مختار مسعود کی زندگی کے چند گوشے : لوحِ ایام، سفر نصیب اورآوازِ دوست
(عامل عثمانی)
دنیا میں بہت سی شخصیات ایسی بھی ہیں جو اپنی ذات میں خود تاریخ ہیں اور اپنی مخصوص صلاحیتوں سے خود کو ایک منفرد حیثیت میں تسلیم کرا لیتی ہیں۔ جناب مختار مسعود بھی انہی شخصیات میں سے ہیں۔ ان کی شخصیت کے دو اہم پہلو ہیں…. ایک ذمہ دار، مہربان اور اصول پسند، اعلیٰ آفیسر اور دوسرے ایک مستند ادیب…. مختار مسعود کا شمار صاحب اسلوب نثر نگاروں میں ہوتا ہے۔ اپنے بزرگوں سے اکثر ان کے تذکرے سنا کرتا تھا۔ ان کی شہرہ آفاق کتاب ”آواز دوست“ کے دلوں میں سرایت کر جانے والے تاریخی جملے ہمارے خاندان میں ضرب المثال کے طور پر استعمال کئے جاتے تھے اور میری بھی خوش نصیبی کہ اس قابل فخر شخصیت سے مجھے متعدد بار مکہ مکرمہ اور پاکستان میں ملاقات کا شرف حاصل ہوا ہے۔ وہ اپنی ذات کے بارے میں گفتگو سے گریز ہی کرتے ہیں، یہی وہ سادہ طبیعت ہے، جس نے ان کی شخصیت کو مزید دلچسپ اور پُرکشش بنا دیا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد اعلیٰ ملازمتوں کے مقابلے کے امتحان (سی ایس پی) میں مختار مسعود نے نمایاں کامیابی حاصل کی۔ خاص بات یہ کہ وہ امتحان پاس کرنے والے چند سب سے کم عمرنوجوانوں میں سے ایک تھے۔ انہوں نے تقریباً 40 سال تک مختلف عہدوں پر اہم خدمات انجام دیں۔ ان میں مرکزی حکومت کی وزارت میں15 سالہ خدمات بھی شامل ہیں۔ 1982ءتک وہ تہران میں آر سی ڈی کے سیکرٹری جنرل بھی رہ چکے ہیں۔
مختلف اعلیٰ انتظامی عہدوں پر نہایت اہم ذمہ داریوں کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ انہوں نے قلم اور قرطاس سے اپنا تعلق قائم رکھا اور اپنے خاص اسلوب میں معرکة آلاراءکتابیں لکھیں، جو بلاشبہ اردو ادب میں نہایت قیمتی اضافہ ہیں، جن میں ”آواز دوست“، ”سفر نصیب“، ”لوح ایام“ جیسی کتابیں شامل ہیں۔ مختار مسعود کی نثر نگاری میں ممتاز ترین حیثیت ادباءکی نظر میں مستند سمجھی گئی ہے۔ ان کی سب سے پہلی تصنیف ”آواز دوست“ میں تخلیق پاکستان کی فلاسفی بیان کرنے کے علاوہ انہوں نے تحریک پاکستان کے ایک مجاہد کی حیثیت سے کئی سال پر مبنی اپنے مشاہدات ممتاز انداز میں قلم بند کئے ہیں۔ وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ ان کی دوسری تنصیف ”سفر نصیب“ ہے، جس میں انہوں نے سفرنامہ کے اسلوب کا غیر معمولی انداز اختیار کیا، جس کے جملے اپنی جگہ ایک مثال بن گئے ہیں۔ تیسری ”لوح ایام“ ایرانی انقلاب کے عینی شاہد کی حیثیت سے، جب وہ خود ایران میں آر سی ڈی کے چیئرمین کی حیثیت سے تعینات تھے۔
