ہم سب کے اپنے اپنے سچ کیوں ہیں؟
از، ارشد محمود
ہم نے مضمون کا نام ’لاکھوں کا سچ‘ اس لیے رکھا ہے، کسی چینل پر اس نام سے ایک پروگرام چلتا تھا۔ اس میں لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے ، وہ اپنے قریبی عزیزوں اور احباب کے سامنے بیٹھ کراپنی نجی زندگی کے بارے سوالات کے صرف اور صرف ’سچے‘ جواب دیں۔ اگر وہ جھوٹ بولیں گے یا سچائی کو چھپائیں گے، تو سچائی جاننے والا مشینی نظام بتا دے گا، اور وہ پروگرام سے آوٹ ہو جائیں گے۔ یہ پروگرام دیکھنے والوں کے لئے بھی کشش کا باعث رکھتا ، انسان ویسے ہی دوسروں کی ذاتی زندگی کے بارے میں جاننا چاہتا ہے اور وہ بھی پورا ’سچ‘۔ ادھر شرکت کرنے والے اپنی خود اعتمادی سے آتے، کہ وہ اپنی زندگی کے بارے میں سچ بولنے کی جرات رکھتے ہیں۔ ان کے قریبی عزیز ماں،بہن، بھائی، بیوی، منگیتر بھی لاکھوں روپے کا انعام پانے کے جوش اور خوشی میں شریک ہوتے ۔ جب شریک خاتون یا مرد اپنی زندگی کے بارے میں سچ بولنے لگتا۔۔تو اس کی بیوی، بچے، ماں باپ، بہن بھائی گرل یا بوائے فرینڈ،جوابوں کی تاب نہ لا سکتے اور وہی اسٹیج پر لائیو ان کے درمیان کشیدہ صورت حال پیدا ہو اجاتی۔ رونا دھونا شروع ہو جاتا۔ کہ ’’اچھا ابھی تک ہم سے یہ یہ چھپایا گیا تھا۔‘‘ تیری ایسی کی تیسی۔جواب دینے والا مزید سچ کا متحمل نہ ہو پاتا۔
اکثر اس کی اپنی ہمت بھی ٹوٹ جاتی اور اس کے ساتھ جو لوگ خوشی سے آئے ہوتے۔وہ اسے برا بھلا کہہ کر پروگرام سے اٹھ کر جارہے ہوتے۔میز بان منہ دیکھتا رہ جاتا اور پروگرام کے اختتام کا اعلان کرتااور اگلے پروگرام کے لئے کسی اور کو سچ بولنے کی ہمت کرنے کی دعوت دیتا!ہمارے خیال میں یہ پروگرام کئی گھر برباد اور رشتے ناطے تباہ کرنے کا موجب ہو ا ہوگا۔ہم اپنی گھر والی کے ساتھ اس پروگرام کو تجسس سے دیکھتے۔ ہم جلد ہی اس نتیجے پر پہنچ گے۔ یہ پروگرام کوئی اچھا نہیں ہے۔ یہ لوگوں کے رشتے ناطے توڑتا ہے اور ان کی ذاتی زندگیوں کے سکون کو برباد کرتا ہے۔ پورا سچ کہا جا سکتا ہے نہ سنا جا سکتا ہے۔ مکمل سچ برداشت نہیں کیا جا سکتا۔اور ضروری بھی نہیں ہے، پورا سچ ہر ایک کے آگے رکھا جائے۔ چنانچہ اپنی اپنی زندگی کا کچھ سچ چھپا ہی رہنا چاہئے۔ ہمیں دوست احباب اور رشتوں ناطوں کی پرسنل لائف کے بارے میں بہت زیادہ کریدنانہیں چاہئے۔ہر انسان اپنی جگہ پر ایک کائنات ہوتا ہے۔اس کے لاتعداد زاویے، پرتیں، جہتیں ہوتی ہیں۔ ہمیں انسانوں کو بہت زیادہ جواب دہ نہیں بنانا چاہئے۔ لیکن ہماری گھر والی ہمارے استدلال سے مطمئن نہیں تھی۔اسے بیان کردہ ’سچ‘ کی بنیاد پر اپنی judgment میں دینے میں دلچسپی تھی۔ کون صحیح ہے، اور کون غلط____انسان کو دوسروں کا جج بننا بہت اچھا لگتا ہے۔۔بڑا مزہ آتا ہے، کسی کو جب ہم غلط یا صحیح قرار دیتے ہیں۔
