مسلم دنیا میں مکالمہ اجنبی کیوں؟
معصوم رضوی
مسلم دنیا دور زوال سے گزر رہی ہے اس سچ سے تو کسی کو انکار نہیں مگر لمحہ فکریہ یہ ہے کہ جدید افکار و نظریات سے اجنبیت نے مسلم معاشرے میں بیزاری کا خوفناک روپ دھار لیا ہے۔ فکری اعتبار سے ہم کئی صدیوں پیچھے بلکہ یہ کہنا مناسب ہو گا کہ عباسی و عثمانی دورسے آگے بہیں بڑھ سکے۔
اجنبیت یا بیزاری کو قدامت پرستی کا روپ دے کرسماج کو قبائلی دور کی جانب دھکیلا جا رہا ہے۔ اس عمل نے تکفیری اور جہادی قوتوں کو مسلم معاشرے میں مضبوط بنیادیں فراہم کی ہیں۔ ذرا جائزہ لیں تقریبا تمام مسلم ریاستوں میں بحث و مباحثہ، سوال و جواب، افکار و نظریات پابند سلاسل ہیں۔ اس صورت میں مکالمے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا جو زہریلے عناصر کے خلاف رائے عامہ ہموار کر سکے۔ مغرب کی ایجادات، نظریات، ثقافت سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے باوجود یکسرابطال نفسیاتی دورخی کا عکاس ہے۔ دنیا سے پیچھے رہ جانے کا شدید احساس مگر اقرار کا حوصلہ نہیں ہے۔
جہادی عناصر اس نفسیاتی ابہام کا بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ایک طرف تو یہ قوتیں مغرب اور امریکہ کو دشمن قرار دے کر عوام کی ہمدردی سمیٹتے ہیں تو دوسری جانب من مانے فتوؤں کی بنیاد پر مسلم ریاستوں کی جڑوں کو بھی کھوکھلا کر رہی ہیں۔ جناب حقیقت یہ ہے کہ معاشرتی خطرات کا مقابلہ مشکل ضرورمگر ناممکن نہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ ایسی صورتحال میں سچ کا سامنا ہی واحد حل ہے۔ جدید معاشرے سنگین مسائل کو بحث و مباحثے کے ذریعے حل کرتے ہیں۔ رائے عامہ ساتھ ہو تو کتنی ہی بڑی قوت کیوں نہ ہو من مانی کی مجال نہیں کر سکتی۔
750 سے 1258 اسلامی تاریخ کا روشن ترین باب ہے۔ اس 500 سالہ عباسی دور کا جائزہ لیجیے عالم، دانشور، محقق، سائنسدان سلطنت کے ستون کہلاتے تھے۔ ایک طرف مذہب، تفسیر، احادیث، سیرت، علم الکلام، صرف و نحو، تجوید، اسلامی تاریخ اور شرعیہ پر کام ہوا تو دوسری جانب فلسفہ، قانون، تاریخ، ریاضی، طب، فلکیات، نجوم، جغرافیہ، شاعری اور دیگر علوم پر بھی بھرپور توجہ دی گئی۔
صحاحِ سِتہ کی تدوین کی گئی تو مسلم فلسفہ اور سائنس بھی بام عروج پر پہنچی۔ یہی وجہ ہے کہ ایک جانب جریر طبری، مسعودی، ثعلبی، امام غزالی نظر آتے ہیں تو یعقوب کندی، فارابی، ابن مسکویہ، الخوارزمی، البیرونی، جابر بن حیان، ابوبکر رازی موجود ہیں۔ ساتھ ابونواس، المتنبی، ابو فراس، جاحظ جیسے معروف شعراء بھی دو مثالی کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ہارون الرشید نے سلطنت کو مستحکم کیا تو مامون الرشید نے یونانی فلسفے کو عرب میں روشناس کروا کر استحکام کو علم و فکر کی پائیدار بنیادیں مہیا کیں۔ فارابی اور کندی نے ارسطو اور افلاطون کے فلسفے کو کہیں کا کہیں پہنچا دیا۔
تاریخ کے طالب علم جانتے ہیں کہ یہ دور خاصا لبرل اور جدیدیت کا حامل تھا آسان لفظوٕں میں اسے اس عہد کے اعتبار سے ماڈرن معاشرہ کہا جا سکتا ہے، ادارے متحرک تھے۔ ایک لمحے کے لیے غور فرمائیں اگر علما، سائنسدان، محققین پر حکومتی مدح سرائی تک محدود ہوتے، بحث و مباحثہ اور مکالمہ قید ہوتا تو کیا عروج ممکن تھا؟
فکر و فلسفے کی زمین سے سوچ کی کونپل پھوٹتی ہے تو مکالمے کی کلیاں چٹک کر نظریات کی خوشبو بکھیرتی ہیں۔ یہی نظریات ایجادات کا محور بنتے ہیں اور ترقی، خوشحالی اور قوت کا توازن مضبوط و مستحکم قوم کی پہچان بنتا ہے۔ دولت کے بل پر حاصل کردہ ترقی دوسروں کی جھوٹن ہوتی ہے۔ عرب ممالک کی مثال ہمارے سامنے بے تحاشا دولت کے باوجود ریاستیں کمزور بنیادوں پر کھڑی ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ دولت کے باوجود کوئی بھی اسلامی ملک کسی شمار و قطار میں نہیں؟ مزیدار بات یہ ہے کہ مغرب کی جدید ٹیکنالوجی، افکار و نظریات کو اسلامی مشاہیر کا ثمرتو قرار دیتے ہیں مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ مسلم دانشوروں نے بھی اپنی تحقیق کی بنیاد یونانی فلسفے کو بنایا تھا اور آج مغرب نے اسی تحقیق کو آگے بڑھا کرعروج حاصل کیا۔
