کلاسک فلمیں مغلِ اعظم

mughal azam movie aikrozan 1739611814305

کلاسک فلمیں مغلِ اعظم

از، سفیان مقصود

سٹار کاسٹ: دلیپ کمار، مدھوبالا، پرتھوی راج کپور

ہدایت کار: کے آصف 

ریلیز کا سال: 1960

“کیا پروردگار عالم سے آپ نے مجھے اسی لیے مانگا تھا کہ زندگی مجھے ملے اور اس کے مالک آپ ہوں، سانسیں میری ہوں اور دل کی دھڑکنوں پہ آپ کا قبضہ رہے؟ ظل الٰہی کیا میری زندگی آپ کی دعاؤں کا قرضہ ہے جو مجھے اپنے آنسووں سے ادا کرنا ہو گا”؟

مغل شہنشاہ ہمایوں کی اچانک موت نے مغلیہ سلطنت اور ہندوستان کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا، ایسے میں گیارہ سالہ اکبر کو مغلیہ سلطنت کی گدی سنبھالنی پڑی۔ مغلوں نے دوسرے حملہ آوروں اور خارجیوں کے برعکس ہندوستان کو اپنا گھر بنایا اسے اپنے گھر کی طرح سجایا سنوارا اور اس کی دل و جاں سے حفاظت کی۔ جلال الدین محمد اکبر ایک ایسا مغل بادشاہ تھا جسے آج بھی سارا ہندوستان قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ اکبر نے رواداری، محبت اور روشن خیالی کی پالیسی اپنائی اور ہندوستان کو یک جا کیا اور تاریخ میں “مغل اعظم” کا رتبہ پایا۔

1922ء میں اردو کے مشہور ڈرامہ نگار امتیاز علی تاج نے “انارکلی” کے نام سے ایک ڈرامہ لکھا جو مغل شہزادہ سلیم اور ان کی ایک کنیز “انارکلی” کی محبت کی داستان تھا۔ شہزادے اور کنیز کی اس محبت نے مغلیہ شان و شوکت کو داؤ پہ لگا دیا۔ شہزادہ سلیم کا ایک کنیز کو ملکہ ہندوستان بنانے کا خواب شہنشاہ اکبر کو ایک آنکھ نہ بھایا اور انھوں نے اس محبت کا قلع قمع کرنے کے لیے ہر حد کو پار کیا، باپ اور بیٹے کے درمیان اختلافات جنگ تک پہنچ گئے۔ 

اس کہانی کو شہرت دوام ملی، بعد میں اس ڈرامے کو سٹیج شو کے طور پہ بھی پیش کیا گیا۔ اسی ڈرامے پہ 1928 میں ایک خاموش فلم بھی بنی۔ کون جانتا تھا کہ امتیاز علی تاج کا یہ ڈرامہ ہندوستان کی سب سے بڑی، عظیم الشان اور کامل ترین فلم کی وجہ بنے گا۔ 

1944 میں کے آصف کی نظر سے یہ ڈرامہ گزرا، یہ کہانی کے آصف کو اتنا متاثر کرگئی کہ انھوں نے اس پہ فلم بنانے کا فیصلہ کیا اور یوں جنم ہوا “مغل اعظم” کا۔

سب سے پہلے مغل اعظم کے لیے چندر موہن کو بطور اکبر، ڈی کے سپرو کو بطور شہزادہ سلیم اور نرگس کو انارکلی کے کردار میں کاسٹ کیا گیا۔ فلم کی باقاعدہ شوٹنگ بھی شروع ہوچکی تھی لیکن ہندوستان میں سیاسی کش مکش اور حالات کی وجہ سے یہ فلم کئی بار التوا کا شکار ہوئی۔ قیام پاکستان کے بعد فلم کے پروڈیوسر شیراز علی پاکستان چلے گئے، چندر موہن اچانک ہارٹ اٹیک سے وفات پاگئے اور یوں “مغل اعظم” بند ہوگئی۔

جب کے آصف کی مغل اعظم بند ہوئی تو کمال امروہوی جو اس فلم کے شریک لکھاری بھی تھے انھوں نے اپنے طور پہ اس کہانی پہ فلم بنانے کا اعلان کردیا یہ خبر جب کے آصف تک پہنچی تو انھوں نے کمال امروہوی کے خوب لتے لیے اور للکار کر کہا کہ مغل اعظم صرف میں ہی بناؤں گا اور مجھ سے بہتر کوئی اس فلم کو بنا نہیں سکتا میں ایک ایسی فلم بناؤں گا جو صدیوں تک یاد رکھی جائے گی۔ اس کے بعد پچاس کی دہائی کے اوائل میں کے آصف نے ایک بار پھر “مغل اعظم ” کو نئے سرے سے بنانے کا فیصلہ کیا۔ 

