ایک عہد ساز ادیب اور مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی دنیا سے روٹھ گئے

aik Rozan writer
احمد سہیل ، صاحب مضمون

ایک عہد ساز ادیب اور مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی دنیا سے روٹھ  گئے

از، احمد سہیل

“مصائب تو مرد بهی جیسے تیسے برداشت کر لیتے ھیں مگر عورتیں اس لحاظ سے قابل ستائش ھیں کہ انہیں مصائب کے ساتھ ساتھ  مردوں کو بهی برداشت کرنا پڑتا ھے۔” مشتاق احمد یوسفی

معروف ادیب اور ممتاز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی 94 برس کی عمر میں کراچی کے ایک نجی ہسپتال میں انتقال کر گئے، وہ کافی عرصہ سے علیل تھے۔ مشتاق احمد یوسفی کو کچھ عرصہ قبل نمونیا ہوا تھا اور طبیعت زیادہ خراب ہونے کے باعث انہیں وینٹی لیٹر پر منتقل کیا گیا تھا۔ ان کی دو بییٹاں اور دو بیٹے ہیں۔ ایک بیٹا امریکہ میں رہائش پذیر ہے۔ ان کی رہائش کراچی میں ڈیفینس سوسائٹی میں تھی۔ ان کی نماز جنازہ ڈیفینس سوسائٹی کی سلطان مسجد میں ہوئی۔

حکومت پاکستان کی جانب سے انہیں ادبی خدمات پر ستارۂ امتیاز اور ہلال امتیاز سے نوازا گیا تھا۔ مشتاق احمد یوسفی کراچی کی اہم ادبی تقریبات میں مضامین پڑھ کر اپنے مداحوں سے داد لیتے رہے ہیں۔ خرابیِ صحت کے بعد مشتاق یوسفی نے محفلوں میں مضامین پڑھنا چھوڑ دیے تھے۔ مشتاق احمدیوسفی کا شمار21 ویں صدی کے اہم ترین ادیبوں میں ہوتا ہے۔

4 اگست 1923ء اردو کے عظیم مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کی تاریخ پیدائش ہے۔ مشتاق احمد یوسفی ٹونک (بھارت) میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے باپ دادا جے پور میں نسلوں اور پُشتوں سے آباد تھے۔ یہ علاقہ حرف عام میں راجپوتانہ بھی کہلاتا ہے۔

ظفر سید نے اپنے مضمون میں لکھا ہے:

“بیسویں صدی کے اولین عشروں کی بات ہے کہ انڈین شہر جے پور سے عبدالکریم یوسف زئی نامی ایک شخص کسی کام کے سلسلے میں پشاور گیا۔ لیکن جب انھوں نے وہاں اپنا تعارف یوسف زئی پٹھان کے طور پر کروایا تو مقامی لوگ ہنس دیے۔

وجہ یہ تھی کہ عبدالکریم کا خاندان قبائلی علاقہ چھوڑ کر کئی صدیاں قبل ریاست راجستھان میں جا آباد ہوا تھا اور وہ شکل و صورت، زبان، لہجے اور چال ڈھال سے مکمل طور پر مارواڑی روپ میں ڈھل چکے تھے۔

عبدالکریم، جو جےپور کے پہلے گریجویٹ مسلمان تھے، اس واقعے سے اس قدر دل برداشتہ ہوئے کہ انھوں نے اپنا نام ہی یوسف زئی سے بدل کر یوسفی کر ڈالا۔ عبد الکریم کے ہاں چار اگست 1923 کو ایک بچے کی ولادت ہوئی جس کا نام مشتاق احمد خان رکھا گیا۔۔۔”  (بی بی سی 20 جون 2018)

ان کے والد صاحب جے پور کے میئر بھی رہے چکے ہیں۔ یوسفی صاحب کا حلقۂِ احباب بے حد وسیع تھا ۔ آپ نے ابتدائی تعلیم راجپوتانہ، ایم اے (فلسفہ) آگرہ یونیورسٹی، ایل ایل بی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (AMU) سے اقتصادیات میں ایم اے کیا۔ پی سی ایس کا امتحان پاس کرکے 1946 میں پی سی ایس کر کے مشتاق احمد یوسفی ڈپٹی کمشنر اور ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر مقرر ہو گئے۔ اسی سال ان کی شادی ادریس فاطمہ سے ہوئی جو خود بھی ایم اے فلسفہ کی طالبہ تھیں۔ 2007 میں 60 برس سے زیادہ کی رفاقت کے بعد ان کی اہلیہ ادریس فاطمہ کا انتقال ہو گیا۔

