مقدمۂ تصوف حصہ از، ایویلائن انڈرہِل حصہ اول
ترجمہ: جمشید اقبال
فکری، جمالیاتی اور تخلیقی میدان میں سبقت لے جانے والی تہاذیب میں ایک قدر مشترک رہی ہے۔ انہوں نے مشکل صورتِ حال کے باوجود ایسی پُر اِسرار شخصیات پیدا کی ہیں جنہوں نے ظاہری مظاہرات کی دھند کے اُس پار حقیقت تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اُن کے دشمنوں کا یہ کہنا ہے کہ ”یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے حقیقت سے مُنھ پھیر کر خود ساختہ حقیقت کا راگ الاپنا شروع کر دیا ہے۔” مشرق اور مغرب نے عہدِ عتیق، قرونِ وسطیٰ اور عہدِ جدید میں کئی ایسی شخصیات کو جنم دیا ہے جنہیں اصطلاحاً صوفی کہا گیا ہے۔ اُن کی زندگیوں کا ایک یہی مقصد تھا۔ روحِ ازل کی تلاش اور وصال۔ وہ عالمِ مظاہرات سے باہر جانے والے راستوں کے سراغ رسان تھے۔ وہ مراجعت کے امکانات کے متلاشی تھے تاکہ انسان کھوئی ہوئی معصومیت دوبارہ حاصل کر سکے۔ وہ حقیقتِ مطلقہ کے متلاشی تھے۔ یہی تلاش اُن کی زندگیوں کی متاع اور مقصد تھی۔
انہوں نے اس کے لیے بلا کاوش قربانیاں دیں۔ ایسی قربانیاں جن کا تصور عام آدمی کے لیے محال ہے۔ اُن کی روحانی تگ و تاز کی معروضیت کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اُن کے راستے جدا جدا تھا۔ لیکن منزل اور نتیجہ ایک تھا۔ اُن کے روحانی تجربات کے یکساں نتائج ہی اُن تجربات کی صحت کا ثبوت ہیں۔ اُن کا تعلق کسی مذہب یا کسی خطے سے ہوسکتا ہے لیکن ایک کا روحانی تجربہ دوسرے کی روحانی واردات کی تصدیق بلکہ وضاحت کرتا ہے۔ ایک کا تجربہ دوسرے کی صداقت کی دلیل قرار پاتا ہے۔ اس سے قبل کہ ہم اُس دنیا پر بات کریں جو انسان کے حِسی تجربات سے ماورا ہے۔ ہمیں اُن صلاحیتوں پر بات کرنی ہوگی جن کے بل بوتے پر وہ صاحب علم کہلاتا ہے۔
کم و بیش ہر شخص اپنی عمر کے کسی نہ کسی حصے میں حقیقت کی دیوی کے عشق میں ضرور مبتلا ہوتا ہے۔ بعض لوگ سیلاب بلا سے گھبرا کرمظاہرات کی کال کوٹھڑی میں بیٹھ کر ”اہم” کاموں میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ اِن کے برعکس فرہاد صفت لوگ بحرِ حقیقت کی شناوری میں عمر گزار دیتے ہیں۔ یہ لوگ حقیقت کو اُس عاشقانہ قرینے سے دیکھتے ہیں جیسے دانتے اپنی محبوبہ بیاٹریس کو دیکھتا تھا۔ بیاٹریس حقیقت مطلقہ کا استعارہ تھی۔ خوبصورت مگر سمیٹنے سے بکھر جانے والی۔ جو ”یہاں” دکھائی دے تولمحۂِ وصل ”وہاں” ممکن ہو۔ خوشبو کی طرح ہاتھ میں نہ آنے والا پارچۂ جمال۔
بعض لوگوں نے حقیقت کے عشق میں مبتلا رہنے کے باوجود اُس سے خوف زدہ رہے ہیں۔ حقیقت، اُن کے نزدیک، ایک ہرجائی ساحرہ ہے جو اُس وقت چھوڑتی ہے جب باقی سب کچھ چھوٹ جائے۔ بعض لوگوں نے اُسے ٹیسٹ ٹیوب میں دیکھا ہے اور کچھ نے اِسے باورچی خانوں میں پالیا۔ موخرالذکر افادہ پرست ”مفکرین” ہیں۔ جن کے نزدیک فائدہ ہی حقیقت بلکہ خدا ہے۔ سب سے آخر میں تشکیک زدہ مفکرین کی باری آتی ہے۔ انہوں نے یہ سوچ لیا ہے کہ حقیقت کا وجود ہی نہیں ہے۔ اور اگر ہے تو اس کی تلاش بے سود ہے۔