حضور، اسلام دشمنی اور سازشوں کے تمام دعوے، تمام تھیوریز درست، یہود و نصاریٰ پر تمام الزامات بھی مان لیتے ہیں، مگر اصل سوال یہ ہے کہ آج مسلمان کیا ہیں؟ تعلیم و تحقیق میں کہاں کھڑے ہیں؟ نجانے اس اہم ترین سوال سے نظریں کیوں چراتے ہیں۔
چلیں کچھ دیر ہی سہی آئینہ دیکھتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق مسلمان دنیا کی کل آبادی کا تقریبا 24 فیصد ہیں، جن میں سے سائنسی تحقیق سے متعلق 3 فیصد اور دیگر تحقیق و تجربات سے منسلک صرف 1 فیصد ہیں۔ سائنس اور جدید علوم میں نوبل انعام پانیوالوں میں مسلمانوں کی کل تعداد 12 یعنی 1.4 فیصد ہے۔
یہاں ہم موضوع کے اعتبار سے سائنس اور تحقیقی علوم پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں تو اس حوالے سے گزشتہ سو سالوں میں پاکستان کے ڈاکٹر عبدالسلام کو فزکس، مصر کے احمد زیوال کوکیمسٹری، ترکی کے عزیز سنکار کو طب (ڈی این اے) اور بنگلہ دیش کے محمد یونس کو معیشت پر نوبل انعام سے نوازا گیا۔ گویا سائنس اور تحقیقی علوم میں نوبل پرائز کے حقدار صرف 4 مسلمان ہیں۔
اب ذرا یہودیوں کی جانب چلتے ہیں جن کی دنیا میں آبادی صرف 0.2 فیصد ہے۔ یہودیوں نے گزشتہ سو سالوں میں 197 نوبل انعام حاصل کیے۔ کیمسٹری میں 35، طب میں 53، فزکس میں 52، معیشت میں 28، آگے بڑھیے عیسائی دنیا کی آبادی کا 33.2 فیصد ہیں، انہوں نے اب تک مجموعی 427 نوبل انعام حاصل کیے ہیں۔ فزکس میں 96، کیمسٹری میں 94، طب میں 108 اور معیشت میں 22 نوبل انعام پا چکے ہیں۔
اعداد و شمار دیکھ کر دل دہل رہا ہو تو مغرب کو سازش کا الزام دینے سے پہلے یہ بھی جان لیں کہ اسرائیل تعلیم و تحقیق پر تقریبا 4.4 فیصدر خرچ کرتا ہے۔ ہورپ، امریکہ اور چین اس میدان میں کھربوں خرچ کرتے ہیں جبکہ مسلم ممالک میں تعلیم و تحقیق پر اوسطا 0.3 فیصد خرچ کیا جاتا ہے۔ ملائشیا 1.7 اور ترکی 0.92 فیصد کے ساتھ سرفہرست ہیں۔
پاکستان اس شعبے میں تقریبا 0.67 فیصد خرچ کرتا ہے۔ دنیا کی 100 بڑی یونیورسٹیز مغرب میں موجود ہیں، بلکہ اگر میں غلط نہیں تو 200 جامعات میں بھی کسی اسلامی ملک کی یونیورسٹی شامل نہیں ہے۔ کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں۔ پدرم سلطان بود کے خوابوں سے لطف اندوز ہونا کافی ہے یا پھر اسے بھی یہود و نصاریٰ کی سازش سمجھیں؟
مسلم معاشروں میں مغربی سائنس، ٹیکنالوجی، تحقیق و تجربات کے ذریعے آنیوالی ترقی کو دنیاوی خوشحالی اور مادہ پرستی قرار دے کر رد کیا جانا عام ہے۔ کبھی سائنس کو مذہب کے مقابل لا کر کفر و شرک کا پرچار کیا جاتا ہے تو کبھی کوئی اور من پسند تاویل گھڑی جاتی ہے۔
کیا یہ حقیقت نہیں کہ مسلم عروج کے پیچھے عظیم ترین کاوشیں تھیں تو پھر زوال کی وجوہات ختم کرنے کے لیے بھی طویل جدوجہد ناگزیر ہے۔ عثمانی سلطنت کے بعد چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹا مسلم معاشرہ ایسے استحصالی حکمرانوں کے ہاتھوں چڑھ گیا جن کو سوال پسند نہیں، سوچ و فکر، نظریات دشمن نظر آتے ہیں لہذا پورا مسلم معاشرہ گزشتہ سو سالوں سے سکتے سے دوچار ہے۔
نصاب سے لے کر منبر تک حکمرانی کی خواہش نے سماج کو غلام بنا رکھا ہے۔ کوئی نئی سوچ اور نظریہ نہیں، مغرب سے مقابلہ تو دور کی بات اب تو تکفیری اور جہادی عناصر کا خطرہ سر پر سوار ہے جن سے مقابلہ منافق حکمرانوں کے بس کی بات نہیں ہے۔
خدارا معاشرے کو سانس لینے دیں، مکالمہ زندگی کی علامت ہے عوام کو سوچنے سمجھنے کی آزادی عطا کریں تاکہ معاشرہ باطل قوتوں کے خلاف سینہ سپر ہو سکے۔ یہی مسئلے کا واحد حل ہے۔ کیا خوب کہا ہے جوش صاحب نے:
نہ بوئے گل نہ باد صبا مانگتے ہیں لوگ
وہ حبس ہے کہ لو کی دعا مانگتے ہیں لوگ