جے اَسی پنجابی چا بولیے تے گریٹر پنجاب؛ نا کرو سوہنیو، نا کرو پیاریو
از، یاسر چٹھہ
چند دن پہلے وفاقی دارالحکومت میں بر لبِ سڑک سیکیورٹی ناکے پر ایک خاتون اونچے آواز میں پولیس اہل کار کے روَیّے پر شدید غصے کے عالم میں بول رہی تھیں۔ اس معاملے پر راقم کے دو فیس بک نوٹ صورتِ احوال کے سیاق و سباق پر روشنی ڈال سکتے ہیں:
I. ایک بالکل ذاتی سی بات شیئر کرتا ہوں۔
مجھے اس وائرل ویڈیو میں جس میں خاتون پنجابی بولنے کو جہالت کے برابر کہہ رہی ہے، بہت رنج ہوا ہے۔
مجھے ایسی باتوں پر بہت رنج ہوتا ہے۔ ایک ایسا قلق جس کو لفظوں میں ڈھالے ڈھالنا مشکل ہوندا پیا سِی …
ویڈیو ویکھن تُوں بعد میں رَج کے پنجابی دے مختلف لہجیاں دے گانے سُنے… ہاں میں پنجابی ہی ہاں، جاہل ہاں، چنگاں ہاں۔”
II. “پنجابی: انگریزی میڈیم اور شہری میٹروپولیٹن کی لسانی و ثقافتی یلغار
1۔ مجھے پنجابی زبان کے متعلق وائرل ویڈیو کی جگہ پر اگر کوئی اور زبان اور اس کے بولنے والے اس انداز سے ٹارگٹ ہوتے دِکھتے تو اتنا ہی رنج ہوتا اور غصہ آتا، جتنا کہ میری پیدائش کے ethnic گروپ کو نشانہ بنانے پر ہوا ہے۔ (مجھے در اصل، بَل کہ زیادہ تر صورتوں میں خالی پَنے میں سرسراتے، فہم کی کرچیوں میں کھنکتے، اور خلا سے بھرے خالی لوگ بہت کھٹکتے ہیں۔ poor I am)
2۔ خاتون کو وہاں اُس وائرل ویڈیو میں خاتون ہونے کی بِناء پر نشانہ نہیں بنایا جا رہا، اور نا ہی چپ کرایا جا رہا ہے، بَل کہ وہ تو اچھی خاصی vocal ہیں اور loud mouthing کر رہی ہیں۔ ان کو ویڈیو پر بِلا اجازت لینا قابلِ اعتراض بات ہو سکتی ہے اور اِٹ پُٹّن تے سیٹیزن جرنلسٹ نہیں نکل آنا چاہیے۔ بَہ ہر حال، موبائل فون نے neo-paparazzi کو جنم دیا ہے، بہت سے unintended and menacning consequences مزید بھی سامنے آتے جانے کے خدشات ہیں۔
3۔ الہامی کتابیں ہونے کی دعویٰ دار کتابوں کو جس نے جو کہنا ہو وہ کہہ لے، پر میرے لیے تو اگر ان پر بھی کسی بڑے انسانی گروہ کا اعتقاد ہے تو ان کا اعتقاد (کچھ حدود) میں قابلِ احترام ہے، بھلے مجھے ان پر اعتبار ہو یا نا ہو۔(پنجابی زبان کو الہامی تقدس دے کر اس پر طنز کیا گیا تھا، یہ پیراگراف اس جاص سیاق کی وضاحت کر رہا تھا۔)
4۔ زبانوں اور ان کے بولنے والوں کا احترام اور plurastically ان کی قبولیت انسانی اجتماعیت کا ہی احترام و اعتقاد ہے۔
5۔ جو کسی خاص زبان کو ہی عالم گیریت اور لطیف بیانی کی تمام جہتوں کا جامع و مانع جانے، اس سے بڑا کھوکھلا، شاید ہو کوئی اور لگتا ہو۔”
اب یہ دو اقتباس لگا دیے۔ ان کی close reading بہت سے معاملات پر مؤقف دینے کی ساتھ ساتھ کچھ معاملات پر سوال بھی اٹھا رہے ہوں گے۔ بات آئی، بات یاد داشت میں گئی، اور اس کے بعد بات آئی گئی ہوئی۔ لیکن شعور کچھ نہیں ہو گا، پر سمندر ضرور ہے۔ مختلف صورتوں میں باتیں، روَیّے اپنے اندر سمیٹ کر اوپر عارضی گرد ڈال کے آگے کی جانب زندگی کی روانی کا مژدہ سنا بھیجتا ہے۔
