پھر رہا ہے شہر میں مُلّا کھلا
از، ذیشان علی
وہ سیاہ فام لڑکا نما آدمی تھا جو بوڑھا تو ہو رہا تھا مگر لچھن اب بھی دیہاتی لڑکوں جیسے تھے۔ لیکن طبیعت میں ایک عاجزانہ رعب تھا جو شاید اس کے خلیوں میں چھپے ہوئے ان تخلیقی اجزاء کا نتیجہ تھا جن کا وہ خود بھی علم نہ رکھتا تھا۔ اس کا نام بِنیا مین تھا لیکن بِنیا مین کے مطابق نام مشکل ہونے کی وجہ سے مبین کی شکل اختیار کر گیا اور اب وہ اسی نام سے پہچانا جاتا ہے۔ گویا یہی اس کا نام ہے لیکن وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہم سب کا “بھائی مبین” ہو کے رہ گیا۔
مبین ایک چھوٹے سے گاؤں منچر کا رہنے والا تھا اور نو جوانی میں ہی حصولِ رزق کی خاطر گوجرانوالہ آ گیا تھا، شاید وہ اب بھی گوجرانوالہ ہی میں سکونت پذیر ہو۔ (خدا کرے کہ وہ جہاں بھی ہو مطمئن ہو۔)
مذہب کے اعتبار سے مبین پیدائشی طور پر عیسائی تھا۔ پیشہ وارانہ طور پر وہ نسوانی کپڑوں پر بیل بوٹے بنانے کا ماہر تھا اور کسی نجی کار خانے میں عرصۂِ دراز سے ملازمت اختیار کرنے کے بعد مبین اور اس کے ساتھی کاریگر شفیق نے کار و بار شروع کرنے کا ارادہ کیا اور اس طرح مبین اور شفیق نے ہماری گلی میں کرائے پر ایک خالی احاطہ لیا اور وہیں دن رات کام کرنے لگے۔
شفیق گوجرانوالہ ہی کا رہنے والا تھا اور نہایت شرمیلا واقعی ہوا ہے جس کے شرم و حیا کی حد یہ تھی کہ شفیق اور کار و بار کے کئی اہم معاملات مبین کے ذمے تھے۔ میں اور میری عمر کے تمام لڑکے جنہوں نے مبین کے ساتھ بچپن کے میلے دیکھے ہیں وہ اس بات کے شاہد ہیں کہ وہ جس کام کو کرنے کی ٹھان لیتا اس میں حسن کے ایسے موتی پِروتا کہ دیکھنے والے دیکھتے ہی رہ جاتے۔ وہ دن بھر کام کرنے کا عادی تھا مگر کسی وقت کام سے اکتا جاتا تو اپنی پالتو کتیا “ہیری” سے کھیلنے لگتا اور کبھی کبھی ہمارے اصرار پر دیواروں اور فرش پر خوب صورت تصویریں بھی بنا دیا کرتا تھا، ہماری اس سے وابستہ محبت کا احوال یہ تھا کہ اسے اپنی عید پر بھی بضد ہو کر اپنے گاؤں جانے سے روک لیا کرتے تھے اور اس کی عید آنے پر بھی ہماری یہی خواہش ہوا کرتی تھی، مگر بعض اوقات وہ چھپ کر نکل جایا کرتا تھا۔
ہیری ایک پست قد کتیا تھی جسے وہ پیدا ہونے کے کچھ دن بعد اپنے ساتھ لے آیا تھا اور اپنے آخری ایام تک ہیری اسی کی صحبت میں رہی تھی، ہیری اپنی طبیعت کے اعتبار سے انتہائی مغرور کتیا تھی جسے ہم نے دوست بنانے کی سینکڑوں کوششیں کیں مگر وہ سب کی سب اس کے نسلی تفاخر کو مات نہ دے سکیں۔ اگر میری یاد داشت پر خود مجھے بھی اعتبار آ جائے تو ہیری غالباً کسی جان لیوا بیماری کے باعث انتقال کر گئی تھی مگر اس کی آخری رسومات کے حوالے سے میری یاد داشت کے تمام گوشے خالی ہیں۔
