فلم بازار کا احوال
از، حسین جاوید افروز
فلم ’’بازار‘‘ کا ذکر آتے ہی ہم 1982 میں رہلیز ہوئی آرٹ فلم میں کھو جاتے ہیں جس میں نصیر الدین شاہ اور سمیتا پاٹل نے اپنے جان دار کرداروں سے فلم بینوں کو مہبوت کر دیا تھا۔ لیکن ذرا رکیے اب ہم 2018 میں ہیں اور اس برس ریلیز ہوئی ’’بازار‘‘ 1982 کی بازار سے یک سر مختلف ہے۔
جی ہاں سٹاک مارکیٹ کے دھندے، اس میں آتے ہر پل اتار چڑھاؤ اور اس شیئر بازار کے مایا جال میں الجھے سرمایہ دار، سیاست دان، صنعت کاروں کا زیادہ طاقت اور زیادہ پیسے کے لیے اندھا دھند کوششیں کرنا یہی سب کچھ اس فلم میں دکھایا گیا ہے۔
گورو چاولہ کی ہدایت کاری تلے بننے والی فلم نے اپنے زور دار اسکرپٹ اور دم دار اسکرین پلے سے فلم بینوں کو روایتی فلموں سے ہٹ کر واقعی ایک الگ راہ پر گامزن کر دیا ہے۔ لہٰذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ فلم واقعی روایتی ڈَگر سے کچھ ہٹ کر ہے اور اس میں آپ کے لیے تفریح سے تھرِل تک سارے لوازم بدرجہ اتم موجود ہیں۔ آئیے’’بازار‘‘ کا احوال جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
فلم کی کہانی الہٰ آباد میں بسے ایک مڈل کلاس گھرانے سے تعلق رکھنے والے لڑکے رضوان سے شروع ہوتی ہے جو کہ مارکیٹنگ کی نوکری کرتے کرتے تھک جاتا ہے اور اسے محسوس ہوتا ہے اس کے لیے منزل الہٰ آباد کے بجائے ممبئی جیسے مایا نگری میں کہیں چھپی ہوئی ہے اور وہ اپنے والد کی محض عزت سے زندگی گزارنے والے فلسفے سے سخت عاجز آ چکا ہوتا ہے۔
یوں وہ ممبئی کی ٹرین پکڑ کر اپنے خوابوں کی تکمیل کے لیے ایک نئے جہاں میں قدم رکھتا ہے۔ جہاں اس کا آئیڈیل معروف، شاطر بزنس مین شکون کوٹھاری موجود ہے جس کو بے تحاشا پیسے، بے انتہا طاقت رکھنے کا آرٹ آتا ہے۔ جو ریاست گجرات کے شہر سورت سے ممبئی آ کر سٹاک مارکیٹ کے اتار چڑھاؤ میں، شدید محنت، جعل سازی، اپنے بے پناہ پیسے، اور سیاسی تعلقات کی بدولت اہم کھلاڑی بن کر ابھرتا ہے۔
رضوان یہی عزم لے کر ممبئی پہنچتا ہے اور سٹاک مارکیٹ میں بروکر بننے کی جد و جہد شروع کرتا ہے تا کہ کسی طرح وہ اس مقام کو استعمال کرتے ہوئے اپنے آئیڈیل شکون کوٹھاری کا قرب حاصل کر لے۔ کیا رضوان سٹاک مارکیٹ میں ایک بروکر کے طور پر خود کو منوانے میں کامیاب ہو جاتا ہے، کیا وہ اپنے ان داتا شکون کوٹھاری کا دایاں بازو بننے میں کامیاب ہو جاتا ہے، کیا زمین سے عرش تک پہنچنے کے بعد رضوان اپنے تمام خوابوں کی تعبیر پا لیتا ہے، یہ سب کچھ ہمیں بازار کی دنیا میں داخلے کے بعد ہی پتہ چلے گا۔
فلم کی خوبیوں کی بات کی جائے تو اس فلم میں اگر چہ سٹاک مارکیٹ کے طور طریقوں اور اس میں موجود ہیرا پھیری کے گنجلک معاملات کو موضوع بنایا گیا ہے مگر ایک عام ناظر بھی جو اس دھندے کی باریکیوں سے واقف نہیں، اس کو بھی معاملات کو سمجھنے میں کچھ وقت نہیں لگتا کیوں کہ سب کچھ اتنی نفاست سے فلمایا گیا ہے کہ آپ بھی خود کو ایک سٹاک بروکر ہی سمجھنے لگتے ہیں۔
متعلقہ: 102 ناٹ آؤٹ،ایک منفرد کاوش تبصرۂِ فلم از، حسین جاوید افروز
فلم کا بیک گراؤنڈ میوزک بھی شکون کوٹھاری کی دبدبے والی شخصیت کے ساتھ سننے میں اچھا لگتا ہے۔ فلم کا کلائمکس بھی آپ کو اپنی سیٹ سے باندھے رکھتا ہے اور فلم میں رفتار کے زاویے بھی خاصی مہارت سے ترتیب دیے گئے ہیں۔
اب اگر اس فلم کی خامیوں پر چرچا کی جائے تو پہلی خامی کہ فلم میں رومانویت کے عُنصر کو محدود کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ یہ فلم ایک خالصتاً کار و باری اور ساز باز کے ماحول میں چلتی ہے اس لیے روایتی رومانس تھوڑا غیر حقیقی لگتا ہے۔ دوسری خامی اس فلم میں جس طرح رضوان احمد بار بار خود کلامی سے فلم میں رُو نما ہوتے واقعات پر تبصرہ شروع کر دیتا ہے وہ بھی کہیں کہیں قطعاً غیر ضروری محسوس ہوتا ہے۔ ا