اب اگلے دن آئے۔ اس دن 21 فروری 2020 ہے۔ پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس، PNCA، اسلام آباد میں انڈس کلچرل فورم کے زیرِ اہتمام پاکستان کی مادری زبانوں کے میلے کا دن آن پہنچا ہے۔ بہت سارے اور دوست بھی آئے ہیں۔ خالد فتح محمد صاحب کے آنے کی بھی اطلاع موصول ہو گئی ہے۔ جمعے کی شام کو راشد سلیم صاحب اور راقم میلوڈی مارکیٹ، اسلام آباد میں مادری زبانوں کے میلے کے منتظمین کے زیرِ اہتمام ایک ہوٹل میں مقیم، خالد فتح محمد جن کے ہم راہ نجم الدین احمد اور سلیم شہزاد صاحبان بھی موجود ہیں، ملنے جاتے ہیں۔ باہر میلوڈی فوڈ سٹریٹ کے اندر ایک دیسی ہوٹل پر چائے کے لیے بیٹھتے ہیں۔
چائے کا پہلا دور شروع ہوتا ہے۔ جلد ہی بات خالد فتح محمد کے ناول، زینہ، پر شروع ہو جاتی ہے۔ نجم الدین احمد نے خالد فتح محمد کی سب کتابیں پڑھی ہوئی ہیں۔ راقم چار پڑھ چکا ہے۔ زینہ، یہ سطریں لکھنے کے وقت تین چوتھائی حصہ پڑھ چکا تھا۔ اس کتاب کے موضوعات، مشمولات اور لوکیل پر ان کی باقی کتابوں کی یاد داشت کے ساتھ مربوط کر کے بات شروع ہو جاتی ہے۔ وسطی پنجاب کے شہر گوجراں والہ کے اندر رہ کر شستہ انداز میں مزاحمتی باتیں کرنے والے ناول نگار کے انداز، معتبر معلومات اور واضح انداز سے بات کرنے کو نشان زَد کیا جا رہا ہے۔
زینہ کے کردار ظفر علی بھٹی کے مسیحی عورت سے بے شادی کے تعلق اور اس کے گاؤں میں مسیحی عورتوں کو جنسی شے کے طور پر شاملات سمجھنے کے روَیّے اور روانی پر بات ہوتی ہے۔ اندھے گہرے تزویراتی کنووں میں پنجاب کے جوانوں کے جھونکے جانے پر بات ہوتی ہے، قرب و جوار کی دو مسجدوں جن میں سے ایک کو برادر اسلامی ملک سعودی عرب سے چندہ ملتا ہے، اور دوسری کو دوسرے برادر اسلامی ملک قطر سے تعاون ملتا ہے۔ مقامی اخبار کے مالک خان زادہ کی انتہائی اجارہ داد محب وطن اداروں کے مقامی ذمے داروں کے ساتھ اپنے اخبار کو قومی اخبارات جتنا پذیرائی یافت اور گھٹیا ہونے کے سلسلے میں Faustian bargain کی باتیں ہوتی ہیں۔
منیر فیاض بھی چائے کے پہلے دور کے بعد زیادہ تر پَتّی والی کے چائے کے دوسرے دور پر آ جاتے ہیں۔ باتیں ہوتی آتی جانے کہاں پہنچتی ہیں۔ منیر فیاض اگلے روز یعنی ہفتہ 22 فروری کو مادری زبانوں کے ناولوں پر ہونے والے پروگرام کے فارمیٹ کے عجب عضب ہونے پر بات کرتے ہیں۔ اسی دوران سلیم شہزاد صاحب سے ان کی شاعری پر بات ہوتی رہی ہے، ان کے ملکی سماجیاتی تبدیلیوں پر قابلِ قدر رائے کو سننے کا موقع نصیب ہوتا رہا ہے۔ بیٹھے بیٹھے دو گھنٹے ہو چکے تھے، گو کہ ایسا لگا صرف گھڑی دیکھ کر ہی، ویسے محسوس نہیں ہوا تھا۔ قبلہ سلیم شہزاد راقم کو اپنے سرائیکی ناول پلُوتا کا اردو ترجمہ دینا چاہ رہے ہیں۔ کہتا ہوں، سرائیکی کتاب کیوں نہیں۔ تحیر، خوشی اور قہقہے ایک harmony میں باہم ملتے ہیں اور مجھ وسطی پنجاب کے پنجابی کو سرائیکی ناول کی کتاب حاصل کرنا اچھا لگتا ہے۔
