پاکستان میں رویت ہلال کا مسئلہ : قوانین اور ان پر عملدرآمد اور چند تجاویز
(ڈاکٹر محمد مشتاق)
برطانوی قبضے کے دوران میں ان علاقوں میں جو اب پاکستان کا حصہ ہیں، رویتِ ہلال کے فیصلوں کے لیے دو طرح کا نظام رائج رہا:
جن علاقوں میں مسلمانوں کی مرکزیت کسی طرح قائم رہی ، جیسے ریاستِ سوات یا ریاستِ دیر، وہاں عوام حکومتی فیصلے ہی کی پابندی کرتے رہے؛
جہاں ایسی مرکزیت باقی نہیں رہی تھی ، ان علاقوں میں عوام رمضان و عیدین کے متعلق اپنے معتمد علمائے کرام کے فیصلوں کی پابندی کرتے۔
قیامِ پاکستان کے بعد ابتدا میں پاکستانی حکومتوں نے رویتِ ہلال کے مسئلے کو نظرانداز کیے رکھا اور اس وجہ سے، اب جبکہ یہ مختلف علاقے ایک ہی ریاست کا حصہ بن گئے تھے اور ملک کے بازو اور دوسرے بازو میں اختلافِ مطالع کا مسئلہ بھی اٹھا تھا ، رویتِ ہلال پر اختلاف کافی الجھنوں کا باعث بن گیا ۔ 1954ء میں علماے کرام نے ایک طویل مباحثے کے بعد اس مسئلے پر کسی حد اتفاقِ راے کی منزل حاصل کرلی لیکن اس فتوے کو ریاستی سطح پر عملاً نافذ کرنے کے لیے کوئی مناسب اقدام نہیں اٹھایا گیا۔ جنرل ایوب خان کے مارشل لا کے دوران میں جہاں اور دیگر معاملات میں ریاست نے “ترقی پسند” اور “جدید” اسلام کا ماڈل پیش کرنا چاہا وہیں رویتِ ہلال کے مسئلے پر بھی ایسے فیصلے کیے جن کی وجہ سے عوامی سطح پر بے چینی میں مزید اضافہ ہوا ۔
ریاستی اور حکومتی سطح پر رویتِ ہلال کے فیصلے کے لیے باقاعدہ اور سنجیدہ کوشش ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے دور میں ہوئی اور اس کے نتیجے میں جو نظام قائم کیا گیا معمولی تبدیلیوں کے ساتھ اب بھی پاکستان میں وہی نظام قائم ہے ۔
وفاقی حکومت کی طرف سے رویتِ ہلال کے فیصلے کے لیے قانونی نظام کی تشکیل
قومی اسمبلی نے 23 جنوری 1974ء کو ایک قرارداد کے ذریعے ایک کمیٹی کی تشکیل کی جسے یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ رمضان اور عیدین کے لیے رویتِ ہلال کا فیصلہ کرے تاکہ عام طور پر ان مواقع پر جو اختلاف پیدا ہوتا رہا اس کا خاتمہ کیاجاسکے۔ اس کے بعد 12 فروری 1974ء کو نو شخصیات پر مشتمل کمیٹی کا اعلان کیا گیا ۔ کمیٹی کے ارکان کو اختیار دیا گیا کہ وہ اپنے میں سے کسی ایک کو اکثریتی ووٹ کے ذریعے ایک سال کے چیئرمین منتخب کرے۔ یہ بھی طے کیا گیا کہ پھر ہر سال اسی طرح نئے چیئر مین کا انتخاب ہوگا۔
فیصلوں کے بارے میں یہ اصول طے ہوا کہ تمام فیصلے “شریعت کا احکام کی روشنی میں ” اکثریتی ووٹ کے ذریعے ہوں گے۔ تاہم عملاً چونکہ کمیٹی کے فیصلے کے اعلان کا اختیار صرف چیئرمین کو حاصل رہا تو اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ فیصلے میں سب سے اہم کردار ہمیشہ چیئرمین ہی کا رہا ہے۔
بعد میں کی گئی تبدیلیاں
1974ء سے 1987ء تک کمیٹی کے ارکان کی تعداد 9 ہی رہی۔ پہلی دفعہ اس تعداد میں اضافہ 1988ء میں کیا گیا جب ارکان کی تعداد 13 کردی گئی ۔ اس کے بعد ارکان کی تعداد میں کمی بیشی کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ 2015ء میں ارکان کی تعداد 26 تک پہنچ گئی!
