مسلم لیگ (ن) کی حکومت اور لوڈ شیڈنگ کی ذمے داری
(مجاہد حسین)
رمضان مبارک کا آغاز ہوتے ہی بجلی کی لوڈ شیڈنگ بڑھ گئی ہے، ہمارے علاقے میں دو دن سے گیس یکسر بند ہے اور تین دن سے پانی نہیں آ رہا۔ حکومت کے لئے جو دعائیں دل سے نکل رہی ہیں، ان کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ تاہم ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایک جمہوری حکومت عوامی مسائل کے بارے میں اس قدر بے پرواہ کیسے ہو سکتی ہے؟ رمضان مبارک کے مہینے میں لوگ زیادہ حساس ہو جاتے ہیں۔ آپ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا انداز دیکھیں تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ وہ رائے عامہ سے یکسر بے نیاز ہے۔ آئیے اس کا تجزیہ کریں۔
پانامہ لیکس کے معاملے پر نون لیگ کی ساری جدوجہد اس نکتے پر مرکوز ہے کہ کسی طرح عدالت کے ذریعے نااہل ہونے سے بچا جائے۔ پچھلے کئی ماہ سے ان کے جھوٹ قوم کے سامنے آ رہے ہیں، پوری قوم یہ تاثر پھیل چکا ہے کہ نواز شریف اور ان کا خاندان گنہگار ہے۔ لیکن حکومت اس تاثر کے حوالے سے لاپرواہ نظر آتی ہے۔
رمضان میں بجلی کی لوڈشیڈنگ بڑھ جاتی ہے تو وزیر صاحب اس کا ذمہ دار عوام کو قرار دیتے ہیں، گویا جلتی پر تیل والا کام کرتے ہیں۔ وہ ایک منجھے ہوئے سیاست دان ہیں لیکن اس قسم کے دل جلانے والے فقرے بولتے ہوئے وہ بالکل نہیں جھجھکتے۔
اسحاق ڈار کی بجٹ تقریر پی ٹی وی پر لائیو دکھائی جاتی ہے لیکن اپوزیشن لیڈر کو یہ سہولت نہیں دی جاتی۔ اس پر اسمبلی کا بائیکاٹ ہو جاتا ہے، پرائیویٹ چینلز پر تبصرہ نگار حکومت پر شدید تنقید کرتے ہیں لیکن ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔
ہر پہلو سے ٹھونک بجا کر دیکھیں تو حیرت ہوتی ہے کہ یہ حکومت اپنے بارے میں عوامی رائے کے حوالے سے نہ صرف غیر حساس ہے بلکہ وقتاً فوقتاً عوامی احساسات کا مذاق بھی اڑاتی رہتی ہے۔
ہمارے سامنے سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ایک جمہوری حکومت کیونکراس طرح کا رویہ اختیار کر سکتی ہے؟ اگلے انتخابات سے جن عوام سے انہوں نے ووٹ لینا ہے، ان کے ساتھ یہ سلوک کرنے کی کوئی وجہ تو ہو گی؟
اس مخمصے کے پیچھے اصل وجہ یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے ہمارا انتخابی نظام ہائی جیک کر لیا ہے۔ اس نظام میں موجود تمام شگاف ان کی تجزیاتی نگاہ کے سامنے ہیں اور وہ عوامی حمایت کے بغیر بھی الیکشن جیتنے کا فن سیکھ چکے ہیں۔