آج ہفتہ تھا۔ مادری زبانوں کے میلے کا دوسرا دن۔ جس پروگرام میں جانا تھا وہ 10:30 بجے PNCA کے کانفرنس ہال میں منعقد ہونا تھا۔ مادری زبانوں کے اردو ناولون پر بات ہونا تھی۔ مقام و محل کی کرسیاں بھر چکی تھیں، پروگرام کے میز بان میلان کنڈیرا کے Art of Novel کے مترجم، اور ناول، گمان، کے مصنف ارشد وحید مائیک سنبھالے پہنچ چکے تھے۔ وقت گو کہ مقررہ وقت سے اوپر جا چکا تھا لیکن سب شُرَکاء گفتگو ابھی تک نہیں پہنچے تھے۔ بَہ ہر حال، پروگرام شروع کروا دیا گیا۔
سب سے پہلے سندھی ناول رنگ گرھن مصنف ضراب حیدر کو دعوتِ اظہار ملی۔ انہوں نے تعارف کراتے ہوئے کہا کہ اس ناول میں روحانیت کو موضوع بنایا گیا ہے۔ صاحبِ کتاب کا کہنا تھا کہ سندھ میں روحانیت کی روایت بہت مضبوط رہی ہے، اور روحانیت بہت سارے موجودہ مسائل کا شافی حل ہے۔ ظالم یاد داشت نے راقم کو بھی وفاقی دارالحکومت کے اندر ظہور پذیر وزیرِ اعظم کے مُنھ سے فرمائی یہی بات یاد آئی تو ریڑھ کی ہڈی میں گودا جمنے لگا تھا۔ پروگرام کے میز بان کی اجازت سے اپنی زندگی کی سلامتی کے لیے اور ریڑھ کی ہڈی کو نقطۂِ انجماد سے نیچے رکھنے کے اپنے سوال کی حِدّت دینے کی کوشش کی۔ سوال یہی تھا کہ اس کتاب میں کوئی ایک آدھ کردار زمین پر پاؤں رکھ کر زمینی زندگی بھی جینا اور اس کے چیلنج بھی جھیلنے والا بھی ہے کہ دنیا چھوڑ جانے کا ہی درس ملتا ہے۔ جواب نہیں ملا تھا، لیکن ریڑھ کی ہڈی میں زندگی کی روانی بَہ حال رہ گئی تھی۔
ان کے بعد براہوی زبان کے ناول نگار اکرم ساجد نے اپنے ناول، تو بے نا سفر کا پلاٹ واضح کیا تو تازہ ہوا کا جھونکا سا محسوس ہوا۔ ان کا ناول چاند پر سیر کے لیے جانے والوں کو موضوع بناتا ہے۔ ارشد وحید صاحب نے ان سے اپنے پسندیدہ لکھاری اور اثرات کی بابت سوال کیا تو اکرم ساجد نے نسیم حجازی کا نام لے لیا۔ اس پر حاضرینِ محفل نے کسی anticlimax کے زیرِ اثر اچانک سے قہقہہ لگایا۔ خیر بات آگے چلی۔ کسی نے سوال پوچھا کہ چاند پر گئے لوگوں کے بارے میں آپ نے کیسے لکھ لیا۔ اکرم ساجد کا جواب بہت واضح تھا کہ تخیل سے۔ راقم نے بھی زیرِ لب کہا کہ جیسے لوگ ماضی کے متعلق لکھتے ہیں، ویسے ہی کسی آنے والے وقت کے متعلق لکھتے ہیں۔ یاد داشت سے، تخیل سے اور ان سب سیالات کے علاوہ تاریخ نام کے طربیے کی مدد سے؛ بَہ ہر حال تاریخ سے تو باقی سارے ذرائع اور منابع زیادہ ہی معتبر ہی ہوتے ہیں، کم از کم وہ یہ تو باور کرتے ہیں ناں کہ this is all tales.
