایک جماعت ہوتی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب حقیقت اور جھوٹ کے بیچ میں ایک کھائی ہے اور سچ پر جھوٹ نے جدید قدروں کا لبادہ اڑھا کر مکمل طور پر انہیں بھی اپنے قبضے میں لے لینے کی تدابیر اختیار کر چکی ہے۔ خواب اور شکست خواب تو انسانی مقدر ہے مگر شکست ایک نئے حوصلے اور کاونٹر بیانیہ کو بھی کھڑا کرتی ہے۔
ہار اور جیت کے پس منظر میں عوام اور سیاسی پارٹیاں دونوں ہی اپنا محاسبہ کرتی ہیں۔ اس لیے موجودہ سیاسی حالات کے پیش نظر سیکولرازم جیسی قدروں کو اپنی صحیح اور پرانی جگہ لینی ہوگی ورنہ ایسے حالات میں نہ صرف اقلیتوں کا بلکہ ملک کی آبادی کا بیشتر حصہ اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہو جائے گا۔ سماجی انصاف اور مساوات کے اصولوں کے تحت جو اقدامات تقسیم ہند کے بعد قدآور رہنماؤں نے اٹھائے تھے ان کی بچی ہوئی رمق بھی ختم ہو جائے گی۔
فرقہ پرست طاقتوں نے اس ملک کے سماجی اور ثقافتی تانے بانے کو کمزور کرنے کے لیے قسم کھا رکھی ہے۔ بلاشبہ ہمیں ایسے سیاسی نظام کی ضرورت ہے جو سماجی انصاف، انسانی حقوق اور مساوات پر مبنی ہو اور جو ہر اعتبار سے غریبوں اور پسماندہ طبقات کی نمائندگی کرے جس میں سیاسی طور پر بااختیار بنانے کے لیے اقلیتوں اور دلتوں کی سیاسی شمولیت ضروری ہے۔ ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ سیاست محض الیکشن اور اس کے نتائج تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ حالانکہ سیاست روز مرہ کی زندگی سے متعلق ہے؛ ذاتی فیصلے سے لے کر عوامی فیصلوں میں سیاست شامل ہے ۔سیاست کا ڈسکورس ایک نظریہ حیات کی طرح ہماری زندگی سے پیوستہ ہے جس سے فرار ممکن نہیں ہے۔
سیاست سے متعلق اس تنگ نظری میں وسعت دینے کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی ساتھ سیاست کے اس بڑے بیانیے کو بھی چیلنج کرنا شہریوں کی ذمہ داری بن جاتی ہے۔ ایسے ماحول میں پروفیسر منوج جھا جیسے اسکالرز اور سیاسی مبصر ین کی تحریریں امید کی کرن جگانے کے ساتھ بلا شبہ سوچنے کا ایک نیا نظریہ بھی دیتی ہیں۔ انہیں چند گزارشات کے ساتھ اس انٹرویو کا اردو ترجمہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جار ہا ہے۔ (عرض مترجم)
سوال: کیا ہندوستا نی تاریخ میں کبھی ایسا بھی وقت آیا ہے جس میں یہ ملک سیکولر کہلائے جانے کا حقدار رہا ہو؟
جواب: سیکولرازم ایک متحرک تصور ہےاور دوسرے تمام تصورات کی طرح یہ بھی پروان چڑھا ہے۔ در حقیقت یہ تصور آزادی کی چھاؤں میں پروان چڑھا اور اس وقت کے رہنماؤں نے اس کو بحیثیت ہندوستانی قدر اپنایا۔جس میں پنڈت جواہر لال نہرو، بی آر امبیڈکر، سردار ولبھ بھائی پٹیل، ابو الکلام آزاد وغیرہ شامل رہے ہیں۔ انہوں نے سیکولرازم کو اس لیے اپنایا کیوں کہ یہ ملک ذات پات اور مذہب کی بنیادو پر تقسیم تھا۔ ان کے مطمح نظر یہ ایک خواب اور مشن تھا جس کو پایہ تکمیل تک پہونچانا ضروری بھی تھا۔
