اخلاقیات کا موضوع : مذہبی، آزاد خیال اور سیکولر تناظرات
قُربِ عبّاس
مذہبی لوگوں اور خود آزادخیال (لبرل)، سیکولر یا ملحد لوگوں کے درمیان ‘اخلاقیات’ کا موضوع ہمیشہ سے زیر بحث رہا ہے۔
سوال اٹھتا ہے کہ بغیر مذہب کے انسان کے پاس کیا اخلاقیات ہیں؟
گناہ کہاں رقم کیے جاتے ہیں؟
اس سے پہلے یہ بھی سوال ہے کہ جو انسان مذہب کو ضابطہ حیات نہیں مانتا اس کی نظر میں بُرائی ہے کیا؟ اچھائی وہ کس کو کہتا ہے؟
اور وہ کسی قسم کے اچھائی اور برائی کے تصور کا قائل ہے بھی تو خدا کی ذات پر یقین تو نہیں ہے، جنت، دوزخ، قیامت پر ایمان نہیں رکھتا، سزا جزا کے بارے میں کبھی نہیں سوچتا تو پھر اس کے اندر ایسا کون سا جذبہ ہے جو اس کو اسی کی طے کردہ سماجی برائیوں سے روکتا ہے یا اچھائی کی جانب اُکساتا ہے؟
ایسے کئی سوالات ہیں کہ جو نہ صرف مذہبی لوگوں کے لیے ایک معما ہیں بلکہ ہمارے اردگرد کئی لبرل حضرات بھی موجود ہیں جو اس معاملے میں کنفیوژڈ دکھائی دیتے ہیں۔ روز مرہ زندگی میں آپ کو بہت ساری مثالیں مل جائیں گی، خاص طور پر سوشل میڈیا پر اس قسم کے نام نہاد “لبرلز” کی بھرمار ہے، جن کی نظر میں شراب نوشی کے اشتہارات، سیکس کے موضوع پر گفتگو کے دوران بھونڈے الفاظ کا استعمال اور مسلسل مذہب کی تضحیک ہی ایک ایسا راستہ ہے جس پر چلتے ہوئے وہ باشعور لبرل ہونے کی سند پا سکتے ہیں۔
کسی قسم کی سماجی اور اخلاقی ذمہ داری سے خود کو مستثنی سمجھتے ہوئے، اپنی بول چال اور اعمال سے بے پروائی ظاہر کرتے ہوئے یہ ثابت کرنا ہی شیوہ ہے کہ ہم فطرت کے نزدیک ہیں اور بے باک ہیں، مذہب نے جو ان کے پیروں میں زنجیریں ڈال رکھی تھیں ان سے آزاد ہوچکے ہیں، روایات کی لگامیں کاٹ کر پھینک دی ہیں لہذا وہ سرعام سب کچھ کرنے کا حق رکھتے ہیں اور اسی کو وہ شخصی آزادی بھی سمجھتے ہیں جو کہ بہت بڑا مغالطہ ہے۔
دراصل یہ وہ لبرلز ہیں جن کا شعوری یا لاشعوری طور پر مذہبی لوگوں کی طرح خیال ہوتا ہے کہ تمام تر اخلاقیات دراصل مذہب کی ہی پیداوار ہیں چونکہ اب ہم کسی بھی مذہب کی پیروی نہیں کرتے سو اس لیے ہم پر کسی طرح کی اخلاقیات لاگو نہیں ہوتیں۔ اس سطح پر ہم آکر کسی بھی اس قسم کے نام نہاد لبرل انسان کی ذہنی اور علمی سطح کا اندازہ لگا سکتے ہیں، ایسی سوچ کا حامل شخص ناممکن ہے کہ باقاعدہ مطالعہ کے سلسلے سے گزر کر یہاں تک پہنچا ہو۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس نے مذہب میں گھٹن محسوس کی اور باقی لبرلز کے بارے میں جانا کہ وہ ان تمام مذہبی حدود و قیود سے آزاد ہیں تو یہ راستہ بہترین محسوس ہوا سو اپنا لیا۔ اس نے کبھی مزید جاننے اور سمجھنے کی کوشش کی ہی نہیں ہے۔
یہ معاملہ کوئی نیا نہیں ہے، اس قسم کی لہر مغرب میں کچھ صدیاں پہلے چلی تھی اور اسی طرح کے سوالات اٹھے تھے، ایسے ہی مغالطوں نے جنم لیا تھا۔ یہ خرد افروزی کی تحریک تھی جس کا بنیادی مقصد مذہب کو اخلاقیات سے الگ کرنا تھا اور اس تحریک نے بہت تیزی کے ساتھ مقبولیت بھی پائی۔ پادریوں کی گرفت سوسائٹی پر کمزور پڑ گئی اور چرچ کو سماوی عدالت کے منصب سے دستبردار ہو کر محض ایک عبادت گاہ تک محدود ہونا پڑا۔