ڈیجیٹل سپیس جہاں پر یہ تحریر شائع ہونی ہے وہاں کے تقاضوں مطابق تحریر لمبی ہوتی جا رہی ہے، اس لیے باقی تفصیلات کو کچھ کم کرتا ہوں۔ سندھی زبان کے ایک اور ناول نگار ابراہیم کھرل بھی تھے جن کے ناول، رشتن جی خانہ بدوشی سے مجھے اس لیے زیادہ رغبت نہیں ہوئی کہ وہ وقت کے ساتھ آنے والی سماجی اور ابلاغی تبدیلیوں کے کئی بار برت شدے nostalgia کی approach کے اندر ہی گھومتا تھا۔ پشتو کے ادیب پرویز شیخ کی اپنی کتاب، تلاش کے تعارف کو بہت طوالت دینے نے پروگرام کے وقت کی تقسیم کو کافی عدم توازن کا شکار کر دیا۔ وہ صاحب کوئی اٹھارہ کتابوں کے مصنف تھے، اور ان کی متعارف کردہ کتاب کی کہانی کافی مختلف اور دل چسپ لگتی تھی۔ ان سے پشاور سے آئے دو پروفیسر صاحبان نے سوال بھی کیے جس کے ان ناول نگار نے بہت اچھی حسِّ مزاح سے جواب دیے۔
اب تک پروگرام کے لیے مقرر کردہ وقت ختم ہو چکا تھا اور تین لکھاری ابھی باقی تھے۔ پنجابی زبان کے ناول، پہلی نیندر مگروں کے خالق شاہد شیدائی، اردو میں لکھے ناول می سوزم کی لکھاری ڈاکٹر حمیرا اشفاق، اور اس پروگرام میں اپنے زینہ ناول پر بات کرنے کے لیے خالد فتح محمد۔
ڈاکٹر حمیرا اشفاق سات شُرَکاء میں سے اکیلی خاتون مصنفہ تھیں۔ اس تعداد اور تعدد کا محض ذکر ہی کافی ہے۔ ناول کی بات ہو اور کسی لکھاری کے نام کے ساتھ ڈاکٹر ہو تو کچھ عادت کی سماعت نہیں لگتی۔ لیکن یہاں عادت اور عدم عادت کا امتزاج تھا۔ ڈاکٹر حمیرا اشفاق نے می سوزم کو تاریخی سوانحی ناول کے فریم ورک میں چوتھی صدی ہجری کے وقت کی setting میں ترتیب دیا ہوا ہے۔ مرکزی کردار اقتدار یافتہ خاندان کی خاتون کو مسندِ اقتدار کے لیے نفسیاتی عدم تحفظ کے شکار بھائی کے ہاتھوں قید و بند میں رہنے کو مرکز بنایا گیا۔
می سوزم کے مرکزی کردار جن کا نام مجھے یاد کرنے کی کوشش کے با وُجود یاد نہیں آ رہا شاعر ہیں اور روحانی مزاج رکھتی ہیں۔ یہ خاتون شاعر بہت سارے مرد شُعَراء کے لیے بعد میں مستعمل زمینوں کو اول ہم وار کر چکنے اور با اثر ہونے کی بَہ قول اور بَہ ذریعہ، ڈاکٹر حمیرا اشفاق تحقیقی سند پا چکی ہیں۔ اس ناول کا ابتدائی خیال اس ناول کی مرکزی کردار پر بلوچستان میں ہونے والی کانفرنس سے لیا گیا تھا۔ ڈاکٹر صاحبہ نے اپنی تعارفی گفتگو میں جب اپنے ناول کے مرکزی کردار کی روحانیت پر روشنی ڈالی تو اس کے آخر میں میری جانب سے ضراب حیدر کے سندھی ناول رنگ گرھن کے لیے در یافت سوال کو روحانیت کی تحدید جانا تھا اور واضح کرنا مناسب جانا کہ مرکزی کردار روحانیت آموز تو ضرور تھیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ non-political بھی تھیں۔ عین جس وقت ڈاکٹر حمیرا nonpolitical کا اسمِ صفت بول رہی تھیں تو راقم زیرِ لب apolitical کہہ رہا تھا۔