اپنا آپ بھول جاتا ہے۔کہ دوسرے بھی ہمارے جج ہو سکتے ہیں اور ہمیں اپنی معلومات اور اپنے معیار سے اچھا یا برا کہہ سکتے ہیں۔اصل میں انسان کچھ اچھا ہوتا ہے اور کچھ برا ۔۔اور اسی میں ایک تناسب سارکھ کر ہم نے سماجی زندگی کو ایک ترتیب دینا ہوتی ہے۔ کہیں ہم معاف کرتے ہیں، کہیں درگزر کرتے ، اور کہیں آنکھ بند کرتے ہیں۔ انسان کی ترقی یافتہ تہذیب نے بتایا ہے۔ do not be judgmental، کبھی فتوی نہ دو۔ لیبل نہ لگاو، کسی کے بارے میں فوری رائے قائم نہ کرو۔ دوسروں کے بارے میں خود اپنی ذات کے اچھے برے ہونے کے معیاروں سے ہٹ کر دیکھنا چاہئے۔ حقیقت بڑی پیچیدہ اور لطیف چیز ہے۔ جو بھی ہے اسے خود اس کے حالات و واقعات میں رکھ کر ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ جسے معروضیت کہتے ہیں۔ ہم سچ کے بہت دعویدار بنتے ہیں، سچ کو بڑی اعلی سطح پر رکھتے ہیں۔ سچ کے بارے میں بہت کریدنا چاہتے ہیں۔پورا سچ تو ’خدا‘ جیسی کوئی ذات ہوتی، تو وہی دیکھ سکتی۔ہم نہ اسے پورا دیکھ سکتے ہیں۔نہ اس کی معروضیت کو سمجھ سکتے ہیں۔نہ پورے سچ کو برداشت کر سکتے ہیں۔ ورنہ سچ سامنے آئے بغیر بھی وہی شخص ہوتا ہے، جو باپ ، بیٹا ، بیوی ، بیٹی ہوتی ہے، دوست ہوتا ہے اور ان رشتوں میں وقت بھی اچھا گزر رہا ہوتا ہے، لیکن جوں ہی اس کے بارے کسی نجی ’سچ‘ کا انکشاف ہوا،سب تباہی پھر گئی___
’سچ‘ بڑا رومانی سا لفظ ہے۔لوگ سچ کے ساتھ کشش محسوس کرتے ہیں۔سچ کے بارے تجسس رکھتے ہیں، اسے جاننا چاہتے ہیں۔اسے پانا چاہتے ہیں۔اس تک پہنچنا چاہتے ہیں۔لیکن جس طرح اس کائنات کی’ اصل ‘ تضاد ہے، اسی طرح سچ کی اصل بھی تضاد ہے۔ کسی دانش مند نے پرانے وقتوں میں اسی لئے کہہ دیا ، سچ کڑوا ہوتا ہے۔ لیکن ہر کوئی سچ کو میٹھا سمجھ کر اس کی طرف دوڑتا ہے اور پھر اس کے بعد ’چراغوں میں روشنی نہیں رہتی‘، کوئی بھی سچ کی کڑواہٹ کو برداشت نہیں کر پاتا۔اسی لئے کچھ دھوکا، کچھ جھوٹ، کچھ سراب زندگی کی بقاکے لئے ضروری ہے۔ سچ کوئی ایسی چیز نہیں کہ اسے مطلق قدر قرار دے کر پوجا جائے۔ ہم سچ کے پجاری بن کر خود کو دھوکا دے رہے ہوتے ہیں۔ سچ کے سامنے کے لئے بڑی ہمت چاہئے۔ سچ آپ کا منہ توڑ سکتا ہے۔ سارا اور ہر طرح کا سچ جان کر تو زندہ ہی نہیں رہا جا سکتا۔اسی لئے سچ کی اتنی زیادہ دہائی نہیں ڈالنی چاہئے۔اس کے پجاری ہونے کے اتنے دعوے نہیں کرنے چاہئے۔اگر ہر انسان سچ پر چلنے لگے، اور سچ کہنے لگے۔یہ زندگی، دنیا، سماج قائم نہیں رہ سکے گا۔ زندگی کی بقا کے لئے اسے تھوڑا سا جھوٹ بھی چاہئے۔
اسی لئے بہت زیادہ نجی زندگی کے سچ کو نہیں کریدنا چاہئے۔ بہت زیادہ جزئیات میں نہیں جانا چاہئے۔ کچھ معاملات اور جزئیات آنکھوں سے اوجھل رہیں تو اچھا ہے۔ ورنہ ہر چیز اُلٹ پلٹ سکتی ہے۔ قطعی سچ کا سامنا بہت مشکل ہے۔ آپ ٹوٹ سکتے ہیں۔ سماجی معاملات میں ابھی انسان کا دماغ اور دل اتنا بڑا نہیں ہوا، کہ وہ کسی دوسرے کے مکمل سچ کا سامنا کر سکے۔اگرچہ کائنات میں کوئی شے مکمل اور مطلق نہیں ہے۔سچ کے آگے اور اس کے پیچھے بھی بہت کچھ سچ ہوتا ہے۔ ہم تو سچ کا پہلا پرت ہی دیکھ کر دم توڑ سکتے ہیں۔۔جب کہ سچ کے ہر پرت کے آگے ایک اور سچ کا پرت ہوتا ہے۔ سچ بھی متغیر و متحرک ہے۔ وہ ہر آن بدلنے والی چیز ہے۔ اس پر زمان و مکان کے لا تعداد اثرات مرتب ہو رہے ہوتے ہیں۔ جن کا محدود اور موضوعی کیفیت میں سمجھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ سچ کو صرف جان لینا ہی کافی نہیں، سچ کا عقلی تجزیہ کرنا اور اس کے پس و پیش حالات و واقعات کو جاننا بھی ضروری ہوتا ہے۔ سچ کو اسی وقت جانا جائے، جب اس طرح کی صلاحیت اور ہمت موجود ہو____ورنہ واقعات اور رشتوں ناطوں کی فیس ویلیو تک ہی رہنا چاہئے____ہاں فیس ویلیو میں تبدیلی ہو جائے۔
تو پھر کوئی فیصلہ کرنا چاہئے۔سچ کے بارے سائنسی تجزیہ کرتے ہوئے اہل دانش نے مختلف نظریات پیش کئے ہیں۔ سچ کی ایک تعریف ہے، چیزیں کیسی ہیںhow things are اور دوسری ہے، چیزیں کیسی ہونی چاہیے۔ پھرactual conditions ہیں، اور ideal conditions کیا ہیں۔ کوئی فلاسفر ایسا نہیں گزرا، جس نے کوئی سیدھی سادی متفقہ سچائی کی تعریف پیش کی ہو۔ ہر ایک کا سچائی کا معیار الگ ہو سکتا ہے۔ سماجی تعلقات میں ہر ایک کی پرائیویسی کا احترام ہونا چاہئے۔ہم سب رشتوں ناطوں میں منسلک اور جڑے ہونے کے باوجود اپنی ایک پرائیویسی رکھتے ہیں۔جسے کسی رشتے کے حق کے نام پر نہیں توڑنا چاہئے اور نہ جزئیات اور گہرائی میں جانا چاہئے۔ جب تک وہ بالکل سامنے نہ آ جائے، اور وہ آپ کے لئے ضرر کا باعث ثابت نہ ہو جائے۔کسی کے کام کی کوالٹی کو تو جج کر سکتے ہیں۔لیکن کسی کے ذاتی فعل ،خیالات اور اقدار کو جج نہیں کر سکتے، جب تک وہ آپ کو براہ راست نقصان پہنچانے کا باعث نہ ہوں۔ہم سچ اور حقیقت کو دیکھ سکتے نہ برداشت کر سکتے۔اگر وہ ہمارے نظرئے ، معیار اور مفاد سے مختلف ہے۔ہم سوچ بھی نہیں سکتے ،یہ ایسا بھی ہو سکتا ہے۔وجہ یہ ہے، کہ انسان ہمیشہ چیزوں کو اپنی Convenience کے مطابق دیکھ رہا ہوتا ہے۔وہ مناظر کو اپنے لئے خوش کن بنانے کے لئے چیزوں کو goody goody دیکھ کر خوش ہوتا ہے۔اس میں ذرا سی تبدیلی یا کسی اور گوشے کا دخل اس کا مزہ کرکرا کر دیتا ہے_____
کہا گیا کہ ججمنٹ کا حق صرف خدا کو ہے۔کیوں کہ وہ سارے اور مکمل سچ کو جانتا ہے۔یہ بات یہاں تک تو ٹھیک تھی، لیکن عملی طور پر ایمان والے نے خود سے ہی خدا کا نائب بن کر ٹھیکہ لے لیا۔اگر خدا تک معاملہ رکھا جاتا تو اتنا برا نہ تھا۔کسی کے مائنڈ کے اندر کیا ہے، اسے آپ کیسے جان سکتے ہیں۔کوئی مائنڈ میں کیا کچھ نہیں کر لیتا۔ پھر اس کے بارے کیا ہوگا۔کسی کے دماغ اور دل کے اندر جا کر کیسے دیکھ سکتے ہیں۔ سچ کی اخلاقی، سماجی اور بین الذات پرتیں ہوتی ہیں۔ اوشو اس سلسلے میں پھول کی مثال دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے، کہ آپ جب پھول کو دیکھتے ہیں۔ تو آپ اس کی ظاہر ی شکل وصورت، رنگ و خوشبو سے متاثر ہوتے ہیں۔ لیکن اگر آپ پھول کی ’سچائی‘ جاننے پر بضد ہو جائیں، اور پھول کا آپریشن شروع کر دیں، اس کا یہ رنگ کیوں ہے، اس کی خوشبو کہاں سے نکل رہی ہے وغیرہ اور آپ پھول کو ادھیڑ کر رکھ دیں۔ تو پتا نہیں آپ پھول کی سچائی تک پہنچ پائیں یانہیں، البتہ پھول نام کی چیز ضرور غائب ہو چکی ہوگی۔