فلم کی کاسٹ کو مکمل تبدیل کردیا گیا، کے آصف نے شہزادہ سلیم کے کردار کے لیے پہلے پہل دلیپ کمار کو لینے سے انکار کردیا لیکن پھر انہیں احساس ہوا کہ سلیم کے کردار کے لیے ہندوستان میں دلیپ کمار سے بہتر کوئی چہرہ نہیں ہو سکتا۔ انارکلی کے کردار کے لیے سب سے پہلے “نوتن” کو منایا گیا لیکن انھوں نے انکار کردیا اس کے بعد یہ کردار اپنے وقت کی سپر اسٹار “ثریا” کے پاس گیا انھوں نے بھی اس فلم کو کرنے سے انکار کردیا اور بالآخر یہ کردار مدھوبالا کے حصے میں آ گیا۔ پچاس کی دہائی میں کسی خاتون اداکار کو ایک لاکھ بطور فیس ملے گا یہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا لیکن کے آصف نے اس فلم کے لیے مدھوبالا کو ایک لاکھ روپے کے عوض کاسٹ کیا۔ پرتھوی راج کپور نے اس فلم میں شہنشاہ اکبر کا کردار نبھایا۔

“مغل اعظم” کے آصف کا ڈریم پراجیکٹ تھا اور وہ اس کی ایک ایک چیز کو عمدگی کے معیار پہ بنانا چاہتے تھے اسی وجہ سے اس فلم کا بجٹ ہر بار مقررہ حد سے تجاوز کر جاتا۔ ایسے دور میں جب تین سے چار لاکھ کے بجٹ میں فلمیں بن جایا کرتی تھیں “مغل اعظم” کو ڈیڑھ کروڑ کے بجٹ سے بنایا گیا۔ اس فلم کے دوران استعمال ہونے والے سیٹس کو مکمل مغلیہ طرز تعمیر پہ بنایا گیا ہر ایک محل کا باقاعدہ “ریپلیکا” بنایا گیا اور کاسٹیومز سے لے کر گانوں کی عکس بندی تک ہر چیز کو انتہائی بڑے پیمانے پہ بنایا گیا شائد یہی وجہ تھی کہ یہ فلم جب بن کر سامنے آئی تو ہر کوئی ورطہ حیرت میں مبتلا ہوگیا۔ اس فلم کی عکس بندی اور پروڈکشن ڈیزائن کی عمدگی کا حساب اس بات سے بھی لگایا جائے کہ اپنے وقت کے مہان ہالی ووڈ فلم میکر “ڈیوڈ لین” نے اس فلم کی عکسبندی میں خاصی دل چسپی ظاہر کی اور کے آصف کو مفید مشوروں سے بھی نوازا اور جب یہ فلم نمائش کے لیے پیش کی گئی تو اس فلم کی ہدایت کاری، پروڈکشن ڈیزائن اور عکس بندی کی کھل کر تعریف کی۔

مغل اعظم میں اداکاری کی بات کی جائے تو فلم کے تینوں مین کرداروں نے اس فلم کو امر کردیا۔ شہزادہ سلیم کے کردار میں دلیپ کمار نے اس کردار کو ایسے جیا کہ آج بھی یہ کردار ان کی پہچان ہے۔ دلیپ کمار ٹریجک کرداروں میں ید طولی رکھتے تھے ان کے ٹریجک کردار حقیقت سے اتنے قریب تر ہوتے تھے کہ سچائی کا گماں ہوتا تھا۔ جس عمدگی سے دلیپ کمار نے شہزادہ سلیم کا کردار سکرین پہ دکھایا جو ان کا رکھ رکھاؤ اور ڈائیلاگ ڈیلیوری تھی حقیقت میں مغل شہزادے کے شایان شان تھا۔ 

مدھوبالا پہ بات کرنے کے لیے ایک الگ نشست درکار ہے، میری نظر میں اگر ہندی سینما کی کوئی جیتی جاگتی تصویر ہوتی تو مدھوبالا ہوتی، انکی فلمی زندگی جتنی روشنیوں اور رنگوں سے بھرپور تھی زاتی زندگی اتنی ہی بے رنگ تھی۔ دلیپ کمار اور مدھوبالا کا معاشقہ اور اس کا افسوس ناک انجام ہر کوئی جانتا ہے اس پہ ان کی گرتی صحت ان کی مستقل ساتھی تھی اس کے باوجود انھوں نے “انارکلی” کے کردار میں ایک لازوال پرفارمینس دی جو ان کے ماتھے کا جھومر بن گئی۔ یہ فلم دلیپ کمار اور مدھوبالا کے معاشقے کے دردناک انجام کے بعد فلمائی گئی، دونوں نے ایک دوسرے کا آمنا سامنا کرنا اور بات چیت کرنا بالکل بند کردیا تھا یہی وجہ ہے کہ سکرین پہ جب جب دونوں ایک فریم میں نظر آئے وہ سینز بالکل حقیقی لگے چاہے وہ جدائی اور قرب کے سین ہوں یا پھر رومانوی ہر ایک سین حقیقت سے قریب ترین تھا۔

