مسلم بلاک : صفر جمع صفر برابر صفر
از، ملک تنویر احمد
پچاس کی دھائی میں استعماری قوتوں کے پنجہ استبداد سے نکل کر جغرافیائی آزادی سے فیض یاب ہونے والے مسلم ممالک کے باہمی اتحاد و یگانگت سے ایک مسلم بلاک کی تشکیل کا جب غلغلہ بلند ہوا تو اس وقت پاکستان میں وزارت عظمیٰ کے منصب پر حسین شہید سہروردی فروکش تھے۔
ڈھاکہ یونیورسٹی کے ایس ۔ایم ہال میں طلباء سے خطاب کرتے ہوئے جب حسین شہید سہروردی سے مسلم بلاک کی تشکیل کی بابت استفسار کیا گیا تو سہروردی نے چند ساعتوں کے توقف کے بعد جواباً کہا،’’چاہے آپ کتنے ہی صفر ایک دوسرے کے ساتھ جمع کر لیں اس کا لازمی نتیجہ صفر کی صورت میں ہی نکلے گا۔ اس لیے کبھی بھی ایسی حوصلہ افزاصورت حال بر آمد نہ ہوگی اگر آپ صفر کو صفر میں جمع یا اس سے ضرب دیتے رہیں۔چاہے آپ صفر کو دائیں جانب سے صفر کے ساتھ شامل کریں یا بائیں جانب سے اس کا منطقی نتیجہ ایک صفر کی صورت میں بر آمد ہوگا‘‘۔ حسین شہید سہروردی کے اس بیان کو بعض مسلم ممالک میں بہت منفی انداز میں لیا گیا اور مصر نے تو باقاعدہ اس بیان کے خلاف کھلے بندوں اپنے غم و غصے کا اظہار کیا۔
حسین شہید سہروردی نے بغیر لگی لپٹی مسلم ممالک کی حالت زار کا جو نقشہ کھینچا تھا اس سے دل غم و اندوہ کے گہرے سمندر میں غرقاب تو ہو سکتا ہے لیکن اس سے زمینی حقائق کی تلخی پر خط تنسیخ نہیں پھیرا جا سکتا۔ حسین شہید سہروردی کی مسلم ممالک کی زبوں حالی اور کم مائیگی پر تبصرہ آرائی مسلم ممالک کی عسکری قوت اور معاشی استعدادسے متعلق تھی۔
ان ممالک کا مغرب کے جابرانہ و سامراجانہ رویے کے خلاف ایک بلاک کی صورت میں ڈھل کر یک جان ہوجانا دل کے بہلانے کو تو ایک اچھا اور اچھوتا خیال ہو سکتا تھا لیکن اس کا حقائق کے لق و دق صحرا سے دور دور تک کا تعلق نہیں تھا۔ پچاس کی دھائی میں مسلم ممالک جس پستی و تنزل کا شکار تھے وہ عسکری و معاشی صورت میں تو ہو سکتا تھا لیکن شاید اس وقت مسلم ممالک کے جذبات و احساسات میں وہ حدت و شدت تھی کہ جو مسلم بلاک کی تشکیل کے لیے ان کے دلوں میں دھڑکتے تھے لیکن تاریخ کے پُل کے نیچے سے وقت اور حالات و واقعات کے بہتے دھارے میں شاید وہ جذبات ملی بھی بہہ چکے کیونکہ اب تو مسلم بلاک ایک متروک و ناپید جنس کی طرح کہیں ڈھونڈتے سے بھی نہیں ملتا۔
فقط عسکری و معاشی قوت کی کمیابی کا چیلنج درپیش ہوتا تو کچھ دل کو ڈھارس بندھ جاتی کہ تاریخ انسانی میں عددی حساب سے فروتر گروہوں اور اقوام نے ایسے ایسے نقش لوح ایام پر نقش کیے کہ ان حریت پسندوں کو مذہب، زبان اور نسل کی تقیسم سے بالاتر ہو کر ہدیہ تبریک پیش کیا گیا لیکن وقت کے گزرنے کے ساتھ یہ آشکار ہوا کہ عسکری و معاشی وسائل کی فراہمی سے بھی بڑھ کر ایک سے بڑھ کر ایک ناسور ان اسلامی ممالک کے بدن میں پنپ رہا ہے ع
مصحفی ہم تو سمجھے تھے کہ ہوگا کوئی زخم
تیرے تو دل میں بہت کام رفو کا نکلا
مسلم ممالک کے مابین مسلکی اور نسلی آویزش اب بڑھتے بڑھتے ایک ایسے خونی تصادم میں بدل چکی ہے کہ اسلامی بلاک کا غازہ و رخسار انسانی خون سے رنگین ہوچکا ہے۔ ان کی معاشی و عسکری قوت تو ویسے بھی کسی گنتی شمار میں نہیں تھی لیکن اس سے بڑھ کر ان کی باہمی رنجشیں اب زمانے بھر کا موضوع ہیں۔ ان کی بے ثباتی اور بے توقیری تو اب روزمرہ کا معمول ہے کہ جو خبروں و تبصروں میں کچھ دن گرم رہنے کے بعد ایک نئے حادثے کی تلاش میں سرگرم ہو جاتی ہے۔