ہر مکتبِ فکر علامتی اصطلاحات سے لیس ہے۔ لیکن کوئی یہ دعوٰی نہیں کر پایا کہ اُس نے حقیقت ِ مستور کا پردہ چاک کیا ہے۔ اُسے دیکھا ہے۔ لیکن اگر ہم صوفیا کے بیانات پر اعتماد کریں۔ یقین، خود اعتمادی اور خوش نیتی جن کے ہر بیان میں نمایاں ہیں۔ وہ اُس میدان میں کامیاب نظر آتے جہاں باقی سب احساسِ شکست سے سر جھکائے کھڑے ہیں۔ انہوں نے مظاہرات کی آکاش بیل میں الجھی ہوئی انسانیت اور حقیقتِ مطلقہ کے مابین اٹوٹ رشتوں کا کھوج لگا لیا ہے۔ وہ اُس غیر مادی کہنہ سچائی کو جان گئے ہیں جو حقیقة الحقائق ہے۔ جو روح کائنات ہے۔ وہ حقیقت جسے فلسفیوں نے ”مطلق” (the Absolute) اور الٰہیات دانوں نے خدا کہا ہے۔ اُن کا دعویٰ ہے اور وہ لوگ جوصوفیانہ تجربے سے محروم ہیں اُن کے اس دعوے کی تسلیم کرتے ہیں یہی وہ محجوب حقیقت جس کی تلاش میں ہر اہلِ فکر حکمت کے لق و دق صحراؤں میں بھٹک رہا ہے۔ لیکن اُس کا دامن ہنوز آسودگی سے خالی ہے۔
اسی لیے صوفیائے کرام نسلِ انسانیت کی توجہ کے مستحق ہیں۔ کوئی اور نہیں! ہم نئے جزائر دریافت کرنے والے قزاقوں میں دل چسپی لے سکتے ہیں تو عالمِ حقیقت سے روشناس کروانے والوں کو کیوں نظر انداز کریں؟ اس لیے کہ انہوں نے وہاں قدم رکھا ہے جہاں تک جانے کی سوچ ہمارے قویٰ پر کپکپی طاری ہوجاتی ہے؟
صوفیائے کرام روحانی دنیاؤں کے نقیب ہیں۔ اور ہمیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ ہم اُن کی دریافتوں کا ابطال کریں۔ صرف اس لیے کہ ہم جرأتِ دریافت سے خالی ہیں۔ ہم میں یہ حوصلہ نہیں ہے کہ ہم غیب کے سفر پر نکل کھڑے ہوں۔
اس تحریر کا مقصد صوفیانہ تجارب اور اُن کے نتائج کا بیان ہے۔ میں جانتی ہوں کہ روحانی معاملات ہمارے روزمرہ معمولات سے بالکل الگ اور جدا ہیں۔ ہماری ادائے فکر اس سے نا آشنا ہے۔ جو کوئی اِن معاملات کو سمجھنا چاہتا ہے اُس کے لیے لازم ہے کہ وہ پہلے اپنے افکار کو پاک کردے۔ تزکیۂ فکر دانش روحانی کا صدر دروازہ ہے۔ روحانی معاملات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم تعصبات اور رسومات کے بتوں کو محبت کے تیشے ریزہ ریزہ کردیں۔ اس مدقوق فکرسے جان چھڑالیں کہ حقیقت دائرۂ حواس کی غلام ہے۔ تنگ اور حبس آلود منطقی چوکھٹوں کی قیدی ہے۔ اس واہمے سے نکل آئیں کہ عالمِ سالمات کا علم (سائنس) سچ ہے اور عالمِ بالا کا علم اساطیر کا مجموعہ! ہم کاغذ کے ٹکڑوں سے بنائے گئے گھروں میں محبوس کر دیے گئے ہیں۔ آئیں کھلا آکاش ہمیں بلا رہا ہے۔
صوفیا پوری انسانیت کو نیستی کے راج محل میں بلا رہے ہیں۔ آئیں ہم اُن بنیادوں کا جائزہ لیں جن پر انسانی جانکاری کی بنیادیں اٹھائی گئی ہیں:
اس سے قبل کہ ہم صوفیا کے راج محل کو تنقید کے ہوائی گولوں سے مِسمار کرنے کا خواب دیکھیں۔ ہمیں اُس دنیا کا جائزہ لینا ہوگا جس کی بنیاد عالمِ مادیات کے جادوگروں نے رکھی ہے۔ میں مانتی ہوں کہ صرف ایک فلسفی کی تنقید پر کان دھرے جائیں گے۔ میں فلسفی نہیں ہوں۔ نہ ہی میرے قارئین اُن علوم کے طالب علم ہیں جنہیں شاہی اور سرکاری سر پرستی حاصل ہے۔ لیکن فلسفہ و فکر شاہراہِ خواص کا نام نہیں۔ یہ شاہراہ ِ عام ہے کیونکہ ہر علم اسی کے بطن سے جنا ہے۔ فلسفے کے شاہراہِ عام سے گزرے بغیر کسی مقام پر نہیں پہنچا جا سکتا۔