جیسا کہ اوپری سطروں میں عرض کیا کہ تین لکھاری باقی تھے اور اضافی وقت کی درخواست پر پروگرام چل رہا تھا۔ اب پنجابی ناول پہلی نیندر مگرون کے لکھاری شاہد شیدائی کی باری آئی۔ انہوں نے انتہائی مختصراً اشوکا کے دور کے ایک پنجابی مزاحمتی کردار کے متعلق لکھے ناول کا تعارف دیا۔ سوالات کی باری آئی۔ پنجابی شاعر نورالعین سعدیہ جنہوں نے پروگرام کے اختتام پر اپنی پنجابی شاعری کی کتاب مشک بھی راقم کی نَذر کی ( کَم وچ بہت بہت برکت ہووے جے، شکریہ)۔ نورالعین سعدیہ نے شاہد شیدائی سے پنجابی میں سوال کر دیا۔ اس پر دو ایک حاضرینِ محفل کی طرف سے آواز آئی کہ پنجابی نہیں، اردو میں بات کیجیے۔ میز بان جناب ارشد وحید نے انتہائی مناسب انداز سے مداخلت کرتے ہوئے کہا، گو کہ ہروگرام کے ضوابط میں اردو زبان میں کلام کرنے کا کہا گیا ہے، لیکن کسی مقامی زبان میں سوال کے حق کو زبر دستی روکنا بھی مناسب نہیں سمجھتے۔ وہ اعتراض پر بات کا ترجمہ کر دیں گے۔ نورالعین سعدیہ کی پنجابی زیادہ پیچیدہ نہیں تھی۔ میز بان کو بھی ترجمہ کرنا یاد نہیں رہا۔ شاہد شیدائی صاحب نے بھی سوال کرنے والے کی زبان اور اپنے ناول کی زبان پنجابی میں ہی جواب دے دیا۔ اس پر راقم کی نشست کے پیچھے بیٹھے کچھ صاحبان نے گریٹر پنجاب کی ترکیب استعمال کر کے اپنے احتجاج کو context میں ڈالنے کی کوشش کی۔
اس پر راقم کو ایک بار پھر کافی زیادہ اعتراض تھا۔ مجھے بھی شاہد شیدائی صاحب سے سوال کرنا تھا جس کا آغاز میں نے پنجابی سے ہی کیا، اور واضح کیا کہ پنجابی کے مراعات یافتہ طبقے کو جرنیلی اور بیوروکریٹی کی چند نشستوں نے پنجابی زبان و ثقافت کا کباڑا کر دیا ہے، اور اگر کہیں سے کوئی آواز سننے کو مل جاتی یے تو گریٹر پنجاب کی اصطلاحات بولنے میں تھوڑا حوصلہ اور جگرا بڑا رکھنا چاہیے۔ پنجابی زبان و ثقافت حاشیے پر ہی ہے، جس طرح پاکستان کے دور دراز علاقے وسائل و مسائل کے حل میں حاشیے پر ہیں۔ لہٰذا ہم احساسی کی برت اشد ضروری ہے۔
گو کہ پروگرام کے آخر میں زینہ ناول کے لکھاری خالد فتح محمد کے ناولوں کے locale اور بَہ قول ان کے ان کی زبان پاکستانی اردو نے بھی ہے بہت پُر لطف مگر مختصر گفتگو کا آغاز کیا، لیکن نورالعین سعدیہ کے پنجابی میں سوال کرنے اور شاہد شیدائی صاحب کے پنجابی میں جواب دینے، خالد فتح محمد کے اپنے ناولوں کی زبان کو پاکستانی اردو کہنے، اور گریٹر پنجاب کی گونج آتی جا رہی ہے۔
آخر میں صرف اتنا ہی کہوں گا:
سوہنیو، پیاریو، بھاگاں آلیو، تُسی کرو تے کلچر، جے اسی کَدھے پنجابی چا بولیے تے گریٹر پنجاب، اِنج نا کرو دل دے ٹوٹیو …