محلے کے تمام لڑکوں اور بچوں کی دوستی پہلے مبین سے ہوا کرتی تھی اور مبین کی نسبت سے ہی ہیری سے فقط آشنائی کا سامان ہوا کرتا تھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ گلی کے لونڈوں کو ڈینگیں ہانکنے کے لیے ایک مستقل بیٹھک میسر آ گئی تھی جس کا فائدہ اہلِ محلہ کو یہ ہوا کہ وہ چوک اور چوراہے پارسا ہو گئے جنہیں ہم سب نے مل کر بے حیائی کا گہواراہ بنا رکھا تھا۔ اہلِ علاقہ بھی اسے دل ہی میں گھر کا فرد سمجھنے لگے تھے۔
میں غالباً آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا کہ ۱۲ ربیع الاوّل کی آمد پر ہم سب نے ارادہ کیا کہ اس بار ہم بھی مقابلے میں حصہ لیں گے
مقابلے کا احوال کچھ اس طرح سے ہے کہ ربیع الاوّل پر آس پاس کی سبھی گلیاں رہائشیوں کی جانب سے سجائی جاتی تھیں جن پر آنے والے اخراجات کا تمام تر دار و مدار اس گلی کے نو جوانوں کے جیب خرچ پر ہوتا تھا اور اس کے علاوہ ہر گھر سے چندہ کی صورت میں کچھ روپے وصول کیے جاتے تھے، یہ میرے بچپن کا سب سے بہترین کھیل تھا جس کے لیے کئی کئی دن تک محنت کی جاتی تھی۔
گلی کی تزئین و آرائش کسی آرٹ سے کم نہیں ہوتی تھی جس میں مختلف قسم کے رنگا رنگ فیتے، جھنڈیاں اور کاغذی گلوب لگائے جاتے تھے اور اس سب کو بھی پیچھے چھوڑنے والا مبین کے اندر چھپا وہ خود کار مصور تھا جو گلی کی دیواروں پر مختلف قسم کی شکلیں بنانے کا ہنر رکھتا تھا۔
متعلقہ تحاریر: سواد اعظم اور سواد اصغر کی دل آزاری کا تصور: کچھ سوادی سوادی تضادات از، سیّد کاشف رضا
فلسفۂ انصاف کا بیان: ڈاکٹروں کی مہنگی ڈگری، ڈاکوؤں کی سستی کلاشنکوف از، سعد اللہ جان برق
مرگ بر دوش کہانی از، محمد عاطف علیم
ہمارے اس ارادے کو تحریک دینے والا بھی مبین تھا جو ان دنوں سب کی محبتوں کا مرکز ہوا کرتا تھا، چندہ اکٹھا کرنے سے لے کر گلی کی آرائش تک ہر کام میں وہ ہماری رہنمائی کیا کرتا تھا۔ یہ اس کا فن تھا۔
اس کا دماغ اس طرز کے کاموں میں اتنی تیز رفتاری سے چلنے کا عادی تھا کہ گماں ہونے لگا تھا کہ شاید اس نے اس کام کی با قاعدہ تربیت لے رکھی ہے مگر ایسا نہیں تھا۔ وہ کئی کئی راتوں تک گلی سجانے میں مگن رہتا اور کسی رہبر کی طرح ہم سب کے لیے کوئی نہ کوئی کام مختص کیے دیتا تھا، اس کی اس رہبری میں ایک عجیب قسم کا رعب تھا جو اس کے لیے محبت کا عجیب احساس اجاگر کرتا تھا۔ مجھے یاد ہے میں نے اس سے ایک مرتبہ ۱۲ربیع الاوّل ہی کی تیاریوں کے دوران ڈرتے ہوئے پوچھ لیا کہ بھائی یہ تہوار تو مسلمانوں کا ہے تو تمہارا مذہب اسے منانے سے منع نہیں کرتا؟
مبین نے تحکمانہ انداز میں کہا کہ یہ سب کام میں اپنی لگن سے کرتا ہوں اور جو اللہ کا نبی ہے وہ ہمارا بھی نبی ہی ہے، اس وقت مجھے اس کی بات صرف ایک بڑھک محسوس ہوئی اور اس خیال کے ساتھ آپ ہی آپ میں رد کر دی کہ ایسا کیسے ممکن ہے کہ دوسرے مذہب کا آدمی ہمارے مذہب کا تہوار منائے اور اس کا مذہب اسے اجازت بھی دینے لگے، ہمیں تو کبھی کسی کا تہوار منانے کا خیال تک نہیں آیا اور دوسرے مذہب کا تہوار منانا گناہ بھی تو ہے۔