ابتدا میں صرف مرکزی سطح پر کمیٹی قائم کی گئی۔ تاہم بعد میں صوبائی سطح پر اور پھر ضلع کی سطح پر بھی زونل کمیٹیاں بنائی گئیں لیکن فیصلے کا اختیار مرکزی کمیٹی ہی کے پاس رہا ۔
اسی طرح ابتدا میں کمیٹی کو صرف محکمۂ موسمیات کی مدد ہی دستیاب رہی لیکن اب درج ذیل ادارے اور افراد بھی کمیٹی کی مدد کرتے ہیں :
پاکستان فضائیہ ؛
پاکستان بحریہ ؛
سپارکو ؛
محکمۂ موسمیات بمع 40 رصدگاہیں ؛
صوبائی محکمہ ہاے اوقاف ؛
تمام ڈسٹرکٹ کوآرڈینیٹنگ آفیسرز (ڈی سی اوز) ؛ اور
وزارتِ اطلاعات و نشریات ۔
ابتدا میں کمیٹی کا کام صرف رمضان اور عیدین کا فیصلہ کرنا تھا لیکن بعد میں محرم ، ربیع الاول اور شعبان کے فیصلے کا اختیار بھی کمیٹی کو دیا گیا اور اب یہ اسلامی سال کے تمام بارہ مہینوں کا فیصلہ کرتی ہے۔
یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ اسمبلی کی قرارداد میں کمیٹی کے لیے ایک سال کی مدت مقرر کی گئی تھی لیکن بعد میں عملاً اس مدت کا لحاظ نہیں رکھا گیا۔ اسی طرح ابتدا میں کمیٹی کے چیئرمین کے لیے عہدے کی مدت ایک سال مقرر کی گئی تھی لیکن بعد میں اس میں اضافہ کرکے اسے تین سال کردیا گیا ۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ وزارت نے دیوبندی / بریلوی تقسیم کو مدنظر رکھتے ہوئے کوشش کی کہ دونوں گروہوں سے باری باری چیئرمین لیے جائیں۔ واضح رہے کہ مفتی منیب الرحمان صاحب 2001ء سے مسلسل اس کمیٹی کے چیئرمین ہیں اور اس سوال کا جواب مجھے کم از کم نہیں مل سکا کہ ان کو مسلسل 17 سال چیئرمین بنائے رکھنے میں حکمت کیا ہے؟ ان کی فقاہت مسلم لیکن کسی بھی شخص کو اتنے طویل عرصے تک اتنے اہم منصب مسلسل برقرار رکھنا کسی بھی طور مناسب نہیں ہے ۔
مرکزی رویتِ ہلال کمیٹی کے طریقِ کار اور فیصلوں پر کی جانے والی عمومی تنقید
پاکستان میں رویتِ ہلال کے اس نظام پر ابتدا ہی سے کافی تنقید ہوتی آئی ہے۔ ایک عام مسئلہ جو نظرآتا ہے وہ یہ ہے کہ اس کے فیصلوں کو ملک کے کئی علاقوں میں ، بالخصوص خیبر پختونخوا کے میدانی علاقوں اور قبائلی علاقوں میں نہیں مانا جاتا۔ ان علاقوں کے علمائے کرام کی جانب سے کی جانے والی تنقید عموماً دو نکات پر مشتمل ہوتی ہے :
ایک یہ کہ خیبرپختونخوا سے آنے والی شہادتوں کو کمیٹی میں بالعموم شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور بہت کم قبول کیا جاتا ہے۔ کئی دفعہ یہ بھی کہا گیا کہ کمیٹی کا اجلاس جلد برخاست کی گیا جبکہ ابھی دوردراز علاقوں سے شہادتیں موصول ہورہی تھیں اور ان کا انتظار کیا جانا چاہیے تھا۔ دوسرا یہ کہ اگر کمیٹی سعودی عرب کی رویت قبول کرے تو اس طرح نہ صرف عموماً امتِ مسلمہ کے ساتھ بلکہ خصوصاً پاکستان میں وحدتِ رمضان و عیدین کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔
رویت کی خبر قبول یا مسترد کرنے میں شدت یا تساہل؟
رمضان کی رویت کو فقہاے کرام روایت مانتے ہیں اور شوال و ذی الحجہ اور دیگر مہینوں کی رویت پر وہ شہادت کے احکام کا اطلاق کرتے ہیں۔ اسی طرح وہ رمضان کے حکم کو “امر دینی” مانتے ہیں جبکہ دیگر مہینوں کو ، بالخصوص عیدین کو ، حقوق العبد سے متعلق سمجھتے ہیں۔
اس فرق کا قانونی اثر یہ ہے کہ رمضان کی رویت کی قبولیت میں کمیٹی کو بہت زیادہ شدت سے گریز کرنا چاہیے اور اگر بظاہر رویت کی روایت کرنے والا قابلِ اعتماد ہو تو بہت زیادہ چھان پھٹک اور غیرضروری جرح نہیں کرنی چاہیے ۔ اسی طرح اس روایت کے راوی کا مجلسِ قضاء (کمیٹی کی میٹنگ) میں خود آنا بھی ضروری نہیں ہے بلکہ اس کے لیے شہادۃ علی الشہادۃ کا طریقِ کار بھی اختیار کیا جاسکتا ہے اور اس سے بھی بہتر طریقہ یہ ہے کہ مرکزی کمیٹی اس ضمن میں صوبائی کمیٹی پر اور صوبائی کمیٹی پھر ضلعی کمیٹی کے ارکان پر اعتماد کرے ۔ اب چونکہ مواصلات کا نظام بہت ترقی کرگیا ہے ، اس لیے خبر کی ایک جگہ سے دوسری جگہ تک رسائی میں وقت کا ضیاع روکا جاسکتا ہے ۔ تاہم یہ بات کئی دفعہ سامنے آئی ہے کہ مرکزی کمیٹی کے ارکان ، بالخصوص کمیٹی کے چیئرمین، خود راوی سے روایت سننا چاہتے ہیں ۔ اس غیرضروری شدت کی جڑ اس بداعتمادی میں ہے جو مرکزی کمیٹی کو صوبائی یا زونل کمیٹیوں کے بارے میں ، یا ان میں سے بعض کے بارے میں ہوتی ہے۔ جب تک یہ بداعتمادی ختم نہ ہو معاملہ بہتری کی طرف نہیں جاسکتا ۔
البتہ اگر رویت کی خبر ایسے علاقے ، یا ایسے وقت میں ، آرہی ہو جب فلکی حسابات قطعی طور پر وہاں امکانِ رویت کو مسترد کرتے ہوں ، تو اس بنیاد پر رویت کی خبر کو مسترد کیا جاسکتا ہے اور اسے راوی کی غلط فہمی پر محمول کیا جائے گا۔
پھر عیدین کی رویت چونکہ شہادت ہے، اس لیے اس میں گواہ کا مجلسِ قضا میں آنا ضروری ہے لیکن اس کے لیے مناسب یہی ہے کہ مرکزی کمیٹی اس ضمن میں صوبائی اور ضلعی کمیٹیوں کے فیصلوں پر اعتماد کرے اور اس پر اصرار نہ کرے کہ اس نے خود گواہوں کی گواہی سننی ہے۔ اس شہادت کی قبولیت کے سلسلے میں شاہد پر مناسب جرح بھی کی جاسکتی ہے لیکن اس ضمن میں بھی اختیار صوبائی اور ضلعی کمیٹیوں کو منتقل کرنا چاہیے۔
