مشک پوری کی ملکہ کے باب میں چند تاثرات

مشک پوری کی ملکہ کے باب میں چند تاثرات

از، محمد عاطف علیم

سید محمد اشرف بنام محمد عاطف علیم

۱
۷دسمبر، ۲۰۱۵
سلام و رحمت
’’مشک پوری کی ملکہ‘‘ ۔۔۔واہ!
کیا خوبصورت وحشت ہے کہ ۱۳۰ صفحات میں بکھری پڑی ہوتی اگر آپ کے فنکار ہاتھوں نے اسے سلیقے سے اس ناول میں باندھ نہ لیا ہوتا۔یہ دو جنگلوں کی کتھا ہے۔ایک وہ جو زمین پر ہے اور ایک وہ جو انسان کے اندر اگ آیا ہے۔آپ نے دونوں کا حق ادا کردیا۔زبان و بیان پر ایسی ماہرانہ قدرت ان دنوں بہت کم کہانیوں میں نظر آتی ہے۔

۲
۱۰ دسمبر، ۲۰۱۵
عاطف علیم صاحب،
فیس بک پر رومن میں لکھ کر دل نہیں بھرا۔
’’مشک پوری کی ملکہ ‘‘ میں شہر، جنگل، انسان، انسانی جذبے، جانور، محبت اور وحشت کی جزئیات نگاری کمال کی ہے اور اس سے بڑا کمال یہ ہے کہ یہ جزئیات نگاری اشیا کی کھتونی نہیں بلکہ قدم قدم پر کہانی کو سہارا دیتی ہوئی آگے بڑھتی ہے۔

جم کاربٹ اور سید رفیق حسین کو میں نے تفصیل سے کئی کئی بار پڑھا ہے۔ میں اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ جنگل کا اتنا سچا اور خوبصورت بیان میں نے اردو میں اب تک نہیں پڑھا تھا۔جنگل کی تفصیل سے متعلق آپ کے کچھ پیرا گراف تو اتنے خوبصورت ہیں کہ آنکھ بند کرکے انہیں تصور میں لاکر تادیر اسی حالت میں رہنے کو جی چاہتا ہے۔طویل مدت تک عمیق مشاہدے کے بغیر یہ دولت حاصل نہیں ہوتی۔یہ سب ساز و سامان میسر آبھی جائیں تودل کی آگ کے بغیر وہ معرکہ وجود میں نہیں آتا جواس کہانی کے ذریعے وجود میں آیا ہے۔دل کی گہرائیوں سے آپ کیلئے تحسین کے الفاظ نکل رہے ہیں۔ایک دور افتادہ شخص کی مبارکباد قبول فرمائیں۔

میرا نام سید محمد اشرف ہے۔ مارہرہ شریف ضلع ایٹہ اترپردیش کا رہنے والا ہوں۔ آج کل کلکتہ میں کمشنر انکم ٹیکس ہوں۔فکشن پڑھنے کا شوق مدت سے ہے۔کبھی کبھی کچھ الٹا سیدھا لکھنے کی کوشش بھی کرتا ہوں۔ع:
ولے مجھے تپش دل مجال خواب تو دے
فضائل کے بعد مصائب کا بیان بھی ضروری ہے۔لیکن یہ صرف ایک تکنیکی بات ہے ۔اس سے آپ کی کہانی کے حسن پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔
بارہ بور کی بندوق تو ہوتی ہے رائفل نہیں ہوتی۔میری معلومات کے مطابق اگر بارہ بور بندوق ڈبل بیرل ہے تو اس سے بیک وقت تین فائر نہیں ہوسکتے۔ سنگل بیرل میں البتہ میگزین کا اہتمام بھی ہوتا تھا۔

بڑے شکار (شیر، ہاتھی، بھینسا، گینڈا وغیرہ) کے واسطے جنگل میں 375 بور سے کم کی رائفل سے کام نہیں چلتا۔ جم کاربٹ البتہ 256 بور سے شکار کھیلتے تھے لیکن۔۔۔ وہ جم کاربٹ تھے۔
خدا کیلئے ان تفصیلات کو خوردہ گیری پر محمول نہ کیجئے گا۔
آپ کا قدر دان
سید محمد اشرف

حروف وضاحت:

میں نے سیّد محمد اشرف صاحب کے محبت ناموں کو جو مجھے بذریعہ ای میل موصول ہوئے تھے حرف بحرف نقل کردیا ہے، ایک حرف ادھر نہ ایک حرف ادھر۔’’مشک پوری کی ملکہ‘‘ کے بارے میں آپ نے جن جذبات کا اظہار کیا ہے اس کے جواب میں بعد از اظہار تشکر اس کے سوا کیا کہا جاسکتا ہے کہ یہ ان کا بڑا پن ہے وگرنہ فارسی محاورے کے مطابق من آنم کہ من دانم۔البتہ ان سطور میں وہ اپنے بڑے پن کی ایک شہادت ضرور دے گئے ہیں جب اپنے بارے میں وہ لکھتے ہیں کہ:
’’کبھی کبھی کچھ الٹا سیدھا لکھنے کی کوشش بھی کرتا ہوں۔‘‘

ملاحظہ ہو کہ اس عجز کا اظہار کون کررہا ہے؟ وہ جو ’’نمبردار کا نیلا‘‘ اور آخری سواریاں‘‘ جیسے کامیاب ناولوں اور متعدد یاد گار کہانیوں کا خالق ہے ،جو بذات خود ایک زندہ تخلیقی اسلوب کا خالق ہے اور جس کے قدردانوں کے ہجوم میں میں بھی کہیں نہ کہیں ضرور موجود ہوں۔

ایک وضاحت اور کہ سیّد صاحب نے ’’طویل عرصے تک عمیق مشاہدے‘‘ کی بات کی ہے ۔اس حوالے سے میں یہی کہنا چاہوں گا کہ’’مشک پوری کی ملکہ‘‘ کے حوالے سے میرا مشاہدہ صرف اس جنگل تک محدود ہے جو خود میرے اندر سانس لے رہا ہے۔سچ یہی ہے کہ میں نے ایوبیہ نیشنل پارک کے جنگل کو نہیں بلکہ خود اپنے اندر کے جنگل کو لکھا ہے۔

ایک بات اور کہ میں سمجھتا ہوں کہ فکشن لکھنے کی جسارت تبھی کرنی چاہیے جب سخت ریاضت کے نتیجے میں آپ کے اندر اتنی پختگی اور حساسیت پیدا ہوجائے کہ آپ آنکھ بندکرکے تصور کریں تو کوئی کردار یا لوکیل ہر ممکن تفصیلات کے ساتھ زندہ ہوکر آپ کے سامنے آکھڑا ہو۔البتہ ’’ دل کی آگ‘‘ بہرحال اس کہانی کی تخلیق کے دوران میری مدد گا ررہی ہے۔جہاں تک جنگل میں شکار کیلئے موزوں اسلحہ کی بات ہے تو اس جانب توجہ دلانے پرمیں ان کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا۔مجھ سے واقعی یہ سہو ہوا۔اس تکنیکی غلطی کا میرے پاس کوئی عذر موجود نہیں ہے کہ اپنے موضوع کے بارے میں مکمل تحقیق و تفتیش بہرحال فکشن نگار کا فرض ہے۔
احقر:محمد عاطف علیم

About محمد عاطف علیم 26 Articles
محمد عاطف علیم شاعر، افسانہ اور ناول نگار ہیں۔ مشک پوری کی ملکہ اور گرد باد ان کے اب تک آنے والے ناول ہیں، جنہیں قارئین اور نقادوں میں بہت پذیرائی ملی ہے۔