والدین کے ہجرت کر نے کی وجہ سے انہوں نے بھی ١٩٥٠ میں ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان کے کراچی شہر میں سکونت اختیار کی اور مسلم کمرشل بینک میں ملازمت اختیار کی۔ اور پھر بنکاری کے شعبے کو ذریعہ معاش بنایا۔ مشتاق احمد یوسفی 1950ء سے مختلف بینکوں سے وابستہ رہے۔ مسلم کمرشل بینک کے ڈپٹی جنرل منیجر کے عہدے تک پہنچے۔ 1965 میں الائیڈ بینک بطور مینیجنگ ڈائریکٹر جوائن کیا۔ 1974 میں یونائیٹڈ بینک کے صدر بنے۔ 1977 میں پاکستان بینکنگ کونسل کے چیئرمین بنے۔ 1977ء میں وہ پاکستان بینکنگ کونسل کے چیئرمین کے عہدے پر فائز ہوئے، بینکنگ کے شعبے میں اعلیٰ خدمات پر انہیں قائد اعظم میموریل میڈل سے نوازا گیا۔

مشتاق احمد یوسفی کا ادبی سفر 1900میں مضمون ”صنف لاغر” سے شروع ہوتا ہے جو لاہور سے شائع ہونے والے رسالہ ”سویرا” کی زینت بنا۔ اس طرح مختلف رسالوں میں گاہے گاہے ان کے مضامین شائع ہوتے رہے ۔1961میں مختلف انشائیوں اور مضامین کو یکجا کر کے مشتاق احمد یوسفی کا پہلا مجموعہ ”چراغ تلے” کے نام سے منظر عام پر آیا۔ اب تک ان کے کل پانچ مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ جن کی فہرست اس طرح ہے۔ ”چراغ تلے” 1961، ”خاکم بدہن”1970، ”زرگزشت” 1976، ”آب گم” 1989اور ”شام شعرِ یاراں”2016  میں۔


متبادل آراء کے لیے دیکھیے: مزاح نگاری اور جمہوری اخلاقیات

ہمارے ٹی وی چینلوں کے مزاحیہ پروگراموں کا معیار


یہ ساری کتابیں اپنی تمام تر مزاحیہ چاشنی کے ساتھ اردو زبان وادب کے قارئین کو مسحور کیے ہوئے ہیں۔ مشتاق احمد یوسفی کا نام اس لیے اہمیت کا حامل ہے کہ انہوں نے بھی ہجرت کی کرب ناکیوں کو اپنے تخلیقی شعور کے ذریعے طنزیہ ومزاحیہ ادب کا حصہ بنا دیا۔ ان کی تحریروں میں انشائیے، خاکے، آپ بیتی اور پیروڈی سب کچھ شامل ہے اور ان سب میں طنز و مزاح کی وہ پرلطف روانی موجود ہے جسے پڑھ کر اردو زبان کے مزاحیہ ادب کا ہر قاری مشتاق احمد یوسفی کا گرویدہ نظر آتا ہے۔

یہاں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ انسان محض اپنی ذات میں محدود ہوکر زندگی کا حسن کشید نہیں کرسکتا، اسی لیے دوستی کی اہمیت اور افادیت زندگی کے کسی مرحلے پر بھی رد نہیں کی جاسکتی اور ایسے شخص کے مفلس ہونے میں کیا شک ہوسکتا ہے۔ جس کا کوئی دوست نہ ہو، یوسفی صاحب آپ ہر گز بھی مفلس نہیں ہیں ازراہ مذاق، وہ انگریزی ادب میں زیادہ پسندیدہ لکھنے والے مارک ٹوین (Mark Twain) ہیں اسٹیفن لیکاک (Stephen Leacock) سے بھی متاثر ہیں اور اردو ادب میں غالب کے اثرات ان کے فکر و فن پر زیادہ غالب ہے۔