ایک طویل جستجو کے بعد اس تحریک کو مزید تقویت ملی تو انسانی حقوق کی پاسداری کے لیے یو این چارٹر (The Charter of the United Nations) ترتیب دیا گیا، انٹرنیشنل کورٹس آف جسٹس (The International Court of Justice) کی بیناد رکھی گئی، انسان کی فلاح و بقا کے لیے عالمی قوانین طے کیے گئے اور ان سب قوانین کا مذہب سے کچھ لینا دینا نہیں تھا، کسی آسمانی صحیفے کا حوالہ نہ کسی پیغمبر کا قول۔۔۔ لیکن دنیا کے تمام ممالک اس کی ایمانداری پر آج بھی یقین رکھتے ہیں۔ انہی اصولوں کو انسان کی اجمتماعی اخلاقیات بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔
ہمیں آج یا کل اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہی پڑے گا کہ انسان کی زندگی پر کوئی قرض نہیں، وہ یقیناً آزاد پیدا ہوا اور بغیر مقصد کے پیدا ہوا ہے۔ لیکن اس نے اس بے مقصد زندگی میں اپنے مقصد کا انتخاب خود کرنا ہے۔ دوسری طرف وہ جیسے جیسے علم و آگہی کی جانب سفر کرتا جائے گا انسانیت کے نزدیک آتا جائے گا، فطرت سے محبت میں مبتلا ہوتا جائے گا۔ علم و آگہی کا سفر، انسانیت کا قرب اور فطرت سے محبت اس کی انفرادی سطح پر اخلاقیات کو طے کریں گی، وہ بہتر انداز میں اپنی اور دوسروں کی آزادی سے حاصل ہونے والی لامحدود خوشی کے مفہوم کو سمجھے گا، اس بات کا بھی قائل ہوگا کہ میری آزادی وہاں تک موجود ہے جہاں سے دوسرے فرد کی آزادی کا آغاز ہے۔ بامقصد زندگی گزارے گا اور یہی پہلو اس کی شخصیت میں خوبصورتی پیدا کرے گا۔
برٹرینڈ رسل نے اپنی سوانح عمری میں ایک بہت خوبصورت بات لکھی ہے:
“تین سادہ مگر انتہائی مضبوط جذبوں نے میری زندگی پر ہمیشہ راج کیا ہے:
محبت کی آرزو
علم کی جستجو
اور دکھی انسانوں کے لیے ناقابل برداشت کرب”
Three passions, simple but overwhelmingly strong, have governed my life:
the longing for love,
the search for knowledge,
and unbearable pity for the suffering of mankind.
اگر ہم برٹرینڈ رسل کی اس بات پر غور کریں تو سماوی صحیفوں کی پیروی نہ کرتے ہوئے بھی اس دانشور کے پاس بہترین اخلاقیات موجود تھیں جس کو وہ مختصر الفاظ میں دوسروں تک پہنچا رہا ہے۔
خیر سوال یہ ہے کہ ایک لادین انسان کی کیا اخلاقیات ہیں اور اپنی اخلاقیات کہاں سے لیتا ہے؟ تو اس کا سادہ سا جواب ہے کہ احترامِ آدمیت کا خیال رکھتے ہوئے اپنی تہذیب کی مسلسل مثبت تعمیر ہی اس کی اصل اخلاقیات ہیں۔ ان قوانین کے لیے جدوجہد کرنا جو انسانیت کو فلاح کے لیے ہیں اور جو زندگی کے رستوں میں رکاوٹیں ہیں، بے بنیاد قدغن ہیں ان کی کسی قسم کی حمایت نہ کرنا ہی اس کو مہذب بناتا ہے۔
اپنے بچوں کو کیا اخلاقیات دے کر جائیں گے؟ بچوں کے لیے ان کے اپنے دور کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اپنے معاملات ہوں گے، اس دور کی اچھائی برائی کو پرکھتے ہوئے اپنے قوانین ہوں گے اور ان انسان دوست قوانین کی پاسداری ہی ہماری آئندہ نسلوں کی اخلاقیات ہوں گی، یہی ان کی تہذیب ہوگی۔ یہ پیش گوئی کرنا کچھ مشکل نہیں کہ جیسے اب وہ اقوام کامیاب ہیں، آئندہ بھی کامیاب رہیں گی جن کے قوانین کسی جامد اور بوسیدہ دستور کی بجائے دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوں گے۔