یاسر چٹھہ
ہر چند، کچھ سالوں دہائیوں سے ان گولیوں کا چلانا تو وطنِ عزیز میں ایک تہوار سا بن گیا ہے۔ تہوار تو کچھ لمبے وقفے بعد آتے ہیں، تہوار کہنا شاید غلط ہوگا۔ بلکہ یہ گولیاں تو ان کا اوڑھنا بچھونا اور بارود کی بَرت تو اُن لوگوں کی عادت سی بن گئی ہے۔ آئے روز، بلکہ گھنٹوں، لمحوں کے وقفے کا صبر نہیں کرتیں یہ گولیاں۔ ان گولیوں کے برسنے کی اور ان کی وجوہات کے تُخموں کی لمبی تاریخ بڑی لمبی ہے۔ یہ گولیاں ان کی ہیں جو امن کے دائرے میں کسی کو لانے کی سکت تو خیر کیا رکھیں گے۔ یہ گولیاں اور بندوقیں تو ان کی ہیں جن کے دائروں میں موجود رہنے دینے کے اصول بڑے واضح اور کرخت ہیں۔ یہ زیادہ نا مانوس نہیں ہیں۔ یہ جو آج دائرے کے خود ساختہ محافظ ہیں انہیں کے متعلق انشا جی مرحوم نے اپنی “اردو کی آخری کتاب” گزرے سالوں میں میں اشارہ کیا تھا۔ جس کا مفہوم یہ تھا کہ پہلے دائرہ اسلام پھیلتا رہا اب اس دائرہ سے لوگوں کو باہر کی جانب دھکے دینے کے چلن کا زور ہے۔ بس اگر آپ کے مُنھ پر نظر آنے والے بالوں کا قد ان کے مُنھ پر اُگے بالوں کی فصل کے طول و عرض کے برابر نہیں تو آپ اس دائرہ سے باہر؛ اور گولی پر آپ کا نام لکھے جانے کی نوید تیار مل سکتی ہے۔
اس برصغیر میں اسلام کن کی شیریں گفتاری سے پھیلا؟ وہ کون تھے؟ اور ان کے طریقے اور انداز کیسے تھے؟ ساتھ ہی تاریخ مختلف وقتوں میں گواہی دیتی رہی ہے کہ کون لوگوں کو اسلام کے دائرے میں انسیت و محبت سے داخل کرتے آئے اور کون ایسے تھے جن کو اسلام کے دائرے میں داخل ہو جانے والوں کے اندازِ مسلمانی میں خامیاں نظر آتی رہیں۔
آئیے ذرا ایک حوالے کے طور پر ہمارے ساتھ دریائے ستلج کے کنارے آئیے۔ کچھ نظر آیا؟ نہیں! خیر ہے، ایسا ہو ہی جاتا ہے۔ آٹھ صدیوں کی مسافت آسان تھوڑی ہوتی ہے۔ اب ذرا سفر کرنے کا طریقہ بدلئے۔ ماتھے پر چُنی ہوئی آنکھیں بند کرلیجئے۔ کچھ لمحوں کے لئے دل کی آنکھیں کھولئے۔ اب نظر آنا شروع ہوگیا نا۰۰۰ بہت خوب! یہ اجودھن کا مقام ہےاور آپ کے سامنے بابا فرید گنج شکر ہیں۔ پنجاب کے اس ارضی خطے میں مقامی لوگ حرف نا آشنا ہیں۔ اگر تو بابا صرف لفظوں اور حرفوں کے سلاسل کے قیدی ہوتے، اور نعوذ باللہ ہاتھ میں تلوار لئے ہوتے، تو کہنا تو بنتا تھا نا کہ، ” کلمہ پڑھ، نہیں تو گردن اُڑوا لو!”۔ اور آج کے حالات میں یہ منظر کو ڈھالوں تو گولی مارتا، بارود کو سینے پر باندھ کر آس پاس کے معصوموں کو کہتا، “کلمہ پڑھ لو، اور ٹھاہ”۔ آن کی آن میں اپنے سمیت کئی انسانوں کے خواب، کئی آدرش اور کتنی وسیع و بسیط دل کی کائناتوں کو اچھاڑ پچھاڑ دیتا۔ پر نہیں، یہ اور مقام ہے۔ بابا فرید گنج شکر بڑے پڑھے لکھے، نفیس اور تجربہ و تربیت کے حامل انسان تھے۔ مقامی لوگ غیر مسلم تھے اور آپ تھے عالی مرتبت عالم فاضل افغانی بزرگ۔ آپ بہت سی زبانوں؛ عربی، فارسی، اور ترکی میں انتہائی مہارت رکھتے تھے۔ لیکن اجودھن کا چیلنج بہت کٹھن تھا۔ علمیت، نفاست، قابلیت اور روحانی عظمت اپنے پاؤں کی اُنگلیوں پر کھڑی تھی۔