در اصل یہ ہمارے ہاں مذہب کو لے کر ایک اجتماعی خیال ہے جس کی پرورش گھروں میں سب سے پہلے وہ جھوٹے قصے سنا کر کی جاتی ہے جنہیں نہ تو آسمان نے قبول کیا، نہ انہیں زمین پہ جگہ ملی اور نہ ہی سمندر کی طوفانی لہریں انہیں اپنے سینے میں سمونے کے لیے تیار ہوئیں، یہ قصے فقط بزرگوں کی یاد داشت کا حصہ تھے جنہیں شاید انہوں نے بھی اپنے بزرگوں ہی سے سنا ہو جیسے میری نانی اکثر مجھ سے کہا کرتی تھیں کہ نبی ﷺ اور صحابہ کے بعد سب سے بڑی شان ہماری ذات کی ہے اور یہ بات سن کر میرا سینہ چوڑا ہوا جاتا تھا۔ اس خیال کا سِحَر کئی کئی دن تک سوار رہا کرتا تھا۔ یہ فقط ایک مسجد یا چند مدرسوں کے قاری صاحبان کا معاملہ نہیں ہے، بل کہ وہ عمومی رویہ ہے جسے طے کرنے کے لیے دھائیوں کا سفر در پیش رہا، یہ رویہ ہماری اقدار کے طور پر متعارف کروایا گیا ہے جس کی بنیاد پر ہی مقابل کو پرکھا جا سکتا ہے۔ اگر ملّا کو بھی بطور فرد سمجھنے کی ایک جسارت کی جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ وہ بھی اس صورتِ حال میں بے قصور ہیں بَل کہ یہی وہ طبقہ ہے جو اس ساری واردات میں سب سے زیادہ شکار ہوا ہے۔
کیا مولوی اسی معاشرے کا روایتی عکس نہیں ہے؟ میری رائے میں صحیح معنوں میں مولوی وہ طبقہ ہے جو اپنے مفادات کی خاطر گزشتہ و آئندہ نسلوں میں تعصب پرستی کا بیج بوتا آیا ہے، صد افسوس کہ تعصب کی اس فصل کو کاٹنے کی مشق اب بھی جاری رہے گی۔
خیر مبین ایسی ہی مثالی باتیں کرنے کا عادی تھا مگر ہمارے درمیان دوبارہ اس موضوع پر کبھی کوئی بات نہیں ہوئی؛ نہ مَیں نے اس کا ذکر کسی سے کرنا ہی ضروری خیال کیا۔
ربیع الاوّل کے مہینے میں گلیاں سجانے کا جوش و خروش ہر آنے والے سال کے ساتھ بڑھتا گیا مگر گلی ہی میں سے کچھ افراد نے اعتراض کرنا شروع کر دیا کہ عیسائی کے ہاتھوں سے گلی سجانے سے بہتر ہے کہ گھر میں ہی بیٹھ کر یٰسین اور دیگر قرآنی آیات کا ورد کر لیا جائے، اس قسم کے فتوؤں کی باز گشت سب سے پہلے ادھیڑ عمر کی ان خواتین کی طرف سے ہوئی جو صُبحِ صادِق سے شام ہوئے تک گروہ کی صورت مختلف گھروں کی چوکھٹ پر بیٹھیں گلی میں موجود ۵۴ گھروں کے مختلف احوال کا تبادلہ کرنے کے سوا سبزی تیار کرنے کا کام بھی نہایت دل جُوئی سے مل کر کیا کرتی تھیں۔
مبین کے تقریباً سبھی دوستوں نے اس قسم کی ہرزہ سرائی کو زیادہ وقعت اس لیے نہ دی کہ ان بڑی بے جِیوں کو دوسرا کوئی کام نہیں ہے لہٰذا ان کی کسی بات کی کوئی حیثیت بھی نہیں ہے۔ معلوم نہیں مبین نے ان کی ان باتوں سے کیسا تاثر لیا کیوں کہ انہی دنوں میں ہمارے نئے گھر کی تکمیل ہو چکی تھی اور ہمیں وہاں سے دل بھاری کر کے ہجرت پذیر ہونا پڑا مگر کچھ دوستوں کی روایت کے مطابق ان باتوں نے اس قدر طول پکڑا کہ رہائشیوں کی جانب سے بعد میں بھی طرح طرح کی باتیں نکلنے لگیں، جس سے زیادہ تو کوئی فرق نہ آیا مگر مبین وہاں سے کسی روز بتائے بغیر کہیں دور جا بسا، جس کی آج تک بھی کوئی خبر نہیں ہے اور پھر وہ گلی اس کے بعد کبھی کس آنکھ نے دلہن کی طرح سرخ پھولوں سے لدی ہوئی بھی نہیں دیکھی۔