تاریخ پڑھتے پڑھتے تاریخ انہیں کھانے لگی
از، عفاف اظہر
ٹورنٹو جیسے ملٹی کلچرل معاشرے میں کچھ مخصوص رویے بہت افسوس ناک ہیں۔ جیسے کچھ سال قبل بلیک کمیونٹی نے اپنے بچوں کے لیے الگ سکول کا شور مچایا تھا۔ اور بورڈ سے اپنے لیے الگ سکول کا مطالبہ کر دیا۔ ان کا جواز یہ تھا کہ ہماری بلیک ہسٹری بہت اہم ہے جسے عام سکولوں میں اتنی اہمیت نہیں دی جا رہی۔ اور ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے بچے ہماری تاریخ بھول جائیں۔
تعلیمی بورڈ نے انسانی حقوق کے ناتے ان کا یہ مطالبہ مان بھی لیا۔ اور پھر وہ سکول بن گیا۔ ہاں مگر آج اس سکول کا یہ حال ہے کہ تاریخ پڑھا کر تازہ رکھنے کے شوق میں وہ اپنے مستقبل سے ہاتھ دھوتے ضرور دیکھائی دے رہے ہیں۔
اس سے قبل کہ نئی نسل کو تاریخ پڑھانے کی نوبت آتی وہ سکول سو فیصد بلیک طالب علم اور سٹاف ہونے کی وجہ سے بلیک کلچر کی منفی سرگرمیوں کی آماجگاہ بن کر رہ گیا۔
آج بالکل یہی صورتِ حال ان سبھی سکولوں کی بھی ہے جن میں ایشین طالب علموں کی تعداد زیادہ ہے۔ ہر وہ سکول اپنا میرٹ کھو چکا ہے جہاں اکثریت ایشین کی ہے۔
مزید دیکھیے: کیا مغربی ممالک میں زیادہ عصمت دری ہوتی ہے از، عفاف اظہر
اور تو اور ہر وہ لائبریری بھی اپنا معیار اور مواد کھو چکی ہے جس کے ارد گرد دیسی لوگوں کی کثرت ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ جہاں بھی ایک مخصوص کمیونٹی کی تعداد زیادہ ہو تو وہ علاقہ اور وہ سکول کھڑے پانی کے جوہڑ کی مانند بد بو دار ہو جاتا ہے۔ وہاں کی آب و ہوا میں اس مخصوص کلچر کی منفی سر گرمیاں دیدہ دلیری سے سر ابھارنے لگتی ہیں۔
خیر سے لا قانونیت ہمارا خاصا تو منافقت اوڑھنا بچھونا ہے۔ اور سونے پر سہاگا یہ کہ ہم لوگوں کی روایتی ذہنیت بھی ایسی ہے کہ چاہے سامنے کھلا سمندر ہو مگر پھر بھی ہمیں اپنا ڈیڑھ انچ کا کنواں ضرور کھودنا ہے۔ اب چاہے ان کنوؤں کا پانی کتنا ہی زہریلا کیوں نا ہو۔