البتہ اس سلسلے میں یہ بات مدنظر رکھنی ضروری ہے کہ راوی کی روایت یا گواہ کی شہادت مسترد بھی کی جاسکتی ہے۔ خیبرپختونخوا کے عوام ، بلکہ بعض علماے کرام بھی، عموماً یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اتنی شہادتیں آئیں لیکن انھیں مسترد کیا گیا ۔ قانونی اصول اس سلسلے میں یہ ہیں کہ شہادت جب تک قاضی کی جانب سے قبول نہ کی جائے تب تک اس کی حیثیت محض ایک خبر کی ہےاور یہ کہ دلائل و قرائن کی بنیاد پر قاضی شہادت کو مسترد بھی کرسکتا ہے ۔ اس لیے سچی بات یہ ہے کہ اس امر میں جانبین بے جا حساسیت کا مظاہرہ کررہے ہیں ۔
سعودی عرب کی رویت پر فیصلہ کیوں نہیں کیاجاسکتا؟
خیبر پختونخوا میں جب مذہبی جماعتوں کے اتحاد، متحدہ مجلسِ عمل، کی حکومت تھی تو صوبائی اسمبلی نے اس مقصد کے لیے قرارداد بھی منظور کی تھی کہ مرکزی رویتِ ہلال کمیٹی کو رویت کے متعلق سعودی عرب کا فیصلہ ماننا چاہیے ۔ اس ضمن میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ چونکہ ظاہر الروایہ کے مطابق اختلافِ مطالع معتبر نہیں ہے ، اس لیے سعودی عرب کی رویت کی پاکستان میں قبولیت جائز ہے۔
اس موقف کی بنیاد دراصل سعودی عرب کے متعلق اس خوش گمانی پر ہے کہ وہاں فیصلے اسلامی قانون کے مطابق ہوتے ہیں ۔ درحقیقت یہ محض خوش گمانی ہی ہے ۔ کئی اہلِ علم نے رویت کے متعلق سعودی عرب کے نظام پر تنقید کی ہے ۔ اس تنقید کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ رویت کی قبولیت کے لیے معیار حنبلی فقہ کے مطابق ہے جو حنفی فقہ کی رو سے صحیح نہیں ہے ۔ اس پہلو کو اگر نظرانداز بھی کیا جائے تو تنقید کا دوسرا پہلو زیادہ اہم ہے ۔ وہ یہ ہے کہ سعودی عرب میں فیصلے کی اصل بنیاد رویت نہیں بلکہ فلکی حسابات ہوتے ہیں اور جب ان حسابات کی رو سے چاند کی پیدائش ہوچکی ہو تو اس کے بعد ملنے والی رویت کی خبر کو وہ قبول کرلیتے ہیں ۔
ہمارا موقف یہ ہے کہ شرعاً فلکی حسابات کی بنیاد پر چاند کی پیدائش کو مہینے کے آغاز کے لیے معیار نہیں بنایا جاسکتا ، نہ ہی محض اختلافِ مطالع کے عدمِ اعتبار کا قبول کرکے اس مسئلے کو حل کیا جاسکتا ہے کیونکہ اصل مسئلہ مطالع کے اختلاف کا نہیں بلکہ قانونی اختیار کی حدود کا ہے ۔ سعودی عرب کا فیصلہ پاکستان میں نافذ نہیں ہوسکتا جب تک حکومت اسے باقاعدہ طور پر قبول نہ کرلے ۔
اگر حکومتِ پاکستان نے بعض دیگر مسلمان ممالک کی حکومتوں کی طرح یہ فیصلہ کرلیا کہ وہ رویت کے متعلق سعودی عرب کا فیصلہ اپنے ملک میں نافذ کرے گی ، تو اس کے بعد واقعتاً اختلافِ مطالع کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہے گی ۔ تاہم اس فیصلے کا ایک ناپسندیدہ اثر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پھر مقامی سطح پر رویت کا اہتمام کرنے میں بہت زیادہ تساہل برتا جائے گا ۔