ہندوستانی سیکولرازم کی نوعیت مغرب سے بالکل الگ ہے کیوں کہ وہاں مذہب اور اسٹیٹ کے درمیان کوئی رابطہ نہیں ہے۔ مگر ہمارے سیکولرازم کی خوبی یہ ہے کہ یہاں اسٹیٹ تمام مذاہب کی عزت کرتی ہے اور مذاہب بھی اسٹیٹ کے معاملات میں کسی قسم کی دخل اندازی نہیں کرتے ہیں۔ مگر گزشتہ برسوں میں اس علیحدگی نے آسانی سے اپنی منزلیں طے نہیں کی ہیں۔ سیکولرازم کے نصب العین تک نہ پہنچنے کی وجوہات سے ہم بخوبی واقف ہیں۔
سوال: نریندر مودی کی قرقہ پرست سیاست دوسری سیکولر پارٹیوں کی سیاست پر کیوں بھاری پڑ رہی ہے؟
جواب: جب پنڈت نہرو اور بابا صاحب امبیڈکر ہندوستانی قانون بنا رہے تھے تو سیکولرازم، آزادی، مساوات، انصاف ایک ہی قبیل میں آتے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انصاف سیکولرازم سے الگ کر کے دیکھا جانے لگااور یہی سلوک مساوات اور آزادی کے ساتھ بھی کیا گیا ۔ جب کہ ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا۔ کانگریس اور دوسری پارٹیاں بھی اس میں شریک گناہ ہیں۔ حالانکہ سیکولرازم اور انصاف اس ملک کے 80% لوگوں کی ضرورت ہے۔ ان کو ذات پر مبنی تقسیم اور ناروا سلوک سے بھی نمٹنا ہے جو کہ ہندوازم کا ہی ایک چہرہ ہے۔ اس علیحدگی کے پس منظر میں دائیں بازو نے سماج اور سیاست کو تباہ کرنے کا سامان تیار کر لیا۔ مودی کی سیاست ایک ایسا ناسور ہے جس نے پچھلے کئی سالوں میں مضبوطی حاصل کی ہے۔
سوال: ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بی جے پی نے ذات پات کے مسئلہ کو ایک حد تک دبا دیا ہے اور اس پر قابو بھی پا لیا ہے۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ ترقی پسند پارٹیوں کو سیکولرازم کے نظریات کو پھر سے ڈھونڈنا ہوگا ؟
جواب : جب آپ کے پاس رات دن چلنے والی ایسی میڈیا ہے جس پر برہمنی ماڈل کا قبضہ ہے (میری مراد برہمنوں سے نہیں ہے) تو ایسی صورت میں متبادل آواز کی گنجائش کم رہ جاتی ہے۔ مثال کے طورپر لوگ ذات پر مبنی سیاستداں کے طور پر جانے جاتے ہیں ۔ سیاست میں کاسٹ ازم ایک چیز ہے اور ذات کی تہوں سے وجود میں آنے والے امتیازات اور ظالمانہ ڈھانچوں کی بنیاد پر دلیلیں پیش کرنا در حقیقت دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ ۔ جناب نریندر مودی اور ان کی سیاست نے ان دونوں کو آپس میں گڈ مڈ کردیا ہے۔ مگر صرف یہ کہ دینے سے بات ختم نہیں ہوگئی ہے۔
ذات کی ‘خوبصورتی’ یہ ہے کہ نیو لبرل دور میں بھی یہ زندہ ہے کیوں کہ اس نے بڑی خوبصورتی سے امتیازی سلوک کی شکلوں کو بدل دیا ہے مگر یہ اب بھی چل رہا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو جناب مودی نے اتر پردیش میں یوگی آدتیاناتھ اور اتراکھنڈ میں تریوندر سنگھ کو کیوں منتخب کیا؟ کیا یہ سارا کچھ جمہوریت کے آئیڈیا سے منہ موڑنا نہیں ہے جس میں نمائندگی ایک ضروری مظہر ہے اور جس پر امبیڈکر نے بھی کافی زوردیا ہے۔
