ننھے سے چراغ کو چراغاں کرنے والے مسٹر بُکس کے یوسف بھائی
ڈاکٹر شاہد صدیقی
مسٹربُکس، اسلام آباد میں کتابوں کی ایک ایسی دکان جہاں کتابوں سے محبت کرنے والوں کوکتابوں کے ہمراہ یوسف بھائی کی دلدار مسکراہٹ بھی میسر تھی۔ یوسف بھائی اور مسٹر بُکس ہمزاد تھے جو ایک دوسرے کے لیے جیتے اور ایک دوسرے پر مرتے تھے۔ یوسف بھائی کے لیے مسٹر بکس ایک ایسی تصویر تھی جس کے نین نقش وہ تمام عمر سنوارتے رہے۔ دونوں نے جیسے اکٹھے جینے مرنے کی قسم کھائی تھی لیکن وہ جوعبیداللہ علیم نے کہاہے:
محبتوں میں عجب ہے دلوں کو دھڑکا سا!
کہ جانے کون کہاں راستہ بدل جائے
ایک دن بیٹھے بٹھائے نجانے یوسف بھائی کے دل میں کیا آیا کہ انہوں نے اپنا راستہ بدل لیا۔ مسٹربکس، دنیا اور ہم سے مُنھ موڑ لیا۔
یوسف بھائی کا سفرِ زندگی تمام ہوا، یہ سفر خواہشوں، خوابوں، امیدوں، وسوسوں، جد و جہد اور کامیابیوں کا سفر تھا۔ اس طویل سفر کی دھوپ چھاؤں کے کچھ منظر میرے دل کے آئینے میں ابھی تک روشن ہیں۔ اس سفر کی ابتداء کب کیسے اورکہاں سے ہوئی یہ جاننے کے لیے ہمیں وقت کی طنابوں کوسمیٹنا ہوگا۔
یوسف بھائی کے والد یعقوب صاحب فوج میں تھے۔ ان کی تبدیلی ایبٹ آباد ہوئی اور وہیں ان کی ریٹائرمنٹ ہوئی۔ ایبٹ آباد کے شہرِ خوش رنگ نے ان کو اپنا اسیربنا لیا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے وہیں رہنے کافیصلہ کرلیا۔
یعقوب صاحب کومعلوم تھا ریٹائرمنٹ کے بعد وہ فارغ نہیں بیٹھ سکتے۔ چھ بیٹوں اور پانچ بیٹیوں پرمشتمل ایک بڑے کنبے کی پرورش کے لیے انہیں کچھ کرنا ہوگا۔ بہت سے خواب ان کی آنکھوں میں جاگے ہوں گے۔ ان ہی خوابوں میں ایک خواب کتابوں کی دکان کھولنے کاتھا۔
یہ 1950 کے لگ بھگ کا ذکر ہے۔ یعقوب صاحب نے محدود وسائل کے ساتھ ایبٹ آباد میں ورائٹی بک سٹال کا آغاز کیا۔ اس وقت ان کے حاشیہِ خیال میں بھی نہیں ہوگا کہ اس چراغ سے اور کتنے چراغ جلیں گے۔ اس دکان میں یعقوب صاحب کے بیٹوں ایوب اور یونس نے بھی ان کا ہاتھ بٹانا شروع کردیا۔ اب اس دکان کو قائم ہوئے دس برس ہوچکے تھے۔ ایوب اور یونس کاروبارکی نزاکتوں کو سمجھنے لگے تھے۔ وقت آگیا تھا کہ وہ کارزارِ حیات میں اپنا راستہ خود بنائیں۔
یعقوب صاحب کو اپنے بیٹوں کوالوداع کہنا تھا ان کے جذبات مِلے جُلے تھے۔ خوشی اس بات کی تھی کہ دونوں بیٹے اس قابل ہوگئے تھے کہ اپنے کاروبار کا آغاز کرنے جارہے تھے لیکن دل کے کسی گوشے میں ان سے جدا ہونے کا درد بھی تھا۔
چکور خوش ہیں کہ بچوں کو آ گیا اُڑنا
اُداس بھی ہیں کہ رُت آ گئی جدائی کی