مختار مسعود کی تینوں کتابوں کے لفظ لفظ موتی اور ہر ہر جملے میں معانی کا بحر ذخار ہے۔ بہت ہی خوبصورت تحریر ہیں۔ ان کی تینوں کتب پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ مختار مسعود علی گڑھ سے تعلیم یافتہ ہیں، جہاں ان کے والد بھی معاشیات کے استاد رہ چکے ہیں۔ وہ محکمہ ماحولیات کے ایڈیشنل سیکرٹری پی آئی ڈی سی کے چیئرمین اور ایگریکلچر ڈویلپمنٹ بنک آف پاکستان (ADBP) کے چیئرمین بھی رہ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ مینار پاکستان (لاہور) کی مجلسِ تعمیر کے صدر بھی تھے۔ مختار مسعود نے اپنی پی آئی ڈی سی کی سربراہی کے دوران ایک تاریخ وضعکی کہ جب ادارے کے مرکزی دفتر کی نئی عمارت اسلام آباد میں تعمیر ہو چکی اور روایت کے مطابق ایسی اہم عمارت کا افتتاح صدر یا وزیر اعظم کرتے ہیں، لیکن انہوں نے تمام تر خطرات کے باوجود اس عمارت کا افتتاح پی آئی ڈی سی کے سب سے پرانے ملازم، یعنی ایک چپڑاسی سے کروا کر حیران کر دیا۔ مختار مسعود آج کل اپنے فرائض منصبی سے سبکدوش ہوکر لاہور میں مقیم ہیں۔ مختار مسعود کو پاکستان کے اعلیٰ ترین سویلین ایوارڈ، یعنی ”ستارئہ امتیاز“ سے بھی نوازا گیا ہے۔
1927ءمیں پروفیسر عطاءاللہ کو یہ علم کہاں تھا کہ ان کے گھر میں جس بچے کی ولادت ہوئی ہے، آئندہ زندگی میں وہی ان کی شہرت کا باعث اور وجہ افتخار ٹھہرے گا اور دنیائے ادب و انشاءکا ایک معتبر نام کہلائے گا۔ مختار مسعود نے بسم اللہ کی کتاب ”ب“ سے ایم اے معاشیات تک کی تعلیم علی گڑھ میں حاصل کی۔ 1948ءمیں انہیں جب فرسٹ کلاس فرسٹ کی ڈگری اور طلائی تمغے سے سرفراز کیا جا رہا تھا تو لوگوں نے دیکھا کہ والد کی پلکوں پر خوشی کے آنسو جگمگا رہے ہیں۔ علی گڑھ کی جس سیاسی فضا اور ادبی و علمی ماحول میں انہوں نے تعلیم حاصل کی، اس کے اثرات ان کی آئندہ زندگی پر مرتب ہونے لازمی تھے، اسی لئے اپنی تحریر و تقریر میں وہ اپنی مادر عملی کا ذکر ثواب سمجھتے ہیں اور اپنی علمی کاوشوں میں عام طور پر علی گڑھ کا تذکرہ کچھ اسی انداز سے کر جاتے ہیں کہ نہ ان پر غیر ملکی ایجنٹ کا لیبل لگ سکے اور نہ مادر علمی سے بے وفاقی اور بے اعتنائی کا الزام ان کا گریبان پکڑ سکے۔ ”آواز دوست“ میں وہ نواب حمید اللہ کے تذکرے میں علی گڑھ کا ذکر کیسے نفیس اور دلکش پیرائے میں کرتے ہیں جو خود ان پر بھی صادق آتا ہے۔
علی گڑھ میں گزارا ہوا، زمانہ کبھی ماضی بعید کے صیغے میں نہیں آتا۔ بیشتر وقت وہ حال کا صیغہ ہوتا ہے اور اگر فراموش بھی ہو جائے تو وہ ماضی قریب بن کر رہتا ہے۔ طالب علمی کے زمانے کو بھی یاد کرتے ہیں، مگر وہ شدت اور لذت جو علی گڑھ کی یاد میں ہے، وہ کہاں کسی درسگاہ کو نصیب ہوگی۔ ہندوستان جو بیسویں صدی کی چوتھی دہائی میں آزادی کے نعروں سے گونج رہا تھا، رفتہ رفتہ یہی فلک شگاف نعرے زبانوں سے اتر کر دلوں میں گھر کر گئے۔ تحریک پاکستان اپنے شباب پر تھی۔ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے نوجوانوں کا دستہ جدوجہد حصول پاکستان کے جذبے سے سرشار مسلم لیگ کا جھنڈا اٹھائے جس گلی کوچے سے گزرتا تھا، خالی ہاتھ واپس نہیں آتا تھا۔ اس کے دامن میں چاندی کے سکوں کی کھنک ،ماو¿ں اور بہنوں کے دمکتے ہوئے جھومر اور چوڑیوں کی صرف جھنک ہی نہ ہوتی، بلکہ استقامت، استقلال، ہمت، جوانمردی کی پُرخلوص دعائیں بھی ہوتیں۔ ضعیفوں کی دعائیں، بچوں کی معصوم التجائیں اور نوجوانوں کا جوش و ولولہ ایک طوفان بن کر اُمڈ پڑا تھا، جس سے ٹکرانا اور جس کو روکنا آسان کام نہیں تھا۔ مختار مسعود کی رگ و پے میں بھی ایک خود دار قوم اور غیرت مند خاندان کا خون گردش کر رہا تھا۔ انہوں نے اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
پاکستان کا سورج کرئہ ارض پر طلوع ہوئے 64 سال ہوگئے۔ اس نظریاتی ملک کی سرزمین پر عجب عجب حالات رونما ہوئے، لیکن ان دلخراش حالات میں بھی مختار مسعود کی مانند الحمد للہ ابھی کچھ اور دیانتدار بزرگ ہمارے درمیان موجود ہیں، جن کے دل و دماغ اسی جوش و جذبے سے سرشار ہیں۔ ابھی تک ان کے لبوں پر وہی نغمے مچل رہے ہیں، جس کی خوشگوار فضا نے ان کے قلب و جگر کو ایسی فرحت و تازگی بخشی تھی، جس کا لطف وہ آج بھی محسوس کر رہے ہیں۔ ان سب کا تعلق پاکستان کے اس ہراول دستے سے ہے، جس نے پاکستان کی تحریک میں حصہ لیا۔ اسے بنتے دیکھا اور اس کی خدمت کی اوراپنے تن من دھن کی بازی لگا کر اس چمن کی آبیاری اپنے خون جگر سے کی ہے۔ جب 1971ءمیں ملک دو لخت ہوا تو ان کا دل ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ خون کے آنسو بہائے، آنسوو¿ں کا یہ سیلاب ابھی تک تھما نہیں، ابھی زخم ہرے ہیں، خدا معلوم ان زخموں پر مرہم کب اور کون رکھے گا؟
معروف ادیب محمد واصل عثمانی اپنے ایک مقالے میں مختار مسعود کے بارے میں لکھتے ہیں کہ مختار مسعودنے ہر ذیشان علم و حکمت سے علوم اخذ کرنے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا، اگر ماں کی آغوش نے اپنی شیریں بیانی سے خوش گفتار بنایا تو مادر علمی نے ان کے نیک طور اور پاکباز رہنے کی شہادت دی۔ مختار مسعود اپنے خیالات کو مرتب و جمع کرنے اور مناسب و موزوں الفاظ کا جامہ پہنانے میں بڑے صبر و تحمل سے کام لیتے ہیں۔ اپنی ستر سالہ عمر میں انہوں نے صرف تین کتابیں تصنیف کی ہیں جو 23 سال کے وقفے میں زیور طبع سے آراستہ ہو کر منظر عام پر آچکی ہیں…. ”آواز دوست“ جنوری 1973ءمیں ”سفر نصیب“ جنوری 1981ءمیں ”لوح ایام“ جنوری 1996ءمیں طبع ہوئیں۔ یہ کتابیں برسوں کی ریاضت اور تجربات کا حاصل ہیں۔ ”سفر نصیب“ اور ”لوح ایام“ میں درد جگر کا اظہار ہے۔ ”آواز دوست“ ماضی کی داستان ہے اور سفر نصیب و لوح ایام حال کے منظر نامے ہیں۔ ماضی ہمیشہ اثر انگیز ہوتا ہے اور حال صرف کہنی کی چوٹ کی قائم مقامی کرتا ہے، البتہ ان منظر ناموں میں ذاتی تجربات اور مشاہدات کے بیش قیمت موتی جگمگا رہے ہیں، جنہیں گرہ میں باندھ رکھنے سے برے وقتوں کے خوف و خطر سے بچ نکلنے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ یہ کتابیں ان اکابرین کا جیتا جاگتا خاکہ ہیں۔