اجالوں کا مسافر ۔۔ معین اختر
( شیخ محمدہاشم )
دبلا پتلاجسم،ستواں ناک ،گال اندر کو دھنسے ہوئے،گہرے سیاہ بال۔ نجانے اس کو اپنے بہیتر کون سی ایسی چیز بھلی لگی تھی اور نجانے کون سا ایسا فنکار اس کے دل کو بھا گیا تھا جس نے اس کے اندر ایک فنکار بننے کی خواہش کو حد درجہ بڑھا دیا تھا ۔ ابھی تو اس کی عمر کوئی لگ بگ گیارہ برس کی ہوئی ہو گی کہ فنکار بننا اس کے مشن میں شامل ہو گیا تھا۔ قد آور شیشے کے سامنے کھڑے ہو کر کبھی اپنے بال کنگھی سے سنوارتا تو کبھی اپنے کپڑوں کی سلوٹوں کو درست کرتا، کبھی تیل لے کر اپنے سر میں چپوتتا تو کبھی تبت کریم سے اپنے چہرے کو رگڑتا ۔اُس کے اندر کے فنکار نے اُس کو بے چین رکھاہوا تھا، ا س کی بے چین روح کچھ پانے اورکچھ کر گزرنے کے لئے بے تاب تھی۔جلدی سے اُس نے کمرے کا دروازہ بند کیا اور قد آور شیشے کے سامنے کھڑے ہوکر پوزیشن لی پھر لگ گیا مختلف اہم شخصیات کی نقل اتارنے ۔گلے کو کھنکارتے ہوئے اس نے کچھ دیر سوچا اور اُس زمانے کے مشہور ریڈیو نیوز کاسٹر شکیل احمد کا انتخاب کیا جن کی گھن گھرجتی آواز، آواز کی دُنیا کے لئے سحر انگیزی کا کام کرتی تھی ۔ہم۔۔ہوں اخ ہم۔۔”یہ ریڈیو پاکستان ہے ” گلے کو کھنکارتے ہوئے بولا” اب آپ شکیل احمد سے دنیا بھر کی خبریں سنیے”۔۔۔کئی مرتبہ کی کوشش نے اُسے شکیل صاحب کی بھاری بھرکم آواز کی کاپی کرنے میں کامیاب کر دیا ۔لیکن وہ خود حیران تھا یہ کامیابی اُسے ملی کیسے؟
اگلی مرتبہ اس کا حدف مہدی حسن خاں صاحب تھے یہ ایک چیلنج تھا ۔گرم پانی سے غرارے کئے ۔ گلے سے کنکھارنے کی آواز نکلی اور ۔۔”گُلوں میں رنگ بھرے ے ے”۔۔”بادنو بہار چلے” پر ریاض شروع ہوا ،کچھ جگہوں پر رک کر اپنی گدی سے اوپر تھپڑ مارتے ہوئے خود سے مخاطب ہوا ،پگلے بات یہ نہیں ہے کہ تو نے ا س غزل کو اچھی طرح گانا ہے، چیلنج یہ ہے کہ مہدی حسن خاں صاحب کی نقل اتارنی ہے اور بالکل ان کی آواز اور انداز کو کاپی کرنا ہے، اپنے آپ کو خود ہدایت دے کر اس نے دوبارہ اپنی کوششوں کا سلسلہ شروع کیا۔خود فنکار، خود اداکار، خود ہدایت کار اور خود ہی گلوگار۔ پہلے خان صاحب اور پھر فیض احمد فیض صاحب سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگی، پھر آسمان کی جانب سر اُٹھا کر رب سے مدد مانگی اور شیشے کے سامنے اپنے جبڑے کو کبھی دائیں تو کبھی بائیں ٹیڑھا کیا ماتھے کی شکنوں میں مزید اضافہ کیا آنکھوں کی پُتلیوں کو دائیں بائیں گھمایا اور شروع ہوگیا۔۔”قفص اداس ہے یارو” ،”صبا سے کچھ تو کہو” ،
ابھی اس کی کوششوں اور کاوشوں کا سلسلہ جاری تھا کہ دروازے پہ دستک ہوئی ۔اس کی کوششوں کاسلسلہ وہیں ٹوٹ گیا ۔یہ سوچ ہی رہا تھا کہ دروازے پہ کون ہو سکتا کہ دوبارہ دروازے پر دستک ہوئی اور اب تو دروازے کو پیٹنے کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا، گھبرا کر دروازہ کھولا تو قہر آلود نظروں کے ساتھ ابا جان کو سامنے پایا، وہ گھور گھور کر اس کو اوپر سے نیچے تک دیکھے جا رہے تھے۔ ابا جان کو سامنے دیکھ کر اس کی اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی سانس نیچے تھم گئی، اپنے دل کے دھڑکنوں کی رفتار کو اپنے ہی کان میں اس نے ڈھول بجنے کی مانند سُنا، ابا جان کے سامنے نمازیوں کی طرح دونوں ہاتھ باندھے بے سُدھ نیچی نظریں کئے مجرموں کی طرح کھڑا ہوگیا ۔
