مندرجاتی مغالطہ ، ایک جھگڑا
از، نصیر احمد
( ایک اشتہار)
تہمینہ: سرتاج، آپ سے کتنی دفعہ التجا کی ہے کہ کریلے کھیرے نہیں ہوتے۔ لیکن جب بھی آپ سے کہتی ہوں کریلے لا دیں، آپ کھیرے لے آتے ہیں۔
اکرم: خوب، اب ہمیں کھیروں اور کریلوں کے درمیان فرق کا بھی پتا نہیں۔ (کھیروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) یہ کریلے ہی تو ہیں۔ لگتا ہے تمھاری خالہ زاد چکر لگا گئی ہے۔ تمھاری تو کنجی اس کے ہاتھ میں ہے۔ جب بھی وہ آتی ہے تم تو اندھی ہو جاتی ہو۔
تہمینہ: وہ بیچاری بیوہ، وہ کسی کو کیا بہکائے گی، بس اپنے ہی دکھڑے ہی روتی رہتی ہے۔ عورتوں عورتوں میں فرق ہوتا ہے۔ سب لگائی بجھائی کرنے والی نہیں ہوتیں۔
اکرم: میں کہہ رہا ہوں، میری ماں کو کچھ نہ کہنا۔ ورنہ بہت برا ہو گا۔
تہمینہ: میں نے کچھ کہا؟ آپ تو ہر وقت الزامات کی تیاری میں مصروف رہتے ہیں۔
اکرم: باتوں کی تہہ میں جو بات ہوتی ہے۔ اسے میں خوب سمجھتا ہوں۔
تہمینہ: لیکن کریلوں اور کھیروں کے درمیان فرق کا نہیں پتا ، غصہ نہ کریں، پڑوسیوں کو بلوا لیتے ہیں، وہ فیصلہ کر دیں گے کہ کھیرے کیا ہوتے ہیں اور کریلے کیا ہوتے ہیں۔
اکرم: تمھاری یہ باتیں ہمارا بسا بسایا گھر اجاڑ دیں گے۔ پڑوسی کون ہوتے ہیں، ہمارے درمیان فیصلہ کرنے والے؟
تہمینہ: اچھا تو عدالت عالیہ میں درخواست دے دیتے ہیں۔ وہ سبزیوں کے ماہر سائنسدان کو بلوا کر فیصلہ کروا دیں گے کہ کریلا کس سبزی کو کہتے ہیں کھیرا کس سبزی کو کہتے ہیں۔
اکرم: تم تو ہر وقت بات کو لوگوں تک پہنچانے کے چکر میں رہتی ہو۔ مجھے معلوم ہے، لوگوں کو درمیان لا کر تم اپنا خلع کا مقدمہ مضبوط کر رہی ہو۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ عورتیں چاردیواری میں رہیں۔ عقل نام کی چیز عورتوں میں ہوتی ہی نہیں۔ ذرا سی بات کا بتنگڑ بنا رہی ہو۔ عدالت میں جانے کی کیا ضرورت ہے؟
تہمینہ: لیکن اس بات کا فیصلہ کیسے ہو گا کہ کھیرے کھیرے ہوتے ہیں اور کریلے کریلے۔
اکرم: تمھیں مجھ پر بھروسا کرنا چاہیے۔ اگر عورت مرد پر بھروسہ نہ کرے تو پھر گھر گرہستی کا سمجھو بیڑہ غرق۔
( اتنے میں خالہ زاد آ جاتی ہے، دعا سلام کے بعد اس کی نظر کھیروں پر پڑ جاتی ہے) ارے تمو، یہ کھیرے تم کس دکان سے لائی ہو۔
اکرم: میں کہتا نہ تھا یہ ہمارا گھر اجاڑ کے ہی رہے گی۔
کیا کہہ رہے ہیں؟ کچھ عقل کے ناخن لیں۔ اب
تہمینہ:وہ کھیروں کو کریلے کیسے کہے۔ گھر آئے مہمان کے ساتھ بدسلوکی تو بہت ہی بری بات ہے۔
خالہ زاد: ہائے ہائے، غریب بیوہ کو تو کوئی کچھ بھی کہہ دے۔ دنیا کے منصفو، کہاں ہو تم۔
اکرم: دیکھ لو، اب یہ ڈراما کرے گی۔ تم عدالت عالیہ پپہنچی تھیں، یہ اقوام متحدہ کو آوازیں دے رہی ہے۔ تمھارا خاندان ہی ایسا ہے۔
تہمینہ: جیسے بھی ہوں۔ کم ازکم انھیں کریلوں اور کھیروں کا فرق تو پتا ہے۔ ا ایک تو سچی بات نہیں مانتے اوپر سے کہتے ہو کریلا گوشت کھانا ہے۔ اب میں کھیروں سے کریلا گوشت کیسے بناؤں؟
خالہ زاد: یہ بھی میرا قصور ہے۔ دنیا کے منصفو کہاں ہو تم؟
اکرم: (خالہ زاد کی طرف اشارہ کر کے) نکل جا میرے گھر سے۔
تہمینہ: یہ جائے گی تو سمجھو میں بھی گئی۔
خالہ زاد: ہائے، دنیا کے منصفو، میری بار اتنی دیر کیوں کری۔
( پھر جھگڑا بہت بڑھ جاتا ہے، وہ سب لکھنا تو عوامی اخلاقیات کی توہین ہو جائے گی، اس لیے بات یہیں ختم کر دیتے۔)