مزید برآں جب تک حکومتی سطح پر یہ فیصلہ نہیں کیا جاتا ، رویتِ ہلال کمیٹی اپنے طور پر اس کا فیصلہ نہیں کرسکتی اور پاکستان کی سطح پر اسے رویت کے متعلق پاکستان کی حدود سے آنے والی روایات اور شہادتوں پر ہی فیصلہ کرنا ہوگا۔
پس چہ باید کرد ؟
رویتِ ہلال کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے وقتاً فوقتاً مختلف تجاویز سرکاری سطح پر بھی پیش کی جاتی رہی ہیں۔ سب سے زیادہ ضروری امر یہ ہے کہ اس سلسلے میں باقاعدہ قانون سازی کی جائے کیونکہ ایسی کسی قانون سازی کی عدم موجودگی میں حکومت نے قومی اسمبلی کی 1974ء کی قرارداد سے بہت کچھ انحراف کیا ہے ۔ کسی باقاعدہ قانون کی عدم موجودگی ہی کی بنیاد پر سپریم کورٹ نے ، جبکہ افتخار محمد چودھری صاحب چیف جسٹس تھے ، اس سلسلے میں پٹیشن کی سماعت سے معذوری ظاہر کی ۔ یہ فیصلہ کئی وجوہات سے ناپسندیدہ تھا لیکن ہم سردست اس فیصلے پر بحث نہیں کرنا چاہتے بلکہ صرف یہ امر سامنے لانا چاہتے ہیں کہ اس موضوع پر قانون سازی کیوں ضروری ہے ؟ اہم بات یہ ہے کہ خود حکومت نے یہ ضرورت محسوس کی ہے اور اس وقت بھی حکومت کے سامنے ایک مسودۂ قانون زیرغور ہے۔ اس فصل میں اس ضمن میں کچھ تجاویز پیش کی جارہی ہیں۔
رویتِ ہلال کمیٹی کے نظام میں اصل مسئلہ
اوپر تفصیل سے واضح کیا گیا کہ کیسے اس کمیٹی کے ارکان کی تعداد نو سے بڑھ کر چھبیس تک پہنچ گئی ہے اور کیسے اب چیئرمین کو مرکزی حیثیت حاصل ہوگئی ہے ۔ ہمارے نزدیک اس نظام کی اصل خرابی یہیں پائی جاتی ہے ۔ جب تک یہ خرابی دور نہیں کی جاتی ، مسائل برقرار رہیں گے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ کمیٹی کے ارکان کی تعداد واپس کم کی جائے ۔
نئے مسودۂ قانون میں بھی قرار دیا گیا کہ تکنیکی ارکان سمیت کمیٹی کی کل تعداد کو پندرہ کردیا جائے ۔ مزید قرار دیا گیا ہے کہ آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کو بھی مناسب نمائندگی دی جائے۔ یہ بات البتہ حیران کن ہے کہ مسودۂ قانون میں صوبوں کو برابر یا متناسب نمائندگی دینے کی کوئی بات نہیں کی گئی ہے ۔ جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ، اس وقت سندھ سے گیارہ ، پنجاب سے نو ، بلوچستان سے تین اور خیبرپختونخوا سے دو ارکان ہیں۔ اس انتہائی حد تک غیر متوازن اور غیر متناسب نمائندگی کو کسی طور بھی جواز نہیں دیا جاسکتا ۔