“کیا کر رہا تھاایں؟” ۔۔۔”میں نے پوچھا ہے کمرے کوبند کر کے کیا کر رہا تھا ؟” ابا جان کا چہرہ غضبناک ہو کر تمتا رہا تھا آنکھوں میں خون اُترا ہوا تھا ،لیکن اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کیا جواب دوں ۔کمرے میں تبت کریم کی مہک بسی ہوئی تھی ۔ابا جان کو سارا ماجرا سمجھ میں آچکا تھا ،چوری تھی جو پکڑی گئی تھی۔
“سر پر تیل لگا کر اور منہ پر کریم مل کر تو ایکٹنگ کر رہا تھا نا”۔”بول”۔ “بد بخت بولتا کیوں نہیں ہے ”
ابا جان بہت ہی غصے میں تھے اور مسلسل پوچھے جا رہے تھے لیکن اس کے پاس جواب نہیں تھا یا یہ جواب دینا نہیں چاہ رہا تھا جواب دیتا بھی کیسے سامنے ابا جان جو تھے ۔لیکن اس کے جواب نہ دینے پر ابا کے غصے میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا ۔
” آج میں تجھ کو اداکاری کرنے کا ایسا سبق سیکھاوں گا کہ تو ہمیشہ کیلئے اداکاری کرنا بھول جائے گا ،آج میں تیرا میراثی بننے کا بھوت اُتارتا ہوں ”
ابا نے کمرے کے چاروں جانب نظر دوڑائی لیکن کچھ نہ ملا تو کھونٹے پر لٹکی پتلون میں بندھی چوڑی بیلٹ اُتار لی گھُما کر بیلٹ اس کے بازو پر ماری۔ پھر کیا تھا بیلٹ اُس پر برسنے کا سلسلہ شروع ہو گیا تھاجسم کے جس حصے پر بیلٹ پڑتی ایک سرخ لمبی لکیر بنا دیتی ساتھ میں ابا کی کرخت دار آواز گونجتی ،
“میراثی بنے گا ، ارے ناک کٹائے گا اپنے باپ کی ، کون بنا ہے ہمارے خاندان میں میراثی ”
ابا کی بلند ہوتی آواز گھر میں گونجنے لگی گھر میں موجود تمام افراد اُس کو پٹائی سے بچانے کے لئے دوڑ کر کمرے کی طرف آئے لیکن ابا نے کمرے کا دروازہ بند کر دیا ، کمرے سے ابا کی اور جسم پر بیلٹ پڑنے کی زوردار آوازیں آ تیں رہیں ۔کمرے سے باہر گھر کے افراد بے بسی کی حالت میں یہ سُر سنتے رہے ۔جب دروازہ کھلا تو یہ ادھ مرا سا ہو چکا تھا ۔ ابا جان کی پٹائی نے بھی اس کے اداکار بننے کے شوق اور عزم کو کم نہیں ہونے دیا ۔
سولہ برس کی عمر میں جب ایک ورائٹی اسٹیج شو کی جانب سے مائیک پر اس کے نام کو پکارا گیاتو اس کو ابا کی مار یاد آ گئی لیکن آج اس کے ارادے پختہ تھے اسٹیج کی جانب اس کے قدم خود بخود بڑھ رہے تھے ۔اس کی سماعتوں سے اس پر کَسی جانے والی ہو ٹنگ کی آوازیں بھی ٹکرارہیں تھیں ،
“ابے ککڑی کہاں جارہا ہے ۔دیکھ سنبھل کر ،ہوا نہ اُڑا کر لے جائے”
اُس کو یہ آوازیں کسی گہرے کنوئے سے آتی محسوس ہو رہی تھیں ، وہ اسٹیج کی جانب بڑھتا رہا ،کوئی بھی آواز آج اس کے ارادے کو متزلزل نہیں کر سکتی تھی اس کی ساری توجہ آج کے دن کو کامیاب بنانے کی تھی۔ اسی دن کے لئے اُس نے دن اور رات ایک کر دیاتھا، اسی دن کے لئے اُس نے ابا کے ہاتھوں بیلٹ سے مار کھانے کو برداشت کیا تھا ، اسی دن کے لئے اُس نے رشتے داروں کے طعنے برداشت کئے ، دوستوں نے کہا تھا ،