جمہوریت کا مفہوم نمائندگی اور شراکت ہے۔ بی جے پی نے کچھ مخصوص آبادیوں کو اس عمل سے یکسر خارج کر دیا ہے۔ اور جب ایسی صورت حال ہوتی ہے تو آپ سمجھ لیجئے کہ وقتی طور پرتو آپ شاندار کامیابیوں سے ہمکنار ہو جائیں گے مگر یہ ایک متحرک اور نمائندہ جمہوریت کے پورے تصور پر ہی خطرہ ہے۔
سوال: اتر پردیش میں یوگی کو بحیثیت وزیر اعلیٰ چن کر نریندر مودی آخر کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟
جواب: اس مسئلہ کو آپ بل گیٹس اورمائیکرو سافٹ کی مثال سے سمجھیے جیسے کہ مائیکرو سافٹ ہمیشہ اپنی آپریٹنگ نظام کو ضرورت کے مطابق بدلتا رہتا ہے۔ یوگی جی بی جے پی اور آر ایس ایس کے لیے نئے آپریٹنگ نظام ہیں۔ اب وقت گزرنے کے ساتھ استعمال کرنے والے جان جائیں گے کہ اس مشین میں نیا کچھ بھی نہیں ہے۔اس سے ہمیں ایک یہ بھی سبق ملتا ہے کہ گاندھی اور نہرو کے ہندوستان کا تصور اتنی آسانی سے نہیں ختم ہو گا۔
سوال: آپ اونچی ذات کے ایک ہندو ہیں۔ امن اور خوشحالی کے لیےایک ہندو ہندوستان پر ایک سیکولر ہندوستان کو ترجیح دینے کی وجہ؟
جواب:ہاں یہ حقیقت ہے کہ میں اونچی ذات کا ایک ہندو ہوں۔ میں اس سے انکار نہیں کر سکتا ہوں کیوں کہ یہ میرے اختیار میں نہیں تھا۔ یہ کہنے کے بعد میں یہ بھی کہوں گا کہ سیکولرازم صرف مسلمانوں کے لیے نہیں ہے۔ یہ تو ہمارے نقشے میں اور ہم اس سے گھرے ہوئے ہیں۔ ہم نے اس کی خوبصورتی کو ختم کر دیا ہے۔ میں جس علاقے سے تعلق رکھتا ہوں وہاں یہ رواج عام ہے کہ لڑکیوں کی شادی اس مہینے میں نہیں ہوتی ہے جس میں سیتا کی ہوئی تھی کیوں کہ مقامی لوگو ں کا ماننا ہے کہ سیتا کی زندگی میں بہت پریشانیاں تھیں۔ ہندوازم کے عقیدوں اور رواجوں میں یگانگت ہے اور میں اسی طرح کی یگانگت اس مذہب میں دیکھنا چاہتا ہوں۔ میں کسی کو بھی اجازت نہیں دوں گا کہ وہ اپنی تنگ اور نیچی سوچ کو سب پر نافذ کرنے کی کوشش کرے۔ اگر ہم بحیثیت قوم اس یگانگت کو برقرار رکھنے میں ناکام ہوگئے تو ہم یقینا ہندوستانی روح سے بد دیانتی کریں گے۔
سوال: موجودہ دور میں کیا مودی ہندوازم یا ہندتوا کا اصلی چہرہ ہیں؟
جواب: میں ابھی بھی محسوس کرتا ہوں کہ انتخابی نتائج سے کئی دفعہ بے تکی باتیں بھی نکلتی ہیں۔ جب مودی جی کو بہار میں شکست ہوئی تو کسی نے نہیں کہا کہ ان کی شامت آگئی مگر جیسے ہی وہ یو پی انتخابات میں کامیاب ہوئے تو لوگو ں نے کہنا شروع کردیا ہے کہ اب اپوزیشن کی شامت آگئی ہے۔ ہمیں اس طرح کی باتوں سے اوپر اٹھنا ہوگا۔ اور ہاں! برائے مہربانی ہندوتوا اور ہندوازم کو ایک ساتھ مت ملائیے کیوں کہ یہ دونوں الگ الگ تصور ہیں ۔ ہندتوا لوگوں میں پھوٹ ڈالنے اور الیکشن لڑنے کاایک نظریہ ہے ۔ ہندتوا در حقیقت ہندو ازم کےیکسر برخلاف ہے۔