ہم تجویز کرتے ہیں کہ محکمۂ موسمیات ، سپارکو اور وزارتِ مذہبی امور سے ایک ایک نمائندہ لیا جائے ؛ ایک ایک رکن اسلام آباد ، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان سے لیا جائے ؛ اور ہر صوبے سے دو دو ارکان لیے جائیں ۔ تکنیکی ارکان کے علاوہ باقی گیارہ ارکان کے لیے ضروری ہو کہ ان کی علمیت اور کرادار کی بلندی عام طور پر مسلم ہو ۔ جب تک ان ارکان پر عوام کا اعتماد نہیں ہوگا ، کمیٹی کے فیصلوں کو عوامی قبولیت حاصل نہیں ہوسکتی ۔ یہ کل چودہ ارکان ہوجائیں گے ۔
چیئرمین کی پوسٹ پر مسلکی بنیاد پر تعیناتی ایک بہت بری روایت ہے ۔ اس سے بہرصورت جان چھڑانی چاہیے۔ ہم تجویز کرتے ہیں کہ اس پوسٹ پر سپریم کورٹ کے کسی ریٹائرڈ جج کو ایک سال کی مدت کے لیے تعینات کیا جائے اور ہر سال چیئرمین کا تعلق الگ صوبے سے ہو۔ جب تک کمیٹی کا چیئرمین قانون کا ماہر نہیں ہوگا ، مسائل میں اضافہ ہوتا جائے گا ۔
اختیارات کے ارتکاز کے بجائے اختیارات کی تقسیم اور منتقلی
جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ، ابتدا میں رویتِ ہلال کمیٹی کا نظام جمہوری تھا اور فیصلے اکثریتی بنیاد پر ہوتے تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ چیئرمین کی پوزیشن بہت طاقتور ہوگئی ہے ، بالخصوص جبکہ فیصلے کا اعلان صرف چیئرمین ہی کرسکتا ہے اور مزید یہ کہ ایجنڈا پر کوئی بھی آئٹم چیئرمین کی مرضی کے بغیر نہیں لایا جاسکتا ۔ ضروری ہے کہ کمیٹی کے فیصلوں کے متعلق اس اصول کو پھر سے نافذ کیا جائے کہ ہر فیصلہ اکثریتی ووٹ پر ہوگا ، نہ کہ چیئرمین کی پسند یا ناپسند پر۔
اس مسئلے کا ایک اور سنجیدہ پہلو یہ ہے کہ وحدت کو زبردستی یقینی بنانے کے لیے صوبائی اور ضلعی کمیٹیوں کو ان کے اپنے دائرۂ کار میں بھی فیصلے کا اختیار نہیں دیا گیا ۔ اٹھارھویں ترمیم سے قبل جبکہ قانون سازی کے بیش تر امور پر وفاق کا قبضہ تھا ، یہ بات کسی حد تک قابلِ فہم تھی لیکن اب بہت سے دیگر امور کی طرح اس امر کو بھی صوبوں کے حوالے کیا جانا چاہیے ۔ ضلعی کمیٹیوں کو چاہے ابھی اس معاملے میں مکمل طور پر بااختیار نہ کیا جائے لیکن کم از کم یہ ضرور ہونا چاہیے کہ صوبائی کمیٹیوں کو صوبے کی سطح پر کم از کم رمضان و عیدین کے فیصلے کے لیے مکمل اختیار دیا جائے ۔
اس سلسلے میں یہ بھی طے کیا جاسکتا ہے کہ صوبائی کمیٹیاں سارے شواہد اپنے فیصلے کے ساتھ مرکزی کمیٹی کےسامنے پیش کرے۔ اگر مرکزی کمیٹی کا فیصلہ صوبائی کمیٹیوں کے لیے قابلِ قبول ہو تو بہت خوب، ورنہ اس کے بعد صوبائی کمیٹیاں اپنے صوبے کی حد تک فیصلہ کرنے کی مجاز ہوں۔