“تجھ میں فنکار تو موجود ہے ،تو گلی کوچوں کا فنکار تو ہو سکتا ہے پربڑا فنکار کبھی نہیں بن سکتا “، آج کے دن اُس کے عزم اور شوق کو پورا ہونا تھا، آج وہ اُن طعنوں تشنعوں کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دینا چاہتا تھا ، اُس نے آج کے ورائٹی شو کے لئے آرگنائزر سے منت سماجت کر کے اپنے جوہر کو منوانے کے لئے فقط پندرہ منٹ مانگے تھے۔رب نے اُس کی فریاد سن لی تھی اس کو پندرہ منٹ دستیاب ہو گئے ۔ لیکن یہ کیا ہوا کہ اُس نے دس منٹ میں ہی وہ غضب ڈھا دیا کہ ورائٹی شو کے حاضرین کو کھڑے ہو کر تالیاں بجانے پر مجبور ہونا پڑا ۔ اس کی لاجواب پرفارمنس نے سینکڑوں حاضرین کو ہنسا ہنسا کر لوٹ پوٹ کر دیا تھا ۔ اُس نے اپنے اوپر کئے جانے والی ہو ٹنگ کو طمانچہ بنا کر واپس کردیا۔ آج اُس نے تشنہ لب کو برسات کی بوندوں سے خوب ترطیب کیا ،تب آرگنائزر نے آکر اس کے کان میں کہا کہ” تم جب تک چاہو اسٹیج پر رہ سکتے ہو تمھیں اب کوئی نہیں روکے گا “اندھے کو کیا چاہیئے ،دو آنکھیں،پھر یہ مسلسل 45منٹ تک اپنے تمام تر صلاحیتوں کو جواہر بنا دکھاتارہا جو اس نے قد آدم شیشے کے سامنے کھڑے ہو کر حاصل کی تھیں ،جس کے حصول کے لئے اُس نے ایک ایک پل محنت کی تھی۔ حاضرین پوری طرح سے اس کی گرفت میں آچکے تھے ۔45منٹ میں بچہ،بوڑھا ،خواتین،آرگنائزرز غرضیکہ کہ ہر فرد اس کا گرویدہ ہو چکا تھا۔اسٹیج پر اس جیسا دوسرا پر فارمر تھا ہی نہیں اس دن ہر کسی کی زبان پر صرف ایک ہی نام تھا وہ کانگڑی سا بچہ معین اختر ۔ معین اختر اور صرف معین اختر ۔۔
پاکستان کی کامیڈی کے کینوس میں رنگ بھرنے والا معین اختر وہ واحد فنکار تھا جن کے بطن سے ہر قسم کا فنکار جنم لیتاتھا ،خواہ وہ کامیڈین ہو،سنجیدہ ادکار ہو ،مصنف ہو،ہدایتکارہو،پروڈیوسرہو ،یا پھر گلوکارہو، نقالی میں وہ مہارت رکھتا تھا ایسی خداداد صلاحیتوں کا فنکار صدیوں میں پیدا ہوا کرتا ہے میعن اختر 24دسمبر 1950کو پاکستان کے عروس البلاد شہر کراچی میں پیدا ہوئے۔ اُنھوں نے کئی زبانوں میں مزاحیہ اداکاری کے جوہر دکھائے اور بین الاقوامی شہرت حاصل کی، ڈرامہ “ہاف پلیٹ”انکی اداکارانہ صلا حیتوں کا منہ بولتا ثبوت تھااس کے علاوہ کئی ٹی وی ڈارمے ایسے بھی ہیں جو انھیں دوسرے فنکاروں سے منفرد ظاہر کرتے ہیں۔معین اخترنے اداکاری کے جدید تخلیقی جواہر کو روشناس کرایا تھا معین اختر اداکاری کے دارالعلوم تھے۔
روزی،ہاف پلیٹ،مرزا اور حمیدہ،عید ٹرین،سچ مچ،آنگن ٹیڑھا،لاو میرا اعمال نامہ،ہیلو ہیلو،انتظار فرمائیے،اور دیگر بے شمار ڈرامے ہیں جن کو دیکھ کر دل عش عش کرنے کو جی چاہتا ہے ،ڈرامہ سچ مچ کی مقبولیت کے بعد سچ مچ کی لائن لگ گئی اور سچ مچ پارٹ ٹو،سچ مچ کا الیکشن،کچھ کچھ سچ مچ،سچ مچ کی عید بھی مقبولیت کی بلندیوں پر نظر آئے، عمر شریف کے ساتھ اسٹیج ڈرامے ،بڈھا گھر پہ ہے،یس سر نو سر نے پاک وہند میں شہرت کے جھنڈے گاڑے ، یہ ڈرامے سیٹلایٹ کے ذر یعے آج بھی دیکھے جاتے ہیں۔