فلم کی سب سے بڑی خامی کہ کہیں نہ کہیں فلم میں رضوان احمد کو ایک تفتیشی معاملے کے حوالے سے پولیس سے بھی تیز تر دکھایا گیا ہے جو کہ ہمیں فلم کے منفرد ٹریک سے دور لے جاتا ہے۔ اب بات ہو جائے فن کاروں کی کار کردگی کی تو فلم کا مرکزی کردار نبھانے والے روہن مہرہ اگر چہ فلمی صنعت میں ایک اچھا اضافہ قرار دیے جا سکتے ہیں مگر یہ بات بھی درست ہے کہ شکون کوٹھاری جیسے گھاگ کیریکٹر کے سامنے کسی منجھے ہوئے ادا کار کی کمی شدت سے محسوس کی گئی اور یہی وجہ ہے کہ روہن مہرہ اپنا رنگ جمانے اور شکون کوٹھاری کو ٹکر دینے میں نا کام رہے۔
یوں جب فلم کا مرکزی کردارہی کمزور وکٹ پر کھڑا ہو تو فلم کے مثبت پہلو بھی کمزور پڑ جاتے ہیں۔ جب کہ ایک ہوشیار سٹاک بروکر کے کردار میں رادیکا آپٹے نے بھرپور توانائی کے ساتھ جان دار پرفارمنس کا مظاہرہ کیا بَل کہ یوں کہنا چاہیے کہ فلم میں وہ دل کشی میں بھی فلم بینوں کو متاثر کرنے میں کامیاب رہیں۔
رادیکا کی یہی خوبی ہے کہ جو رول ان کو دیا جائے وہ اسے مہارت سے پردہ سکرین پر اتارنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ جب کہ شکون کوٹھاری کی بیوی کے کردار میں چترا نگدا نے اگر چہ مکالمے کم ہی ادا کیے مگر اپنی آنکھوں اور چہرے کے تاثرات سے وہ فلم میں اپنی موجودگی کا احساس دلانے میں کامیاب رہیں۔ خصوصاً جذبات اور حساب کتاب کے درمیان ہونے والی کش مکش میں انہوں نے شکون کوٹھاری کے سامنے جم کر اپنی اہمیت واضح کی۔ اب بات ہو جائے فلم کا میلہ لوٹ کر لے جانے والے شکون کوٹھاری کی جنہوں نے اپنے بالوں میں سر مئی شیڈ لاتے ہوئے ایک شاطر، موقع پرست اور کائیاں بزنس مین کے کردار میں ایک یاد گار کردار ادا کیا۔
سیف علی خان نے میرے خیال میں اوم کارا کے لنگڑا تیاگی کے منفی کردار کے بعد اب شکون کوٹھاری کے کیریکٹر میں اپنے آپ کو ورسٹائل ایکٹر ثابت کر دیا ہے۔ مجھے اس بات کا بھی افسوس ہے کہ سیف نے لنگڑا تیاگی سے شکون تک کا سفر بارہ سالوں میں کیوں طے کیا، اس سال sacred games سیزن کے بعد سیف دو بارہ اپنے جوبن پر دکھائی دیے اور مجھے کہنے دیں کہ ابھی سیف نے بھاگنا شروع کیا ہے امید ہے کہ وہ آگے بھی ہمیں اپنی اثر انگیز کردار نگار ی کی بدولت حیران کرتے رہیں گے۔
شکون کوٹھاری کے کیریکٹر میں سیف نے ایسے شخص کا رول بہ خوبی نبھایا جو کہ مادیت پرستی سے بھرا ہوا ہے اور جب فلم میں کہیں کہیں وہ گجراتی زبان کا تڑکا لگاتے ہیں تو جیسے پیسے ہی وصول ہو جاتے ہیں۔ فلم میں سیف کے ادا کیے گئے مکالمے فلم بینوں کو گرما دیتے ہیں۔ جیسے ’’میراتھن دوڑنے والوں کو یاد کوئی نہیں رکھتا، جیتنے والے کو یاد رکھا جاتا ہے۔’’ پیسہ بھگوان نہیں مگر بھگوان سے کم نہیں۔‘‘ پیسہ اس کا جو دھندا جانتا ہو اور میں دھندے کا گندا چھوکرا ہوں۔ ’’میرے دو ہی اصول ہیں کبھی بھی میرا پیسہ ڈوبنا نہیں چاہیے اور دوسرا اصول کہ کبھی بھی پہلا اصول نہ بھولو‘‘۔
اس فلم کو بلا شبہ سیف علی کی شان دار ایکٹنگ کی بدولت یاد رکھا جائے گا۔ خود چھوٹے نواب بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ پچیس برس بولی وڈ میں بیتانے کے بعد اب ان کو ادا کاری کے رموز سے درست معنوں میں آشنائی ہو رہی ہے۔
مجموعی طور پر یہ کہانی اس حقیقت کے گرد گھومتی دکھائی دیتی ہے کہ دولت، انسانی جذبات کا ہر گز نعم البدل نہیں ہو سکتی۔ تاہم جو فلم بین 1987 کی مائیکل ڈگلس کی شہرہ آفاق فلم wolf of wall street دیکھ چکے ہیں انہیں کہیں کہیں بازار میں اس فلم کا عکس بھی نظر آئے گا مگر جس طرح سے اس فلم کو ہندوستانیت کے ماحول میں تراش کر فلمایا گیا ہے اس سے یہ فلم اپنی منفرد حیثیت بھی قائم رکھنے میں کامیاب رہی ہے۔ میں اس فلم کو 3/5 ریٹ کروں گا۔