خود کلامی
از، سر فراز سخی
میں: سوچ رہا ہوں ڈائری میں بند شعروں کو، بابا مارک زیوک برگ کی دنیا کی دھوپ لگوا ہی دوں۔
دل: کس دنیا کی؟ جہاں give and take کی زبان لائیک اور کمنٹ کی زبانی بہ آوازِ کلک بولی جاتی ہے،
جہاں میر ویر غالب والب اور جگر وگر ہے۔
میں: ہاں اسی دنیا ونیا کی
دل: قبلہ ذرا ٹھہریے، دروغ گوئی کی ڈگری ہے پاس؟ یا لابہ گری کا سرٹیفکٹ؟ لاف و گزاف پہ دسترس تو ہو گی؟
میں: کیا مطلب ہے آپ کا
دل: ارے خواہ مخواہ خوف کے مارے شرابور ہوئے جاتے ہیں، ہم تو آپ کی سود مندی کے لیے ایسا پوچھ رہے ہیں، کہ جھوٹ بول لیتے ہیں، چاپلوسی کر لیتے ہیں، اپنے مُنھ میاں مٹھوں تو بن جاتے ہیں ناں؟ یہ ذرا ایک منٹ اپنی شعروں ویروں والی ڈائری کو اندر رکھیں، اور میری بات کو غور سے سُنیں، بل کہ غور وور کو چھوڑیں کچھ اس طرح سُنیں کہ جیسے آپ کا برسوں بعد موٹی رقم والا پرائز بانڈ کھلا ہے، اور اسے دینے کے لیے دنیا کے۔۔۔ نہیں نہیں پانچ وانچ مت سوچ لیجیے گا پورے seven ستاروں والے ڈھابے پر اک محفل منعقد کی گئی ہے جس میں آپ کے حریف و رقیب اور رشتے داروں کے سامنے آپ کو اسٹیج پر بلانے کے لیے آپ کا نام وام ایک طویل تمہید باندھنے کے بعد پکارا جانے لگا ہے، تو فوراً سراپا گھس جائیں اس منظر ونظر میں، اور بولتے ہاتھ سے استفادہ کرتے ہوئے ہمیں OK کا اشارہ دیں، تا کہ
اس جہاں کی نہیں ہیں ہماری آنکھیں
آسماں سے یہ کس نے اتاری
آنکھیں بند کر کے یہ یقین کر سکیں کہ آپ ہمہ تن گوش متوجہ ہو چکے ہیں۔
میں: اشارا وشارا دیتے ہوئے
دل: ہاں یہ بات، تو اب سُنیں
دنیا حسینوں کا میلہ
میلے میں یہ دل اکیلا
یہ حضرت بھوری رنگت سیاہ آنکھوں والے بابا مارک زیوک برگ کا قول وول نہیں، یہ تو ادت نارائن جی کی سُریلی آواز اور بوبی دیول پر فلمایا گیا گپت فلم کے گیت کا مکھڑا ہے۔
بابا کی تو نگری ہے
جس میں بکرا، بکری ہے
تو قبلہ سائنس وائنس کی برانچ بائیالوجی اور اس کی برانچ ورانچ علمِ نباتیات کے قوانین کے مطابق تو پودوں کے لیے دھوپ لازم و ملزوم ہے مگر شاعری کے لیے یہ بناوٹی دھوپ ووپ ٹھیک ہے بھی اور نہیں بھی البتہ نا گزیر بالکل نہیں، اگر چِہ پھر بھی آپ یہ دھوپ اپنے شیروں کو لگوانے کے مُتٙمٙنّی و خواست گار ہیں ہی تو اس کے چند اصول و ضوابط ہیں جنہیں ایک لمبے عرصے سے ہم بھی کھوج رہے ہیں ایسا کہہ کر ہم اپنی جان وان چُھڑا سکتے ہیں لیکن ایسا کہیں گے نہیں۔
تو نوٹ فرمائیے:
اصول نمبر ایک “چمچہ”
اصول نمبر دو “آفتابہ” یہ پارلیمنٹ میں کثرت سے پائے جاتے ہیں
اصول نمبر تین یہ ایک اُودے رنگ کی گول یا کسی قدر لمبوتری بیجلی ترکاری، جس میں ایک طرف ہرے رنگ کی پھندنے دار ٹوپی سی مڑھی ہوتی ہے، جس کو “تھالی کا” کے ساتھ لگا کر بطورِ مرکب اور محاورتاً پڑھا جاتا ہے۔
میں: آگے آتی تھی حالِ پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
یہ تو صفات ہیں
دل: صبر دنیا گول وول ہے، اور یہی صفات اصول و ضوابط
میں: گول نہیں بیضوی ہے اور
کاش کہ مقصد والا goal ہوتی
دل: قبلہ گُھمائیے مت، اور فی الحال ان اصول و ضوابط کی صفات کو اپنے اندر وندر ٹھونس ٹھونس کر بھر لیجیے، یہ صفات آپ کو دنیا و فیس بک کی مخفی طاقتوں کو تسخیر کرنے میں خاصی مدد گار ثابت ہوں گی۔
