پاکستانی سیاست میں اخلاقی ہتھیار

پاکستانی سیاست میں اخلاقی ہتھیار

پاکستانی سیاست میں اخلاقی ہتھیار

(عامر رانا)
(انگریزی سے اردو میں ترجمہ محمد فیصل)

وزیراعظم نوازشریف اور اہلخانہ کے خلاف پاناما کیس کی تحقیقات کے حوالے سے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کی رپورٹ نے سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ کر دیا ہے۔ اس رپورٹ سے ہمارے سماج کا اخلاقی بحران اور بڑھتی ہوئی سیاسی عصبیت بھی واضح ہو گئی ہے۔ حالیہ عرصے میں یہ دونوں مسائل مزید شدت سے ابھر کر سامنے آئے ہیں۔

بیہودہ زبان، بے بنیاد و ضرر رساں الزامات اور مخالفین کا ٹھٹھا اڑانے کو پاکستان میں سیاسی معیار کے طور پر تسلیم کیا جا چکا ہے۔ ستم ظریفی ملاحظہ کیجیے کہ یہ سب کچھ اخلاقیات سربلندی کے نام پر ہو رہا ہے۔

یہ سب کچھ کسی نہ کسی طور تمام جنوبی ایشیائی ممالک کے سیاسی کلچر کا حصہ ہے اور پاکستان میں خصوصی طور پر اخلاقیات کے ہتھیار کو مخصوص سیاسی کرداروں کو اچھا یا برا قرار دینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ نچلی سطح پر سیاسی مفہوم میں اخلاقیات کا متضاد بداخلاقی نہیں بلکہ بدعنوانی ہے۔ سیاست اور سیاست دانوں کو غیراخلاقی سمجھا جاتا ہے کیونکہ وہ بدعنوان ہیں اور عوام کے پیسے کا غلط استعمال کرتے ہیں۔

سینئر سیاست دان جاوید ہاشمی بالکل ٹھیک کہتے ہیں کہ احتساب کے نام پر مخصوص طور سے صرف سیاست دانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ بدعنوانی ایک بیماری اور جرم ہے اور جو بھی اس کا مرتکب ہو اسے انصاف کے کٹہرے میں لایا جانا چاہیے۔

تاہم مخصوص اخلاقی طریق کے اطلاق سے ناصرف سیاسی و قانونی عملداری میں فرق دھندلا جاتا ہے بلکہ سیاسی مقامی غیرسیاسی قوتوں کے ہاتھ میں جانے کا خدشہ بھی جنم لیتا ہے۔

سیکیورٹی حلقوں اور عدلیہ کا خیال ہے کہ سیاسی اخلاقی نظم قائم کرنا اس کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ دونوں میں کوئی ایک دوسرے کو چیلنج نہیں کرتا بلکہ انہوں نے ایک دوسرے کے اخلاقی اصولوں سے مطابقت پیدا کر لی ہے۔

اخلاقیات کا معاملہ خصوصاً کسی ایک کے اخلاقی نظریے کو دوسروں پر تھوپنا پاکستان میں خاصا عام اور پیچیدہ مسئلہ ہے اور یہ صرف سیاست تک ہی محدود نہیں۔ اس کی کئی شکلیں ہمارے رویوں سے مترشح ہوتی ہیں اور مختلف ادارے اسے مختلف تناظر میں استعمال کرتے ہیں۔

اخلاقیات ایک سماجی قدر ہے جسے مذہب، سماجی معاہدے یا ثقافتی اصولوں و نمونوں سے جواز ملتا ہے۔ تاہم یہ قانون کی حکمرانی کا متبادل نہیں ہو سکتی۔ علمی طور سے دیکھا جائے تو قانون کی حکمرانی دراصل جمہوریت، انسانی حقوق اور سماجی انصاف سے الگ چیز ہے۔ قانون کی حکمرانی اخلاقیات کو چیلنج کرتی ہے اور نہ ہی سیاسی یا جمہوری طریقہ ہائے کار میں کوئی مداخلت کرتی ہے۔

مگر مقتدر اشرافیہ قانون کی حکمرانی کو اخلاقیات میں گڈمڈ کرتی ہے اور اس کا خیال ہے کہ آمرانہ ڈھانچہ صرف اخلاقی بنیاد پر ہی قائم رہ سکتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ قانون کی حکمرانی اور سیاست پر ہونے والی بحث میں عوام کہاں کھڑی ہے؟

مسلم لیگ (ن) کی قیادت یہ دلیل دے رہی ہے کہ حکومت کی قسمت کا فیصلہ عوام کے ہاتھ میں ہے جو وہ انتخابی عمل کے ذریعے کرتے ہیں۔ تاہم عوامی حمایت قانون کی حکمرانی کا متبادل نہیں ہو سکتی کیونکہ عوام حکومت کوآئین اور قانون کی حکمرانی کے تحت کام کرنے کے لیے منتخب کرتے ہیں۔

دوسری بات یہ کہ انتخابی احتساب کا تعلق قانون کی حکمرانی کی خلاف ورزی پر مبنی کسی انفرادی فعل کے بجائے حکومتی کارکردگی سے ہوتا ہے۔

مختلف ادارے اور گروہ اپنے اپنے اخلاقی اصول بنا کر اختیار اور جواز حاصل کرتے ہیں۔ مذہبی عناصر خود کو سماجی و مذہبی قلمرو میں اخلاقیات کے ٹھیکیدار سمجھتے ہیں۔

“سکیورٹی حلقے اور اب عدلیہ بھی یہ سمجھتی ہے کہ سیاسی اخلاقی نظم قائم کرنا اس کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ ان میں کوئی ایک دوسرے کو چیلنج نہیں کرتا بلکہ انہوں نے ایک دوسرے کے اخلاقی اصولوں سے مطابقت پیدا کر لی ہے۔”

یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ مذہبی سیاسی جماعتیں سیاسی عزائم بھی رکھتی ہیں اور کئی معاملات پر ان کا اسٹیبلشمنٹ سے اختلاف ہے۔ تاہم ان کے اختلافات ابھر کر سامنے نہیں آتے اور دونوں نظام کو قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 2002 میں فوجی حکومت اور مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل میں لیگل فریم ورک آرڈر پر اتفاق رائے اس کی نمایاں مثال ہے جس کے ذریعے جنرل مشرف کا فوجی یونیفارم میں برسراقتدار رہنا ممکن ہوا تھا۔

“2003 میں ایم ایم اے کی جانب سے اپنا اخلاقی ضابطہ نافذ کرنے کی کوشش ناکام رہی مگر اسٹیبلشمنٹ نے 1985 میں آرٹیکل 62 اور 63 آئین میں شامل کر کے اپنے اخلاقی ضابطے کو پہلے ہی قانونی شکل دے دی تھی۔”

اس کے بدلے میں ایم ایم اے نے ناصرف اس وقت صوبہ سرحد (خیبرپختونخوا) اور بلوچستان میں اپنی حکومتیں بچائیں بلکہ مدرسوں سے فارغ التحصیل اپنے ارکان کو نااہلی سے بھی بچا لیا جن کی تعلیم بی اے کی ڈگری کے مساوی نہیں تھی۔

خیبرپختونخوا میں ایم ایم اے کی حکومت نے 2003 میں حسبہ بل (نفاذ شریعت بل) متعارف کرا کے اپنے اخلاقی نظم کا دائرہ وسیع کرنے کی کوشش کی۔ مگر سپریم کورٹ نے اسے کالعدم قرار دے دیا۔ یہ ان کے اخلاقی اصولوں کو قانونی ڈھانچے میں مدون کرنے کی کوشش تھی مگر وہ اپنے متعین کردار سے تجاوز کر رہے تھے لہٰذا مقتدر اشرافیہ نے ایم ایم اے کو ایسا کرنے سے روک دیا۔

آنے والے عرصے میں مذہبی جماعتیں سماجی و مذہبی قلمرو میں اپنے بنیادی کردار تک ہی محدود رہیں اور جب انہوں نے اپنے اخلاقی نظم کا سڑکوں پر مظاہرہ کیا تو مقتدار اشرافیہ نے انہیں کبھی نہیں روکا۔

دوسری جانب سیاسی جماعتوں کا سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ایکا ممکن نہیں۔ انہیں وقتاً فوقتاً یاد دہانی کرائی جاتی ہے کہ انہیں سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے تابع رہنا ہے خصوصاً جب سیاسی جماعتیں آئینی دائرے میں رہتے ہوئے بھی اپنا آپ منوانے کی کوشش کریں تو تب بھی انہیں یہ بات اچھی طرح باور کرا دی جاتی ہے۔

ایم ایم اے کی جانب سے اپنا اخلاقی ضابطہ نافذ کرنے کی کوشش ناکام رہی مگر اسٹیبلشمنٹ نے 1985 میں آئین میں آرٹیکل 62 اور 63 شامل کر کے اپنے اخلاقی ضابطے کو پہلے ہی قانونی شکل دے دی تھی۔

پارلیمنٹ ایک ایسا ادارہ ہے جو اداروں کے درمیان پل کا کردار ادا سکتا ہے۔ مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ حکمران جماعت پارلیمنٹ سے قریباً لاتعلق ہی رہی جس سے غیرسیاسی قوتوں کو اپنی اخلاقی دلیل کے ذریعے حکومت کو پچھاڑنے کا موقع مل گیا۔

جب مقتدار اشرافیہ بشمول سیاسی قوتیں پارلیمنٹ کو بااختیار نہیں بناتیں تو اخلاقی سوال مزید خطرناک شکل میں سامنے آتا ہے۔ تاہم اس سے خود سیاسی جماعتوں، سیاسی عمل اور سب سے بڑھ کر حکمران جماعت کو نقصان پہنچتا ہے۔ جب پارلیمنٹ بیانیے کی تشکیل اور تنازعات کو سلجھانے میں اپنا قائدانہ کردار ادا نہیں کرتی تو پھر ایسا خلا جنم لیتا ہے جس سے کوئی بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ سیاسی قیادت کو اس دھندلے خلا میں ٹامک ٹوئیاں مارنے کے بجائے اسے پہچاننے کا اہل ہونا چاہیے۔

حالیہ سیاسی بحران سیاسی جماعتوں کے لیے اپنے افعال کا جائزہ لینے کا موقع ہے۔ خاص طور پر حکمران جماعتوں کو پارلیمنٹ کو کمزور رکھنے کی اپنی سوچ تبدیل کرنی چاہیے۔ پارلیمنٹ ہی آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 پر نظرثانی اور اداروں میں مساوات کے قیام نیز قانون کی حکمرانی، احتساب اور شفافیت موثر بنانے کی اہل ہے۔

ہمارے ہاں کہنے کو پارلیمنٹ ہی بالادست ہے مگر عملی طور پر دیکھا جائے تو سیاسی جماعتیں اسے اپنی قوت کا منبع بنانے سے گریز کرتی اور ‘اخلاقیات کی سیاست’ کو ترجیح دیتی ہیں۔ شاید سٹیٹس کو کے بجائے مخالفین کو چیلنج کرنا زیادہ آسان ہوتا ہے۔


بشکریہ: نقطۂ نظر سجاگ