کیا مادری زبانوں سے دُوری ہمیں بے رحم بناتی ہے؟
جو لوگ اپنی مادری اور ملکی زبانوں کو چھوڑ کر غیرملکی زبانوں کا زیادہ استعمال کرتے ہیں وہ سخت فیصلے کرنے کے معاملے میں دوسروں کی نسبت زیادہ غیر جذباتی اور بے رحم ہوتے ہیں۔ یہ اس تحقیق کا خلاصہ ہے جو کچھ روز پہلے تحقیقی مجلے ’’سائیکالوجیکل سائنس‘‘ میں شائع ہوئی ہے۔
امریکی، ہسپانوی اور جرمن سائنسدانوں کی اس مشترکہ تحقیق میں رضاکاروں کے چھ مختلف گروپوں پر نفسیاتی تجربات کیے گئے جنہیں مقامی (مادری) اور غیر مقامی (غیر ملکی) زبانوں کے استعمال کی بنیاد پر تقسیم کیا گیا تھا۔
تجربات کے دوران ایک فرضی کیفیت ان کے سامنے پیش کی گئی جس میں انہیں اپنے پانچ دوستوں کو بچانے کےلیے قریب کھڑے ہوئے ایک مقامی شخص کو تیز رفتار ٹرین کے سامنے دھکیلنے یا نہ دھکیلنے کا فیصلہ کرنا تھا۔
غیرملکی زبانوں کا زیادہ استعمال کرنے والے رضاکاروں کی بڑی تعداد نے کہا کہ ایسی صورت میں وہ اپنے پاس کھڑے ہوئے اجنبی مقامی شخص کو ٹرین کے سامنے دھکیلنے میں کچھ خاص ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے۔ ان کے مقابلے میں وہ لوگ جو اپنی مادری (مقامی) زبان زیادہ استعمال کرتے تھے، انہوں نے شدید پریشانی کا اظہار کیا جبکہ ان میں سے بہت کم رضاکار اس پر آمادہ ہوئے کہ وہ اپنے دوستوں کی جان بچانے کےلیے ایک اجنبی کی جان داؤ پر لگا دیں۔
بظاہر ایک اجنبی کو ٹرین کے سامنے دھکیل کر پانچ دوستوں کی جان بچانے کے اس عمل سے یوں لگتا ہے جیسے بڑے مفاد کی خاطر قربانی دی گئی ہو لیکن مطالعے کے دوران غیر ملکی زبانوں کے شیدائی افراد سے کئے گئے سوال و جواب سے ماہرین کو ایسا کوئی تاثر نہیں ملا۔
اس کے برعکس، عقدہ یہ کھلا کہ غیر ملکی زبانیں استعمال کرنے کے عادی لوگوں کو مقامی فرد کے زندہ رہنے یا مرجانے کی کوئی پروا نہیں تھی؛ انہیں تو صرف اس بات سے سروکار تھا کہ وہ پانچ افراد زندہ رہیں جنہیں وہ بچانا چاہتے ہیں۔
اس سوچ کی وجہ بیان کرتے ہوئے ماہرین کا کہنا ہے کہ انسان جس زبان کو سنتے اور بولتے ہوئے ہوش سنبھالتا ہے، وہی دراصل اس کی مادری زبان ہوتی ہے کیونکہ یہ اس کےلیے صرف معلومات اور خیالات کے تبادلے کا ذریعہ نہیں ہوتی بلکہ اس کے جذبات و احساسات بھی اسی زبان میں جنم لیتے ہیں۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سیکھی جانے والی کوئی دوسری زبان اس کےلیے صرف حصولِ معلومات اور تبادلہ خیال کا ذریعہ رہتی ہے لیکن عموماً کسی جذباتی تعلق کی وجہ نہیں بن پاتی۔
غیر مادری یا غیر ملکی زبان کو اپنی مادری زبان پر ترجیح دینے کے نتیجے میں انسان پر جذبات و احساسات سے عاری کیفیت طاری ہوجاتی ہے جس کے باعث وہ اپنے ہی ملک، اپنے ہی شہر اور اپنے ہی محلے میں رہنے والوں سے لاتعلق ہوجاتا ہے؛ اسے ان کی خوشی غمی اور جینے مرنے کی کوئی فکر نہیں رہتی۔
یہی وجہ ہے کہ آزمائش کی گھڑی میں ایسا انسان غیر جذباتی ہو کر صرف اپنے اور اپنے عزیز دوستوں کے مفاد میں فیصلہ کرتا ہے، چاہے اس کے نتیجے میں مقامی لوگوں کی بڑی تعداد شدید طور پر متاثر ہی کیوں نہ ہوجائے۔
یاد رہے کہ یہ لوگ مقامی ہی ہوتے ہیں لیکن غیر ملکی زبان کی محبت لاشعوری طور پر انہیں اپنے ہم وطنوں سے بیگانہ کردیتی ہے جس کا اظہار مشکل حالات میں ان کے فیصلوں سے ہوتا ہے۔ بعض مرتبہ وہ اپنی دانست میں ایسے ’’درست فیصلے‘‘ بھی کر جاتے ہیں جو مذہبی، تہذیبی، تمدنی اور اخلاقی اقدار کے منافی ہوتے ہیں لیکن پھر بھی یہ فیصلے انہیں برے نہیں لگتے۔
مشکل حالات کے تحت انسانی نفسیات پر کی گئی اس تحقیق سے ہمیں یہ سمجھنے میں بھی مدد مل سکتی ہے کہ آخر پاکستان سمیت دیگر ترقی پذیر ممالک میں انگریزی زدہ ماحول کے پروردہ سیاست دان، اعلٰی سرکاری افسران اور طبقہ اشرافیہ (ایلیٹ کلاس) کے نمائندگان صرف ایسی ہی پالیسیاں کیوں بناتے ہیں جن سے انہیں یا ان کے طبقے ہی کو فائدہ ہو جبکہ ملک اور اس میں رہنے والوں کی انہیں رتّی بھر پروا نہیں ہوتی۔
بشکریہ: ایکسپریس اردو