ایوب اوریونس کو اپنے والد صاحب کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ تھا۔ اعتماد کے اسی سرمائے کے ساتھ انہوں نے 1960 میں راولپنڈی کے بینک روڈ پرکتابوں کی نئی دکان ورائٹی بک سٹال کا آغاز کیا۔ بعدمیں یعقوب صاحب کے دواوربیٹے ادریس اوریوسف بھی اس دکان پراپنے بھائیوں کا ہاتھ بٹانے لگے۔
1970 میں ایوب بھائی نے راولپنڈی میں کیپری بک سٹور کے نام سے نئی دکان کاآغاز کیا۔ اسی طرح 1970 کی دھائی کے آخرمیں ادریس بھائی نے بینک روڈ پر سٹوڈنٹس بک کمپنی کی بنیاد رکھی۔ ان دنوں میں گورڈن کالج میں ایم اے انگلش کا طالب علم تھا۔ کالج کے بعد تقریباََ ہر روز سٹوڈنٹس بک کمپنی جاتا اس میں کتابوں کی کشش کے علاوہ ادریس بھائی کی ہنس مکھ شخصیت کا بھی ہاتھ تھا۔
یوسف بھائی ورائٹی بک سٹال کے علاوہ کبھی کبھی سٹوڈنٹس بک کمپنی بھی آجاتے۔ یہیں ان سے ملاقاتوں کاآغاز ہوا۔ یوسف بھائی کو کتابوں کے اسرار و رموز سے آگاہی ہوچکی تھی۔ وقت آگیا تھا کہ یعقوب صاحب کا سب سے چھوٹا اورہونہار بیٹا یوسف چراغوں کے اس سلسلے کو آگے بڑھائے۔
یوسف بھائی نے راولپنڈی سے نکل کر اسلام آباد کا انتخاب کیا۔ 1982 میں مسٹربکس کی بنیاد رکھی گئی۔ مسٹربکس کا نام کچھ ہی عرصے میں اسلام آباد کے ادبی وثقافتی افق پرجگمگانے لگا۔ اس نام کی کہانی بھی دلچسپ ہے۔ یوسف بھائی نے مسٹربُکس نام تو رکھ لیا لیکن کچھ دوستوں نے کہا گرامر کی رُو سے یہ نام ٹھیک نہیں کیونکہ بکس جمع کا صیغہ ہے جبکہ مسٹر واحد کا صیغہ ہے لیکن یوسف بھائی نے مسٹر بکس کا نام چلنے دیا اور پھر یہ نام زبان زدِ خاص و عام ہوگیا۔
1980 کی دہائی میں یعقوب صاحب کے دو اوربیٹوں نے جناح سپرمارکیٹ میں بک فیئرکے نام سے کتابوں کی نئی دکان کھولی۔ ادھر ادریس بھائی نے راولپنڈی کے بینک روڈ پرادریس بک بینک کاآغاز کیا۔ بعد میں رئیس بھائی نے اسلام آباد میں آئی ایٹ میں نیوبک فیئر کے نام سے ایک نئی دکان کی بنیاد ڈالی۔
اسی طرح پی ڈبلیوڈی میں ورائٹی بک سٹال اورادریس بک بینک کی برانچز کھل گئیں۔ یوں یعقوب صاحب کے بیٹوں کی راولپنڈی اور اسلام آباد میں اب کتابوں کی دس دکانیں ہوچکی ہیں۔ 1950 میں ایبٹ آباد کے افق پرچمکنے والا ستارہ اب ستاروں کی کہکشاں بن چکا ہے۔
یوسف بھائی اپنے بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے لیکن قدرت نے ان کے مقدرمیں خاندان کا سب سے درخشندہ ستارہ ہونا لکھا تھا، بہت محنتی اور ملنسار تھے کتابوں اور کتابیں لکھنے والوں سے محبت کرتے تھے۔
جب تک میں اسلام آباد میں تھا یوسف بھائی سے اکثر ملاقات رہتی پھر ملازمت کے سلسلے میں کراچی اورلاہور میں قیام رہا۔ اس دوران کبھی کبھار فون پر بات ہوجاتی ایک بار انہوں نے لاہور فون کیا اپنی بیٹی کی تعلیم کے حوالے سے مشورہ کیا۔ اس دوران دو بڑی تبدیلیاں آئیں۔ ایک تومسٹربکس پرانی عمارت سے نئی عمارت میں منتقل ہوگئی اور دوسرے یوسف بھائی بیماریوں کی زد میں آگئے۔