لیکن بابا فرید نے آسان رستہ چُنا۔ آپ نے سینہ بہ سینہ چلنے والی لوک شاعری کو اپنے ذریعہِ اظہار بنانے کا فیصلہ کیا۔ جلد ہی دل سے نکلی بات دل تک گئی۔ تلوار، گولی، بارود کا وجود ان کے آس پاس کہیں نا تھا۔ لوگ آپ کی طرف کھینچے چلے آئے۔ بابا فرید (رح) کا یہ انسان کشش اسکول جماعت خانہ کہلایا۔ بابا کے اردگرد تمام زندہ صوفی کیا، زاہد کیا، بھکاری، بھگت، بھانڈ، جوگی اور ناتھ جمع ہوگئے۔ اسلام قبول کروانا بابا کا مشن نا تھا، بلکہ صرف دلوں میں گھر کرنا مقصد تھا۔ لیکن پنجاب کے بہت سے قبائل کہتے ہیں کہ ان کے اجداد کو اسلام کے دائرے میں بابا فرید لائے۔ یہ تھے دائرے بڑے کرنے والے لوگ تھے۔
لیکن پاس ہی بڑے دائروں کو صاف کرکے ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ سے تعمیر کردہ چھوٹے دائروں کے رسیا بھی موجود تھے۔ بابا فرید کی بڑھتی مقبولیت سے اجودھن کے قاضی کو حسد کی آگ نے آن گھیرا۔ اس قاضی نے جاگیرداروں اور سرکاری عہدے داروں کو اکسایا۔ ملتان کے علماء سے اس پڑھے لکھے بابا فرید (رح) کے خلاف گولی کا جدِ امجد، یعنی فتوٰی، لینے کی کوشش کی کہ یہ بابا مقامی جانگلی بولی میں شاعری پڑھتا ہے، مسجد میں وقت گزارنے کے باوجود موسیقی کی اور رقص کی اجازت دیتا ہے۔
تاریخِ شوق میں اہلِ دل پر کیا کیا نہیں گزرا جو آج نیا نیا لگ رہا ہو۔ بابا فرید (رح) کے ہی ایک شاگرد خواجہ نظام الدین اولیاء کی سماع اور موسیقی کی قدر و قیمت، دائرے سے لوگوں کو باہر کرنے والوں کی آنکھوں کو بالکل نا بھاتی تھی۔ ان کی نظر میں یہ کھلی بے راہروی اور دائرے سے انحراف پسندی تھی۔ یہ دائرے والے، خواجہ نظام الدین اولیاء کو سبق سکھانے کے درپے تھے۔ یہ موقع انہیں غازی ملک کی جانب سے خواجہ کے معتقد سلطان ناصر الدین خسرو خاں کے قتل کے بعد حاصل ہوگیا۔ غازی ملک نے یہ قتل اسی طرح کیا تھا جس طرح ہماری ماضی قریب کی سیاسی تاریخ میں تحریک نظامِ مصطفٰے کی مدد سے جنرل ضیاءالحق نے ایک نظام کا قتل کر دیا تھا۔ اُس وقت کا اس ضیاء الحق، یعنی غازی ملک، نے رجعت پسندوں کے تعاون سے سلطانِ عہد کو قتل کیا تھا۔ اس قتل کے پس منظر میں غازی ملک بطور سلطان غیاث الدین تغلق، دہلی کا حکمران بنا۔
سلطان غیاث الدین تغلق کے عہد میں مذہبی علماء کو اقتدار حاصل ہوا۔ آتے ہی ان علماء نے خواجہ نظام الدین اولیاء پر تنقید کے تیر برسانے شروع کردیئے۔ شرعی اصولوں سے رُو گردانی کا الزام لگایا گیا اور موسیقی سے خواجہ کے شغف کو بطور ثبوت پیش کیا گیا۔ ان علماء کے احسان مند، نئے سلطان نے پوری سلطنت سے جمع شدہ ۲۵۳ علماء کی اس بابت تحقیقی عدالت تشکیل دی۔ عدالت کے فیصلے کی بارے میں کوئی واضح اور مصدقہ اطلاعات موجود نہیں ہیں۔ لیکن وقت کے چال چلن کا اندازہ ضرور کیا جا سکتا ہے۔ لکھنے کا یہ مقام زیادہ لمبی تحریریں اپنی کوکھ میں سنبھالنے سے قاصر ہے، تھوڑے اختصار کا سہارا لیتے ہیں۔
خواجہ نظام الدین اولیاء پر علماء کا الزام ان کی سماع و موسیقی سے لگن تھی۔ یہ موسیقی کون سی تھی؟ قوالی کیا ہے؟ یہ سماع کا ہی عام مستعمل نام ہے۔ یہ نبی محترم (صلعم) کے اقوال کو عام شخص کے ذہنی مقام تک گھول کر کانوں سے دل و دماغ تک پہنچانا ہے۔ یہ طریقہ خاصوں پر چلتا ہے اور عامیوں کے لئے بھی اکسیر ہے۔ برصغیر میں امیر خسرو کی شخصیت قوالی کی صنف کا استعارہ ہے۔ شمولیت پسندی، اس زمین کا ہو جانے کی روش۔ لفظ سے کم، لیکن چیزوں کی روح سے زیادہ رغبت۔ استعارے سے زیادہ لگاؤ، لفظ کی روح کی ہر پہنائی سے الفت، احساس کا زیادہ خیال! خسرو کے والد ترک تھے اور والدہ مقامی ہندوستاں کی، لیکن آپ نے مقامیت چُنی کہ لوگوں سے جُڑنا مقصود تھا اور دل کو محترم تھا۔