یوسفی مرحوم کا کہنا ہے کہ لوگ کیوں، کب اور کیسے ہنستے ہیں، جس دن ان سوالوں کا صحیح صحیح جواب مل جائے گا انسان ہنسنا چھوڑ دے گا۔ یوسفی صاحب کہتے ہیں کراچی والے آگے ہو کر کراچی کی برائی کرتے ہیں لیکن کوئی اور ان کی ہاں میں ہاں ملا دے تو خفا ہوجاتے ہیں۔ بے ساختہ ہنسی خالصتاً فطری ردعمل ہے، یہ جذبہ کن وجوہات کے زیرِ اثر انسان کے اندر وقوع پذیر ہوتا ہے، کافی پیچیدہ اور دیرینہ سوال ہے۔ زمانۂِ قدیم سے ہی ہنسی کے اظہار پر بحث ہوتی رہی ہے۔ John Keats کی ایک نظم Why did The Psychology of Laughter جو کہ گریگ (J.Y.T Garag) کی معروف کتاب ہے اس میں ایسی تین سو تریسٹھ (363) کتابوں کا حوالہ دیا گیا ہے جو ہنسی سے متعلق بحث کرتی ہیں۔ اندروں انسان جب حبس کی فضا جنم لیتی ہے تو اچانک کسی صورت وہ جام جذبات سے لبریز ہوجاتا ہے اور وہ بے ساختہ ہنسنے لگتا ہے۔‘‘

ہنسی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب کوئی شے ہوتے ہوتے رہ جائے اور انسانی توقعات ایک بلبلے کی طرح پھٹ کر ختم ہو جائیں۔ تاہم یہ ہنسی کی کوئی حتمی تعریف نہیں ہے درست ہے کہ ’’ہنسنا‘‘ خوشی کے احساس کا نام ہے، اور احساس کوئی مجسم چیز نہیں ہے جسے مثال کے طور پر ہاتھ  سے چھو کر پیش کیا جا سکے۔ لیکن یہ سوچنے کی بات ہے کہ کیا ہر ہنسی، خوشی کا اظہار ہوا کرتی ہے، کیوں کہ جو لوگ اپنے دکھ درد اپنے دل میں چھپا کر ہنس رہے ہیں ان کی ہنسی، دل لگی اور مذاق کو کیا نام دینا چاہیے۔

مزاح نگاری کے اہم حربوں میں مزاحیہ صورت واقعہ (humor of situation) مزاحیہ کردار نگاری “humor of character” لفظی مزاح (pun) تعریف (parody) موازنہ (comparison) تشبیہ (simile) اور قول محال (paradox) شامل ہوتے ہیں۔ ان کا معاشرتی شعور بہت گہرا تھا اور اردو معاشرے کی مزاحیہ اور طنزیہ تناظر میں تنقید حیات ہے۔ جس کو پڑھ کر ان کا قاری ہنستا بھی ہے اور روتا بھی ہے۔

یوسفی کے بنیادی موضوع بدلتی ہوئی معاشرتی صورتِ حال کا تجزیہ پیش کرنا ہے، گزرتے وقت کا ناسٹیلجیا (جسے انھوں نے ‘یادش بخیریا’ کا نام دیا ہے) ان کی تحریروں کا اہم جزو ہے۔

اردو مزاح نگاروں کی اکثریت قہقہہ آور صورتِ حال اور مضحکہ خیز کرداروں کی مدد سے مزاح پیدا کرتی ہے۔ اس سلسلے میں رتن ناتھ سرشار (خوجی)، امتیاز علی تاج (چچا چھکن)، پطرس بخاری کے مضامین، کرنل محمد خان کی بجنگ آمد، شفیق الرحمٰن اور ابنِ انشا کی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ انگریزی اصطلاح میں اسے ‘سلیپ سٹِک کامیڈی’ کہا جاتا ہے۔

مشتاق احمد یوسفی نے اپنی راہ ان سب سے الگ نکالی۔ چند استثنائی مثالوں کو چھوڑ کر ان کے ہاں مزاح صورتِ حال کی منظرکشی سے نہیں، بلکہ صورتِ حال پر فلسفیانہ غور و فکر اور گہرا اور چبھتا ہوا تبصرہ کر کے پیدا کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں ان کی فلسفے کی تعلیم ضرور کام آئی ہو گی۔