ٹی وی شوز میں معین اختر شو،اسٹوڈیو ڈھائی، اسٹوڈیو پونے تین،شوشا،ایکسکیوز می اور لوز ٹاک بے انتہا مقبول ہوئے ۔ان کی میزبانی کا کیا کہیں کہ کہنے کے لئے الفاظ کم پڑ جاتے ہیں مختصراً یہ کہ ہر ایوارڈ شوز یا استقبالیہ تقریبات کو معین اختر کی میزبانی نے جلا بخشی۔ پاکستان کے ہراعلیٰ حکمرانوں کے اعزاز میں دئیے گئے استقبالیہ کی میزبانی کا شرف معین اختر کو حاصل رہا۔ انھوں نے سابق صدر پرویز مشرف کے رو برو میزبانی کرتے ہوئے ان کی نقل بھی اُتاری ،اس استقبالیہ کی قابل ذکر بات یہ تھی کہ اس تقریب میں ان کے والد بھی موجود تھے ان کے والد محترم کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے جنھوں نے کبھی اداکاری کرنے پر اُن کی پٹائی کی تھی۔
یوں تومعین اختر عروج کی بلندیوں پر تھے کامیڈی کے شعبے میں معین اختر کا نام ہی کافی تھا لیکن جب ان کی ٹیم انور مقصود اور بشریٰ انصاری کے ہمراہ بنی تو محسوس ہوا کہ کامیڈی کے خزانے کی تجوری ان تینوں ہیروں کے بغیر خالی تھی اور یہ تین چمکتے دمکتے ہیروں کا تجوری میں کوئی ثانی نہیں تھا۔
بھارتی اداکاروں میں دلیپ کمار، امیتابھ بچن،گوندا،رضا مراد،معین اختر کے مدا ح رہے ہیں یقیناًاور بھی بہت سے بھارتی فنکار ان کے مداح ہونگے لیکن تنگ نظری اور تعصب کی بنا پر اعتراف نہیں کرتے ہیں ۔خود معین بھائی بھارت کے مایہ ناز اداکار دلیپ کمار سے بہت متاثر تھے، معین بھائی کو دلیپ صاحب کا انٹرویو لینے کا اعزاز بھی حاصل ہے جبکہ دلیپ کمار صاحب نے معین اختر کو انٹر ویو دینے پر اپنا اعزاز سمجھا جس کا بر ملا اظہار بھی کیا ، معین اختر نے اس انٹرویو کو اپنی زندگی کا بہترین تحفہ قرار دیا تھا۔انھیں ان کی ا علیٰ کار کردگی کے اعتراف میں تمغہ حسن کارکردگی اور ستارہ امتیاز سے نوازا گیا۔آپ بڑوں کا بہت احترام کیا کرتے تھے اس بات کا اظہار فاطمہ ثریا بجیا نے اپنے انٹر ویو میں کیا تھا۔
معین اختر کو میں بار بار معین بھائی اس لئے کہہ رہا ہوں کہ ہر حلقے کاہر طبقے کا چھوٹا بڑا فرد ان کومعین بھائی ہی کہتا تھا ۔معین اختر کے معنیٰ مددگا رستارے کے ہیں ۔اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ معین بھائی بہت سے افراد کے لئے اللہ تبارک تعالیٰ کی جانب سے وسیلہ ثابت ہوئے جس کا اعتراف وصال والے دن ماضی کے مشہور فلمسٹار و کامیڈین لہری صاحب نے پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے کیا وہ فلاحی و رفاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔
22اپریل 2011کی فضا ء سوگوار تھی ہر آنکھ اشکبار تھی جب معین بھائی کی موت کی خبرمیڈیا پر نشر ہوئی تو پاکستان کے ہر گھر سے ان کی دعائے مغفرت کے لئے ہاتھ اُٹھ گئے تھے ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ انکو جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائیں آمین۔
پروین شاکر کی غزل کے چند اشعار معین بھائی کی نذرکرنا چاہونگا،
پھر میرے شہر سے گزرا ہے و ہ بادل کی طرح
دست گل پھیلا ہوا ہے میرے آنچل کی طرح
اونچی آواز میں اس نے تو کبھی بات نہ کی
خفگیوں میں بھی وہ لہجہ رہا کومل کی طرح