مودی جی کے پاس تو جدید زمانے کا ہندو بننے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ جدید ہندو کو لبرل، کشادہ دل اور سب کو اپنانے والا ہونا چاہئے۔ اس کو گاندھی کی طرح تمام مذاہب کی عزت کرنے والا ہونا چاہیے۔ کیا مودی جی کبھی بھی اس امتحان میں کھرے اتر سکتے ہیں؟ میں گاندھی کو موجودہ دور کا سب سے بڑا مجدد سمجھتا ہوں۔ کیا جناب مودی اس انسان سے ذرا بھی میل جول کھاتے ہیں؟
مودی جی کو ڈلیٹ والی بٹن دبانی ہوگی اور جب تک وہ جھوٹے دشمن بنانے اورمخصوص آبادیوں کو مزید پسماندہ کرنے والی سیاست میں یقین رکھنا چھوڑ دیں گے، ایسی صورت میں ہی ہم ان سے کچھ بہتر امید رکھ سکتے ہیں۔ مگر ایسا کرنا ان کے لیے ذرا بھی آسان نہیں ہے ۔ (اس کی سیاسی وجوہات ہیں: مترجم )
سوال: حالیہ ای وی ایم تنازعہ پر آپ کی کیا رائے ہے؟
جواب : جمہوریت کا تصور ہی آزادانہ اور بر حق انتخابات پر مبنی ہے۔ اور آزادانہ اور بر حق انتخابات عوام محسوس اور تجربہ کرنا چاہتی ہے۔ یہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے جس کو الگ سے قانون کی کتاب میں لکھا جائے۔ جمہوریت شک و شبہات کے سائے میں کبھی نہیں پروان چڑھ سکتی ہے۔ اگر ای وی ایم کی بابت تنازعہ پیدا ہوگیا ہے تو اس ضمن میں وضاحت لازمی ہے۔ بیلٹ پیپر کے طرز پر الیکشن کرنے میں آخر حرج کیا ہے؟ مجھے تو کوئی حرج نہیں لگتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک نے تو پھر سے پرانے طریقہ کو اپنا لیا ہے۔ کیوں کہ بیلٹ آپ کو ایک قسم کا اطمینان دیتا ہے جس میں ووٹر اور بیلٹ میں ایک خاص رشتہ ہوتا ہے مگرای وی ایم میں ایک ڈیجیٹل رشتہ ہوتا ہے۔ گزشتہ دنوں جو کچھ بھی ہوا ہے اس کو مد نظر رکھتے ہوئے اور جمہوریت کو مزید پائیدار بنا نے کے لیے عام لوگوں کے شک کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔
سوال: کیا بیلٹ کی طرف واپسی ممکن ہے جبکہ اس سلسلے میں الیکشن کمیشن بھی دلچسپی لے رہی ہے؟
جواب: جمہوریت میں عوام کی آواز اور ان کے ہی مسائل کو ترجیح دی جاتی ہے۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ لوگوں نے سوال نہیں اٹھائے ہیں۔ نرسیما راؤ نے “Democracy at Risk” نامی ایک کتاب لکھی تھی جس نے الیکشن کمیشن کی ناکامیوں ذکر کیا تھا جس کا مقدمہ ایل کے ایڈوانی نے لکھا تھا۔ در اصل یہ ایسا مسئلہ ہے جس پر تقریبا تمام پارٹیوں نےماضی میں بھی سوال اٹھائے ہیں۔
اس طرح کے معاملوں میں سب سے اہم بات یہ ہوتی ہے کہ لوگ کیا سوچتے ہیں! در اصل یہی سب سے زیادہ اہم ہے۔ اگر پارلیمنٹ میں آپ 31% ہیں تو آپ باقی 69%لوگوں کی سوچوں پر پہرہ نہیں لگا سکتے ہیں۔ ایک بات یاد رکھیں جب Legislative Opposition کمزور ہوتی ہے تو وہ اپوزیشن سڑکوں پر مضبوط ہوتی ہے۔ اور جب مقننہ سڑکوں پر یہ محسوس کر رہی ہے تو اسے ایڈریس کرنا لازمی ہوجاتا ہے۔