وہ کرداروں کی اچھل پھاند سے نہیں، بلکہ لفظوں کے ہیرپھیر، تحریف، لسانی بازی گری اور بات سے بات نکال کر مزاح پیدا کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں ان کا وسیع ذخیرۂ الفاظ اور اس سے بھی وسیع تر مطالعہ ان کی رہنمائی کرتا ہے۔ وہ ایسے مزاح نگار ہیں جن کی تحریر سے سرسری نہیں گزار جا سکتا، بلکہ ہر ہر فقرے کو بڑی توجہ اور احتیاط سے پڑھنا پڑتا ہے، اور بعض اوقات دوباہ یا سہ بارہ پڑھ کر ہی اس سے بھرپور حظ کشید کیا جا سکتا ہے۔ یہی ان کی تحریروں کا امتیاز اور بو قلمی ہے۔

مشتاق احمد یوسفی نے ایک جگہ لکھا ہے:

“مقدمہ نگاری کی پہلی شرط یہ ہے کہ آدمی پڑھا لکھا ہو۔ اسی لیے بڑے بڑے مصنف بھاری رقمیں دے کر اپنی کتابوں پر پروفیسروں اور پولیس سے مقدمے لکھواتے اور چلواتے ہیں۔ اور حسب منشا بد نامی کے ساتھ بری ہو جاتے ہیں فاضل مقدمہ نگار کا ایک پیغمبرانہ فرض یہ بھی ہے کہ وہ دلائل و نظائر سے ثابت کر دے کہ اس کتاب مستطاب کے طلوع ہونے سے قبل ادب کا نقشہ مسدس حالی کے عرب جیسا تھا۔”

یوسفی صاحب کے کچھ ادبی اور مزاحیہ و طنزیہ اقوال۔ جن کو پڑھ کر آپ مسکرائے بغیر نہیں رہ سکے گے۔

  • اختر شیرانی، نابالغ شاعر ہے۔ وہ وصل کی اس طور پر فرمائش کرتا ہے گویا کوئی بچہ ٹافی مانگ رہا ہے۔
  • ہوش خلیج آبادی، اس ظالم کے تقاضائے وصل کے یہ تیور ہیں گویا کوئی کابلی پٹھان ڈانٹ ڈپٹ کر ڈوبی ہوئی رقم وصول کررہا ہے۔ مگر وہ زبان کے بادشاہ ہیں، زبان ان کے گھر کی لونڈی ہے اور وہ اس کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرتے ہیں۔
  • کسیموصوف نے ایک محفل میں غالب کا ایک مشہور شعر غلط پڑھا اور دہرے ہو ہو کر داد وصول کی سو الگ۔ میاں یہ بھی کوئی قرآن و حدیث ہے، جیسے چاہا، پڑھ دیا۔
  • فانی مصورِ غم ہیں تو مہدی (الافادی) مصورِ بنتِ عم ہیں۔ واللہ ! وہ انشائیہ نہیں نسائیہ لکھتے ہیں۔
  • دیکھا گیا ہے کہ وہی کتب فروش کامیاب ہوتے ہیں جو کتاب کے نام اور قیمت کے علاوہ کچھ اور جاننے کی کوشش نہیں کرتے۔ کیوں کہ ان کی نا واقفیتِ عامہ جس قدر وسیع ہوگی، جس قدر عمیق اور متنوع ہوگی، اتنی ہی بھر پور خود اعتمادی اور معصوم گمراہی کے ساتھ وہ بری کتاب کو اچھا کرکے بیچ سکیں گے۔
  • ہمارے ہاں اردو میں ایسی کتابیں بہت کم ہیں جو بغیر گرد پوش کے بھی اچھی لگیں۔ گرد پوش تو ایسا ہی ہے، جیسے عورت کے لیے کپڑے۔
  • اگر قرض ہی دینا ہےتو بڑی رقم قرض دو تا کہ لینے والے کو یاد رہے اور تمہیں تقاضا کرنے میں شرم نہ آئے۔ یہ چھوٹے چھوٹے قرضے دے کر خلقِ خدا کے ایمان اور اپنے اخلاق کی آزمائش کاہے کو کرتے ہو۔
  • اگر دوسرے بے اصول ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں بھی بے اصولا ہو جاؤں۔ دیکھتے نہیں، اسکول میں حاضری کے وقت بچوں کے نام حروفِ تہجی کی ترتیب سے پکارے جاتے ہیں، مگر بچوں کو اسی ترتیب سے پیدا یا پاس ہونے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔
  • علم احساب در حقیقت کسی متعصب کافر نے مسلمانوں کو آزار پہنچانے کے لیے ایجاد کیا تھا۔
  • جوا اگر قریبی رشتہ داروں کے ساتھ کھیلا جائے تو کم گناہ ہوتا ہے۔
  • کامیابی چاہتے ہو تو کامیاب کتب فروشوں کی طرح بقدرِ ضرورت سچ بولو اور ہر کتاب کے حسن و قبح پر ضدم ضدا کرنے کے بجائے گاہکوں کو انہی کی پسند کی کتابوں سے برباد ہونے دو۔
  • اگر کوئی شخص تجارت میں بہت جلد ناکام نہ ہوسکے تو سمجھ لو کہ اس کے حسب نسب میں فی ہے۔
  • اگر ایک پوری کی پوری نسل کو ہمیشہ کے لیے کسی اچھی کتاب سے بے زار کرنا ہو تو سیدھی ترکیب یہ ہے کہ اسے نصاب میں داخل کر دیجیے۔
  • فحش کتاب میں دیمک نہیں لگ سکتی کیوں کہ دیمک ایسا کاغذ کھا کر افزائشِ نسل کے قابل نہیں رہ سکتی۔
  • بڑا مصنف اپنی آواز پبلک تک پہنچاتا ہے، مگر بڑا صحافی پبلک کی آواز پبلک تک پہنچاتا ہے۔