لمبی جَست بھرتے ہیں! امجد صابری نے بھی اپنی آسٹریلیا میں جاری اعلٰی تعلیم چھوڑی۔ اس عشق و ذکر کے زمینی اور انسان دوست پیشے، قوالی اور سماع، کو تھام لیا کہ والد کے دنیا سے کوچ کرنے سے روایت میں خلل نہ واقع ہو۔ اس انسان نے قوالی کو اس نسل میں بھی قبولِ عام کا درجہ دلوایا جو بدیسی موسیقی کو ہی فطری موسیقی سمجھتی تھی۔ کیسی ذوق کی بازیافت کی بلکہ تجدید کی، لیکن عین فطری طریقے سے کہ کچھ بدلا سا لگا بھی نہیں لیکن اس صنف کو وقت سے ہم آہنگ بھی کر دیا۔ آج بھی اس انسان کی گائی ہوئیں قوالیاں اگر سننے والوں کی آنکھوں میں آنسو لانے پر قادر تھیں تو مطلب یہ ہوا کہ وہ سچا تھا۔
اس امجد صابری نے محبت کے دائروں کی خواجگان کی مقدس روایت کو قائم رکھا تھا۔ لیکن وہ جو دائرے میں موجودگی کے اصول بزورِ بندوق بناتے ہیں، انہیں یہ کیسے منظور تھا۔ انہوں نے اپنی گیارہ غلیظ گولیاں محبت و الطاف سے بھرے اس دل میں اتار دیں۔ ظالم، سوچتے تو ہوں گے کہ کامران لوٹ چلے ہیں۔ لیکن سرا سر خام خیالی ہے اُن کی۔ گولیوں سے آدرش کب مرتے ہیں۔ وہ تو اور اونچے دلوں کے گھونسلوں میں جا بیٹھتے ہیں۔ در اصل انہیں ناکام ہی ہونا ہے کہ نفرت کی فطرتِ رزیلہ میں داخل ہے کہ اسے پذیرائی نہیں مل سکتی۔
آج گو کہ ہم امجد صابری کا نوحہ لکھنے پر مامور ہیں۔ لیکن اسی نوحے میں، کیا وہ دائرے سے باہر پھینکنے والے قوتیں ادراک کر سکتی ہیں کہ کتنی اپنائیت ہے، کس قدر پیار ہے، کس قدر محبت ہے۔ کن کی نسبت اسے نصیب ہے۔ کاش، اے کاش، ان دائرے کے اندر بیٹھے بندوق برداروں، گولی کے پجاریوں اور بارود کو سینوں پر ہار کئے ان قابضینِ دینِ اُنسیت کو بھی کبھی تھوڑی سی لذت محبت نصیب ہو تو یہ بھی انسانوں کے درجے کو آن پہنچیں۔
تحریر لمبی ہوتی جا رہی ہے، لیکن ایک چھوٹا سا واقعہ تو سنئے۔ بی بی سی ریڈیو کے مشہور براڈ کاسٹر رضا علی عابدی کہتے ہیں کہ ایک دفعہ اُن کا میانوالی جیل کا دورہ ہوا۔ کچھ دیر وہاں رکنے کے بعد ماحول سے دَم گُھٹنے لگا اور جانے کی اجازت چاہی۔ جانے ہی لگے تھے کہ وہاں کے جیل کے عملے میں موجود ایک صاحب بولے، اگر آج بُھولے بھٹکے آ ہی گئے ہیں تو پھانسی کے مجرموں کی کال کوٹھری اور پھانسی گھاٹ بھی دیکھتے جائیے۔ ویسے کیسی عجیب اور وحشت بھری دعوت تھی! پر ظاہر ہے جو کسی کے پاس ہوگا اُسی سے ضیافت دے گا۔ باقی اب عابدی صاحب کی زبانی سنئیے:
“کئی مجرم سر جھکائے قرآن پڑھ رہے تھے، اور انگریزوں کے زمانے کے پھانسی گھاٹ کو دیکھ کر خیال آیا کہ یہاں آ کر ایک ہی شخص خوش ہوتا ہوگا، یعنی ہر پھانسی پر رقم پانے والا جلّاد۔ لیکن اب تو کتنے ہی لوگ رقم لئے بغیر بھی یہ فرض خوشی خوشی انجام دے رہے ہیں۔”
آج کل کے حالات میں رضا علی عابدی صاحب کا آخری جملہ کتنا گونجتا محسوس ہوتا ہے۔ کس قدر آسان نرخوں پر قیمتی سرمائے دوسرے جہانوں کو منتقل ہو رہے ہیں۔
رَبّنا تقبلنا!