پرتھوی راج کپور نے شہنشاہ اکبر کا کردار نبھایا اور ایسا نبھایا کہ آج بھی یہ کردار عوام میں اتنا ہی مقبول ہے جتنا ریلیز کے وقت تھا۔ جس کسی نے “مغل اعظم” دیکھی ہے اس کے دماغ میں اکبر کی جو پہلی تصویر آتی ہے وہ پرتھوی راج کپور کی ہی ہے، سٹیج پہ جس کردار کی سب سے زیادہ نقل ہوئی وہ پرتھوی راج کپور کا کردار اکبر ہی ہے۔

مغل اعظم کا میوزک “نوشاد” صاحب نے ترتیب دیا اور اس کے میوزک کو کلاسیکل اور سیمی کلاسیکل انداز میں بنایا۔ دروغ بر گردنِ راوی جب کے آصف نوشاد صاحب کے پاس میوزک کے لیے پہنچے تو پیسوں سے بھرا ایک بریف کیس بھی ساتھ لے گئے اور بریف کیس کو نوشاد صاحب کے آگے رکھ کر کہا “مجھے تاریخ کا سب سے بہترین میوزک چاہیے جو میری فلم کے شایانِ شان ہو،” نوشاد صاحب کو یہ بہت انتہائی ہتک آمیز لگی اور انھوں نے پیسوں سے بھرا بریف کیس کھڑکی سے باہر پھینک دیا جس پہ کے آصف خاصے نادم ہوئے بعد میں نوشاد صاحب کی بیگم نے نوشاد صاحب کو راضی کیا اور انھوں نے ضد میں آکر ایسا میوزک ترتیب دیا جو سچ میں مغل اعظم کے شایانِ شان تھا اور جو رہتی دنیا تک امر رہے گا، کون کہے گا “پیار کیا تو ڈرنا کیا” آج سے ستر سال پرانا گیت ہے، یہ گیت آج بھی مقبول ہے بل کہ نوجوانوں میں مقبول ترین ہے۔ استاد بڑے غلام علی خان صاحب نے زندگی میں کبھی کسی فلم کے لیے نہیں گایا تھا لیکن مغل اعظم کے لیے انھوں نے ایک ٹھمری گائی، حیران کن طور پہ کسی بھی فلم کے لیے یہ انکی پہلی اور آخری پرفارمینس تھی۔ نوشاد صاحب نے اس فلم کے معیار کے عین مطابق اس کا میوزک ترتیب دیا اس فلم کے گانے آج سات دہائیاں گزر جانے کے بعد بھی مقبول ہیں۔

کے آصف نے اپنی زندگی بھر کی کمائی اور توانائیاں ایک مغل اعظم پہ صرف کردیں، جس جنون سے انھوں نے اس فلم کو بنایا وہ کے آصف کو تاریخ میں امر کرنے کے لیے کافی ہے۔ آج “مغل اعظم” کو ہندی سینما کی پہچان مانا جاتا ہے اسے ایک ایسی فلم مانا جاتا ہے جو دنیا کی کسی بھی فلم کی برابری کر سکتی ہے اور اس سب کے پیچھے فرد واحد کا وژن اور کمال تھا اور اس انسان کا نام ہے “کے آصف”.

مغل اعظم کو جب نمائش کے لیے پیش کیا گیا تو اس نے اور بھی زیادہ حیران کیا۔ اس دور میں فلم کے کسی علاقے میں تین سے چار لاکھ کے عوض ڈسٹری بیوشن حقوق بیچے جاتے تھے لیکن کے آصف نے اعلان کیا کہ وہ سات لاکھ سے کم ڈسٹری بیوشن حقوق نہیں دیں گے، پہلے پہل یہ پاگل پن لگا لیکن فلم کے لیے عوام کا دیوانہ پن دیکھ کر اس کے حقوق ایک علاقے میں گیارہ لاکھ روپے کے عوض خریدے گئے جو کئی سالوں تک ایک ریکارڈ رہا۔ ریلیز سے ایک دن قبل اس فلم کے ٹکٹس خریدنے کے لیے ہزاروں کا مجمع جمع ہو گیا جسے منتشر کرنے کے لیے پولیس کا سہارا لیا گیا، اس دور میں “مغل اعظم” نے ساڑھے پانچ کروڑ کا بزنس کیا جو ایک ریکارڈ تھا جو اگلے پندرہ سالوں تک قائم رہا، نہ صرف گھریلو سطح پہ بل کہ بین الاقوامی سطح پہ بھی اس فلم نے ریکارڈ توڑ کمائی کی جہاں اس کی ورلڈ وائڈ کمائی ساڑھے دس کروڑ سے بھی زیادہ تھی جو ایک انتہائی غیر یقینی بات تھی۔ جہاں اس فلم نے باکس آفس پہ جھنڈے گاڑے وہیں اس فلم کو ناقدین نے بھی خوب سراہا۔ مغل اعظم کو بہترین فلم کا نیشنل ایوارڈ ملا۔ 

میری نظر میں ہندوستان کی کوئی سب سے عظیم فلم ہے تو وہ مغل اعظم ہے۔ کے آصف کو سلام “کلاسک” مغل اعظم کو سلام۔۔