اس تجویز پر زیادہ سے زیادہ یہ اعتراض کیا جاسکتا ہے کہ اس طرح “قومی وحدت” کو نقصان پہنچے گا۔ اس کے جواب میں عرض ہے کہ ایک تو قومی وحدت مصنوعی طور پر پیدا نہیں کی جاسکتی ؛ دوسرے وفاق میں صوبوں کے لیے جیسے دیگر امور میں اندرونی خودمختاری قبول کی جاتی ہے اور اس سے قومی وحدت کو نقصان نہیں پہنچتا، ایسے ہی اس بارے میں بھی صوبوں کو بااختیار بنانے سے قومی وحدت متاثر نہیں ہوگی ۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس طرح وہ طبقات جو اس وقت پرائیویٹ کمیٹیوں کے فیصلے مانتے ہیں، قومی دھارے میں آجائیں گے اور صوبائی کمیٹی کے فیصلے کی پابندی شروع کرلیں گے۔ ان شاء اللہ ، بتدریج چند ہی سالوں میں اس طریقے سے مرکزی کمیٹی کے فیصلے پر پورے ملک میں عمل شروع ہوجائے گا۔ قومی وحدت یقینی بنانے فطری طریقہ یہ ہے ۔
صوبائی سطح پر کمیٹی کے ارکان کی تعداد تکنیکی ارکان سمیت چھے سے زائد نہ ہو ۔ مسودۂ قانون میں بھی یہی تجویز کیا گیا ہے ۔ ہم مزید یہ تجویز کرتے ہیں کہ اس کمیٹی کا سربراہ متعلقہ صوبے کے ہائی کورٹ کا کوئی ریٹائرڈ جج ہو ۔ باقی ارکان کی اہلیت کے لیے وہی معیار رہے جو مرکزی کمیٹی کے ارکان کے لیے ہے۔
مسودۂ قانون میں اسلام آباد کے لیے تجویز کیا گیا ہے کہ اس کی کمیٹی میں ارکان کی تعداد سات ہو۔ ہمارے خیال میں یہ بہت بڑی تعداد ہے ۔ چیئرمین اور تکنیکی افراد سمیت اس کی تعداد پانچ سے زائد بالکل نہیں ہونی چاہیے اور چیئرمین کی پوسٹ پر اسلام آباد ہائی کورٹ یا وفاقی شرعی عدالت کا کوئی ریٹائرڈ جج ہو ۔
مجوزہ قانون میں کہا گیا ہے کہ کمیٹیوں کی مدت چار سال ہو ۔ ہمارے خیال میں یہ بہت بڑی مدت ہے۔ ایک سال کی مدت ، جس میں بارہ دفعہ فیصلے کیے جاتے ہیں، بالکل کافی ہے ۔ بے شک بعض ارکان کو اگلے سال کے لیے بھی برقرار رکھا جائے لیکن ہر قمری سال کی ابتدا سے قبل نئی کمیٹی کا نوٹیفیکیشن ضروری ہو ۔ البتہ ، جیسا کہ اوپر ہم نے تجویز کیا ، چیئرمین ایک سال سے زائد عرصے کے لیے نہ ہو اور ہر سال نیا چیئرمین ہو ۔ جب ایک دفعہ چاروں صوبوں سے چیئرمین ہوجائیں تو اس کے بعد بے شک کسی پرانے چیئرمین کو دوبارہ تعینات کیا جاسکے۔
ارکان کی برطرفی کا اختیار وزیرِ مذہبی امور کے پاس رہے جبکہ چیئرمین کو ایک سال سے قبل برطرف نہ کیا جاسکے ، الا یہ کہ کمیٹی کے غیرتکنیکی ارکان (علماے کرام) اکثریت سے اس کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد منظور کریں ۔
نجی کمیٹیوں کے خلاف کارروائی