ایک طویل عرصے کے بعد جب میں اسلام آباد واپس آیا اوریوسف بھائی سے ملاقات ہوئی تودل دھک سے رہ گیا ان کی بینائی خطرناک حد تک متاثرہوچکی تھی۔ پھر بیماری اس حد تک بڑھی کہ ڈاکٹر نے ان کی ٹانگیں کاٹنے کا مشورہ دیا۔ یوسف بھائی نے سب آزمائشوں کا جرات سے سامنا کیا۔
یوسف بھائی سے میر ی آخری ملاقات مسٹربکس میں ان کے آفس میں ہوئی میرے ساتھ میرا چھوٹا بیٹا شعیب تھا، جو کتابوں کا رسیا ہے۔ یوسف بھائی ہمیشہ کی طرح بہت محبت سے ملے، چائے کا دورچلا، کتابوں کی باتیں ہوئی۔ اس دور کی یادوں کوتازہ کیا جب وہ راولپنڈی میں ورائٹی بک سٹال اورسٹوڈنٹس بک کمپنی میں ہوتے تھے۔
معلوم نہیں تھا کہ یوسف بھائی سے یہ میری آخری ملاقات ہوگی۔ جب یوسف بھائی کی ناگہانی موت کی خبر ملی تونصف صدی کاسفر میری آنکھوں کے سامنے آگیا۔ یعقوب بھائی کے چھ بیٹوں میں اب صرف رئیس بھائی باقی رہ گئے ہیں۔ اللہ ان کی عمردراز کرے۔ یوسف بھائی کے رخصت ہونے کے بعد میں مسٹربکس گیا تو دل کی عجیب کیفیت تھی۔
اُن کے آفس میں ان کے بیٹے سعد اور عبداللہ سے یوسف بھائی کی باتیں ہوتی رہیں ان کے ناتواں کندھوں پر اچانک بھاری ذمہ داری آن پڑی تھی۔ میں نے دیکھا ان کی آنکھوں میں وہی چمک اور چہرے پر ویسی ہی مسکراہٹ تھی جو یوسف بھائی سے وابستہ تھی۔ مجھے یقین ہے کہ وہ اپنے قابلِ فخر والد کے مشن کو آگے بڑھائیں گے۔
چھوٹے بیٹے عبداللہ نے بتایا کہ کیسے عید کے دوسرے روز یوسف بھائی نے اچانک نتھیاگلی جانے کا پروگرام بنا لیا، ہم سب منع کرتے رہے لیکن کوئی شے تھی جو انہیں اپنی جانب کھینچ رہی تھی یوسف بھائی ضد کرکے بچوں اوربیگم کے ہمراہ نتھیاگلی کونکل گئے۔
گھر کی دہلیز کے اُس پار موت اُن کا انتظارکررہی تھی۔ انہوں نے گھبراہٹ کی شکایت کی تو بچوں ک ولگا ان کی شوگرکم ہو رہی ہے۔ لیکن یوسف بھائی کو یقین ہوگیا تھا کہ آخری وقت آن پہنچا ہے، انہوں نے کلمہ پڑھا اور اپنے پیاروں کوچھوڑ کر اُس دیس چل ددیے جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔
لیکن مجھے یقین ہے اس دیس میں ان کی ملاقات اپنے والد یعقوب صاحب سے ضرور ہو گی۔ یعقوب صاحب! اب آپ کا انتظارختم ہوتا ہے آپ کا سب سے ہونہار اورسب سے لاڈلا بیٹا آپ سے ملنے آرہا ہے۔ وہ کاروبارِ زندگی کے ہنگاموں سے تھک گیا تھا اور اب چین کی لمبی نیند سونا چاہتا تھا۔ آپ سے ملاقات ہو تو اس کی پیشانی پر بوسہ ضرور دیں کہ اُس نے آپ کے جلائے ہوئے ننھے سے چراغ کی روشنی کو چراغاں میں بدل دیا ہے۔