میں: کیا ان دونوں دنیاؤں میں بغیر ان صفات کے انسان جی وی نہیں سکتا؟
دل: کیوں نہیں جی وی سکتا، مگر
میں: مگر کیا؟
دل: قحط الرجال ہے، اسی کمی کے باعث تو ان ہی صفات کا ہر طرف ڈنکا بج رہا ہے، جی حضور بہتر حضور سے لے کر ہر بات بے بات پر، بے جا بر زبانی لائیک و کمنٹ واہ واہ، یہی کامرانی و کامیابی کا سنہرا راز اور نسخہ ہے، بل کہ اُن لوگوں کی تو پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں جو مال دار ہیں، اور پھل دار تو بس آٹھوں پہر بیٹھے گنے۔
میں: لیکن میں تو ان صفات سے خالی والی ہی دنیا و فیس بک پر جی رہا ہوں، بل کہ فیس کی بدولت تو عکاسی سیکھنے کو ملی، اور یہی عکاسی ذریعۂِ معاش بنی اور پھر اسی عکاسی کی بدولت ہی میں نے نثر میں خامہ فرسا ہونا سیکھا اپنی ہی تصاویر پر چھوٹے موٹے مضامین لکھ کر، ایسا قطعاً نہیں کہ ان صفات کا اپنے اندر ہونا ضروری ہے، یہ تو بس دکھاوے (فسانے) کی زندگی کے لیے ہیں جن کا حقیقت سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں، حقیقت میں جینے کے لیے تخلیقی creative ہونا لازمی ہے، اور اس کے واسطے سوچ و فکر کے فلک بوس پہاڑوں کو سَر کرنا پڑتا ہے، اور یوں منزل پر پہنچتے پہنچتے وقت لگ جاتا ہے، اور وقت ہوتے ہوئے بھی وقت کی شدید قلت ہی کے باعث، سفر کی طوالت سے بچنے کے لیے ہم ان صفات کو اپنا محبوب جان، اپنی تھکاوٹ کو منزل کا نام دے کر رختِ سفر کو کھول راستے میں ہی خیمہ لگا دیتے ہیں، حقیقت سے با خبر ہوتے ہوئے بھی جس کا نقصان ہمیں یہ اٹھانا پڑتا ہے کہ دل کبھی مطمئن نہیں ہوتا اور ہمیشہ بے چینی کے بھنوروں میں پھسا رہتا ہے۔
دل: قبلہ آپ تو خاصے عقل مند نکلے ، ہم تو آپ کو آغاز ہی سے بے۔۔۔
میں: ارے کہہ دیجیے کہہ دیجیے گھبرائیے مت ویسے بھی ہماری عقل کو مُختٙل ہوئے زمانے بیتے اور اس کے بعد سے زمانے نے ہم جیسے انسانوں کو کبھی عٙرٙبی میں مُختٙلٙطُ الحٙواس، مُختٙلُ الحٙواس، مٙخبُوطُ الحٙواس، فاتر العقل، مجنوں، خبطی و عاشق پکارا تو کبھی فارسی میں آشفتہ سر، شوریدہ سر، دیوانہ و سودائی پکارا تو کبھی سنسکرت میں سنکی، باولا، بورا، پاگل تو کبھی ہندی میں سِڑی۔
اور اب
ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی
کچھ ہماری خبر نہیں آتی
دل: ٹیکنالوجی کے اس دور میں بھی؟ جہاں آئے دن نئے نئے سیارے دریافت کیے جا رہے ہیں، آخر ایسی کون سی جگہ پہنچ گئے ہیں؟ مجھے بے حد افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ قبلہ آپ کو زمانے نے عربی فارسی وغیرہ میں جو کچھ بھی کہا وہ غلط نہ تھا، یہ اکیسویں صدی ہے، اور آپ ابھی تک اٹھارویں صدی میں ہی اٹکے ہوئے ہیں جدید ہو جائیں اور اس ٹیکنالوجی سے مستفید ہو کر اپنی تلاش کریں۔
میں: چلیں جی “شعروں کے انتخاب نے رسوا کیے مجھے” وہ انگریزی میں کہتے ہیں کہ:
When it hurts, observe. Life is trying to teach you something.
دل: کیا مطلب ہے آپ کا ؟
میں: ارے خواہ مخواہ پریشان ہوئے جاتے ہیں کچھ نہیں ہے۔ تو فیصلہ ہو گیا کہ بابا مارک زیوک برگ کی دنیا کی اپنے شعروں کو بقول آپ کے شیروں کو دھوپ ووپ لگوا ہی لیتے ہیں۔