یہ تو اب ایک ایسے آتش افشاں میں بدل چکے ہیں کہ جس لاوا اپنوں کو بھسم کر دینے کے لیے آئے روزسیل رواں کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ اب ایسی نا گفتہ بہ صورت حال میں مسلم ممالک کی آہ و بکا سے زمین کو دل تو دہل جائے گا لیکن کیا ان کا مقدر بھی بدل جائے گا؟ اور اس پر طالع آزماء حکومتیں جو بڑی تعداد میں بادشاہوں اور آمروں کی صورت میں اپنے ہی عوام کے حق حکمرانی پر ڈاکہ زنی کی مرتکب ٹھہرتی چلی آرہی ہیں۔
ٹرمپ کے امریکی سفارت خانے کو بیت المقدس منتقل کرنے کے اعلان پر بشمول مسلم ممالک کے تقریباً پوری دنیا سراپا احتجاج ہے۔ اسلامی ممالک کے بڑے حصے سے اس کے خلاف پرزور مذمت سامنے آئی ہے اور اس اقدام کے بہت ہی خطرناک مضمرات کا بھی نقشہ کھینچا گیا ہے۔ اب یہ مسلم ممالک اس ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف کیا صف آراء ہو سکیں گے؟ جو سپر پاور امریکہ کی عہدہ صدارت پر فائز ہے۔ یہ ہو بھی سکتے ہیں کیونکہ بقول ان کے جذبہ ایمانی کے سامنے ساری دنیاوی قوتیں ہیچ ہیں لیکن یہ جذبہ ایمانی کہاں سے امڈ کر آئے گا ۔
کیا آل سعود جو سعودی عرب کی ریاست پر حکمران ہیں وہ ٹرمپ کے خلاف مہم کی قیادت کریں گے؟ لیکن یہ تو خود امریکہ کی زیر سرپرستی بننے والے اس ملٹری الائنس کے کرتا دھرتا ہیں جس میں چالیس سے زائد مسلمان ممالک دہشت گردی کے خلاف کمربستہ ہیں۔ اب یہ ایک قطعی طورپر الگ بحث ہے کہ یہ واقعی دہشت گردی کے خلاف بننے والا عسکری اتحاد ہے یا پھر امریکہ اور اس کے حلیف سعودی عر ب کی مشرق وسطیٰ میں اثر و نفوذ بڑھانے کی مہم کا ایک ہتھیار۔
کیا ایران کے آیت اللہ اس امریکی اعلان کو خس و خاشاک میں ملا ڈالیں گے جو القدس کے نام پر انقلاب ایران سے لے کر آج تک سیاست چمکاتے آرہے ہیں؟ لیکن یہ ایران والے تو خود مشرق وسطیٰ میں امریکہ اور سعودی عرب کے اثر و رسو خ کو روکنے کے لیے اپنے پراکسیز کے ذریعے عراق، شام، یمن میں سرگرم عمل ہیں جہاں اب تک لاکھوں لوگ ایران سعودی آویزش میں لقمہ اجل بن چکے ہیں۔
کیا مصر کا جنرل السیسی اس نا انصافی کی راہ میں مزاحم ہوگا لیکن یہ السیسی محمد المرسی کو تو انصاف دے نہیں پا رہا فلسطینیوں کو کیا انصاف دلا پائے گا۔پاکستان، ترکی، انڈونیشیا، مراکش یا کوئی اور کون ہے جو امریکہ سانڈ کے سینگوں سے پکڑ کر اسے زمین پر پٹخ دے۔ ستاون اسلامی ممالک میں تو کوئی ایسا نظر نہیں آتا جو امریکہ کے سامنے خم ٹھونک کر کھڑا ہو جائے۔ اب فقط پرزور الفاظ میں مذمت اورخطرناک مضمرات کی وارننگ سے امریکہ اپنی حرکتوں سے باز آنے والا ہوتا تو ہم اس تباہی و بربادی کے شاہد نہ ہوتے جن کے ڈھیر پر بیٹھ کر ہم اپنی سیہ بختی پر ماتم کناں ہیں۔
اب تو حضرت اقبال کے اس شعر کو بھی کسی اور قوم پر منطبق کر دینا چاہیے کہ ’’خود تجھے کسی طوفان سے آشنا کرے ۔کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں‘‘کیونکہ مسلم ممالک تو طوفانوں، گردابوں، زلزلوں اور حادثوں کے لامتناہی سلسلے سے دوچار ہونے کے باوجود ’’زمین جنبد نہ جنبد گل محمد‘‘کا عملی پیکر بنے ہوئے ہیں۔