(مشتاق احمد یوسفی۔ خاکم بدہن۔ صبغے اینڈ سنز)

مشتاق احمد یوسفی کی کتاب چراغ تلے سے اقتباسات ملاخطہ کریں۔

مولانا ابوالکلام آزاد اپنا سن پیدائش اس طرح بتاتے ہیں:

“یہ غریب الدیارعہد نا آشنائےعصر بیگانہ خویش نمک پرودہ ریش خرابہ حسرت کہ موسوم بہ احمد مد عو بابی الکلام 1888ء مطابق ذوالجحہ 1305ھ میں ہستی عدم سے اس عدم ہستی میں وارد ہوا اور تہمت حیات سے مہتم۔

اب لوگ اس طرح نہیں لکھتے۔ اس طرح پیدا بھی نہیں ہوتے۔ اتنی خجالت طوالت و اذیت تو آج کل سیزیرین پیدائش میں بھی نہیں ہوتی (اسی طرح نو طرز مرصع کا ایک جملہ ملاحظہ فرمائیے:

“جب ماہتاب عمر میرے کا بدرجہ چہار دو سالگی کے پہنچا روز روشن ابتہاج اس تیرہ بخت کا تاریک تر شب یلدہ سے ہوا یعنی پیمانہ عمر و زندگانی مادر و پدر بزرگوار حظوظ نفسانی سے لبریز ہو کے اسی سال دست قضا سے دہلا۔”

کہنا صرف یہ چاہتے تھے کہ جب میں چودہ برس کا ہوا تو ماں باپ فوت ہو گئے۔ لیکن پیرایہ ایسا گنجلک اختیار کیا کہ والدین کے ساتھ مطلب بھی فوت ہو گیا۔

ظہیر فتح پوری نے ان کی تحریروں کے بارے میں کہا تھا کہ ہم اردو مزاح کے ’’ عہد یوسفی‘‘ میں جی رہے ہیں۔ لیکن یہ عہد بھی بدھ ، 20 جون ، 2018 کی شام کراچی میں اپنے اختتام کو پہنچا۔

1 Comment

  1. یوسفی صاحب کو خراجِ تحسین پیش کرنے میں بی بی سی اردو کے ظفر سید سب سے آگے نکل گئے ہیں.
    سہیل صاحب بھی داد کے مستحق ہیں.

Comments are closed.