رویتِ ہلال کے فیصلے کے لیے بننے والی نجی کمیٹیاں دراصل حکومت کی رٹ چیلنج کرتی ہیں اور اس لیے ان کے خلاف سخت اقدام کی ضرورت ہے ۔ ایسا تبھی ہوگا جب ان کمیٹیوں کے لیے عوامی حمایت کم سے کم ہو اور اس کے لیے ضروری ہے کہ سرکاری نظام پر عوام کا اعتماد قائم ہو۔
مجوزہ قانون میں ان کمیٹیوں کے قیام کو قابلِ سزا جرم قرار دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اس جرم پر کم سے کم ایک سال کی سادہ قید اور دو لاکھ روپے تک جرمانے کی سزا دی جاسکے گی ۔ ہم اس میں یہ اضافہ کرنا چاہیں گے کہ اس جرم کو قابلِ دست اندازئ پولیس جرم (cognizable offence) بھی قرار دیا جائے تاکہ متعلقہ افراد کو پولیس بغیر عدالتی وارنٹ کے بھی گرفتار کرکے عدالت میں پیش کرنے کی مجاز ہو اور ساتھ ہی اس جرم کو ناقابلِ ضمانت (non-bailable) اور ناقابلِ صلح (non-compoundable) قرار دیا جائے ۔
مجوزہ قانون میں ان ٹی وی چنیلز اور میڈیا سے وابستہ افراد کے خلاف کارروائی کا بھی کہا گیا ہے جو کمیٹی کے فیصلے سے قبل رویتِ ہلال کے متعلق خبر نشر کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ میڈیا کا کردار دوسرے بہت سے امور کی طرح یہاں بھی بہت ناپسندیدہ ہے لیکن اس مسئلے کا حل رویتِ ہلال کمیٹی کےمتعلق قانون نہیں ہے۔ اگر ایسا کیا گیا تو میڈیا کے دباو کی وجہ سے یہ سارا مسودۂ قانون ہی دریابرد کردیا جائے گا ۔ بہتر یہ ہوگا کہ ایسے چینلز اور افراد کے خلاف پہلے سے موجود میڈیا قوانین ، بالخصوص پیمرا کے قانون ، کے تحت کارروائی کی جائے۔
اسی طرح مجوزہ قانون میں ان افراد کے لیے بھی چھے ماہ تک قید اور پچاس ہزار روپے تک جرمانے کی سزا کا کہا گیا ہے جو رویتِ ہلال کمیٹی کے فیصلے کی خلاف ورزی کریں۔ یہاں متن اتنا مبہم ہے کہ میں بالکل ہی نہیں سمجھ سکا کہ اس سے مراد کون لوگ ہیں؟ اندازہ یہ ہے کہ اس سے مراد وہ لوگ ہوں گے جو نجی کمیٹیوں کے فیصلے پر عمل درآمد کرتے ہوئے روزے رکھیں یا عید منائیں۔ اگر مراد یہی ہے تو یہ قانون بہت ہی برا قانون (bad law)ہے کیونکہ اس کا نفاذ عملاً ممکن ہی نہیں ہوگا۔ نیز اگر نجی کمیٹیوں کے خلاف موثر کارروائی ہوجائے تو پھر عوام الناس کے خلاف ایسی کارروائی کی ضرورت بھی نہیں رہے گی ۔
ایک ضروری کام ، جسے مجوزہ قانون میں نظرانداز کیا گیا ہے ، یہ ہے کہ ہجری/قمری تقویم کے استعمال کو ترویج دی جائے اور اس ضمن میں کم از کم یہ کیا جائے کہ سرکاری اداروں ، بالخصوص اوقاف کے زیر اہتمام مساجد اور مدارس ، میں ہجری/قمری تقویم رائج کی جائے۔ شمسی تقویم کا استعمال یقیناً جائز ہے لیکن قمری تقویم کا اہتمام فرض کفایہ ہے۔
ھذا ما عندی، و العلم عند اللہ !