فلسفہ فکر ی اصول و قواعد متعین کرتا ہے۔ صوفیانہ کردار کی نوعیت اور صحت کو سمجھنے کے لیے ہمیں پہلے اُس اصول پر بات کرنی ہوگی جس پر سائنسی دنیا کی بنیاد رکھی گئی ہیں۔ ہم آغاز کریں گے کچھ ابتدائی نقاط سے۔ اُن حقائق سے جنہیں نظر انداز کیے بغیر دنیوی کا میابیاں سمیٹنے کا خواب نہیں دیکھ سکتے۔
بلاشبہ انسانی فکر کا آغاز تصورِ ذات سے ہوتا ہے۔ اس لیے ”میں” نکتۂ آغاز ہے۔ جو عورت یہ تحریر لکھ رہی ہے۔ کچھ لوگ جو اِسے پڑھ رہے ہیں۔ اور لاکھوں دوسرے انسان اپنی ذات کا شعور رکھتے ہیں۔ کوئی کچھ نہ مانے لیکن یہ ضرور مانتا ہے کہ ”میں ہوں”۔ یہی یقین کا نکتہ آغاز ہے۔ کوئی غیر مادی موضوعات پر تفکر فرمانے والا فلسفی اس بات کا منکر نہیں ہوسکتا کہ وہ وجود رکھتا ہے۔ یقین کی عمارت اُس وقت متزلز ہوتی ہے جب سوال دوسرے کے وجود کا ہو!
یہ ”میں”۔ یہ شعورِ ذات۔ جو جسم میں اس طرح بند ہے جیسے سیپ میں موتی۔ ایک ایسا حساس آلہ ہے جو تاثرات اور پیغامات وصول کرتا ہے۔ ہم حواس خمسہ سے لیس ہیں اور ہمارا سب سے زیادہ انحصار چھونے کی حس پر ہے۔ اس کے ذریعے ہم نتائج کا فوری پتہ چلا لیتے ہیں۔ ہماری آنکھیں بصری ارتعاش وصول کرنے کے آلات ہیں۔ ان کے علاوہ صوتی ارتعاشات وصول کرنے کے لیے ہمارے پاس کان ہیں۔
آنکھ، کان اور دیگر حسی تجربات کا کیا مطلب ہے؟ ہم اس کا یہ جواب دیں گے کہ حواسِ خمسہ کے ذریعے ہم خارجی دنیا کا علم حاصل کرتے ہیں۔ یہ نہ ہوں تو ہم کچھ نہیں جاسکتے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ذات حواس کی شہادت کی روشنی میں فیصلہ کرتی ہے۔ عام آدمی کے نزدیک حواس کی کھڑکیوں سے نظر آنے والی دنیا ہی حقیقی دنیا ہے۔ حواس پیغامات اور ارتعاشات وصول کرتے ہیں اور انسان کا نروس سسٹم اُن کی تشریح کرتا ہے۔ ذات ان اشارات پر ٹوٹ پڑتی ہے۔ جیسے ہجوں کے کھیل میں طالب علم حروف پر دھاوا بول دیتے ہیں۔
ہمارا باطنی نظام خارجی حواسی اشارات کو ترتیب دینے اور تردید و توثیق کے علاوہ انہیں ہم آہنگ کرتا ہے۔ ایک سریع الرفتار سادگی کو زیرِ کار لاتے ہوئے ذات خارجی اشارات کو موضوعی رنگ میں نہا دیتی ہے۔ وہ ہمیں بتاتی ہے کہ ۔۔ ستارے روشن ہیں۔۔ گھاس سبز ہے۔۔ وہ ڈیوڈ ہیوم کی طرح ذات یہ سمجھتی ہے کہ:
”حقیقت تصورات اور تاثرات کی دنیا کے سوا کچھ نہیں۔”
غور کرنے پر ہم پر یہ راز کھلتا ہے کہ خارجی کائنات دراصل ہماری ذات کی پرچھائی ہے۔ بالفاظ دیگر خارجی کائنات ذات کے کینوس کا انفجار ہے، پھیلاؤ ہے۔ اس لیے خارجی کائنات آرٹ کا شاہکار ہے تو سائنسی حقیقت نہیں۔ جس طرح فنون لطیفہ کے کسی شاہکار کا تجزیہ خطرناک اور اصول ہائے جمالیات کی توہین ہے، بالکل اسی طرح خارجی کائنات کا تجزیہ خطرناک اور تباہ کن ہے۔ اصحابِ بصیرت جان چکے ہیں کہ ”ہمارا اور خارجی کائنات کا رشتہ خالصتاً جمالیاتی، علامتی اور استعاراتی نوعیت کا ہے۔”