نون لیگ کی ساری توجہ پنجاب پر ہے جہاں کی بیوروکریسی اور سرکاری عہدیداروں کی خودمختاری سلب کر لی گئی ہے اور ان کی حیثیت ذاتی غلام سے زیادہ نہیں ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی انتخابی حکمت عملی میں سب سے اہم کردار انہی سرکاری افراد کا ہوتا ہے۔ کم از کم تیس چالیس حلقے ایسے ہیں جہاں کانٹے دار مقابلہ ہوتا ہے اور جیتنے والا چند سو یا دو تین ہزار کے فرق سے کامیابی حاصل کرتا ہے۔ الیکشن کمیشن اور بیوروکریسی مل کر ووٹوں کے اس فرق کو لیگی امیدوار کے حق میں موڑ لیتے ہیں۔ اس کے لئے بہت نفیس انداز میں دھاندلی کی جاتی ہے جس کے نتیجے میں تیس چالیس سیٹیں نون لیگ کی جھولی میں آ گرتی ہیں۔
دیہاتی علاقوں میں ایک طبقہ ایسا موجود ہے جن کے لئے اپنے حلقے کی عوام پر گرفت برقرار رکھنا زندگی اور موت جیسا معاملہ ہوتا ہے۔ ان میں کئی نسلوں سے انتخابات جیتنے والے، برادریوں کے بڑے اور ان کے گماشتے شامل ہیں۔ اپنی تاجرانہ ذہنیت اور تجربے کی بدولت نواز شریف اور شہباز شریف اس طبقے کو آسانی سے خرید لیتے ہیں۔ ان کی قیمت زیادہ نہیں ہوتی، بس علاقے پر گرفت کا قائم رکھنا، اپنی مرضی کے سرکاری افسر، ٹھیکوں میں حصہ اور چند نوکریاں ان کی ڈیمانڈ ہوتے ہیں۔ یہ ایک ایسا سٹیٹس کو ہے جو ضیاءالحق کے دور میں ہونے والے غیر جماعتی انتخابات سے شروع ہوا اور آج تک پوری قوم کی گردن میں ایک طوق بنا ہوا ہے۔ ںون لیگ اس نظام کی سب سے بڑی محافظ ہے۔
تحریک انصاف نے خیبر پختونخواہ میں جس طرح بیوروکریسی کو حکومتی مداخلت سے آزاد کیا ہے، اس سے یہ مفاد پرست طبقہ ڈر گیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) ان کی پہلی ترجیح ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خیبر پختونخواہ میں ہونے والا اچھا کام پنجاب میں الٹے نتائج دے سکتا ہے۔
الیکشن جیتنے کے بعد ہارنے والا فریق عموماً عدالتوں کا رخ کرتا ہے جہاں نون لیگ نے ایک اور جال بچھایا ہوا ہے۔ الیکشن ٹریبونل کے ججز کی تنخواہیں اور دیگر مراعات قوم کو لاکھوں میں پڑتی ہیں۔ ان ریٹائرڈ ججز کو اپنی مدت ملازمت میں توسیع کی امید بھی ہوتی ہے اور سبکدوش ہونے کے بعد مزید فوائد کا لالچ بھی انہیں دیا جاتا ہے۔ اگر کوئی جج حکومت سے تعاون نہ کرے تو نہ صرف اسے توسیع نہیں دی جاتی بلکہ انتقامی کاروائی کا خدشہ بھی موجود ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عموماً ہارنے والوں کی درخواستیں پہلے مرحلے پر ہی رد کر دی جاتی ہیں۔ مشہور کیسز میں فیصلے دینے میں تاخیر کی جاتی ہے تاکہ بیلٹ باکسز سمیت دھاندلی کے دیگر نشانات مٹائے جا سکیں۔
مسلم لیگ (ن) نے جس طرح پاکستان کے انتخابی نظام کو یرغمال بنا لیا ہے اس پر پوری ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ اس مختصر تحریر سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آخر یہ حکومت عوام کے بارے میں اس قدر غیر حساس کیوں ہے۔ جب ہمارے نظام کی کمزوریوں اور خرید و فروخت کے ذریعے انتخاب جیتا جا سکتا ہے تو عوامی فلاح کے لئے کیوں کام کریں۔ اقتدار اگر ایک آسان رستے سے مل سکتا ہے تو عوام کی بہتری جیسا مشکل اور غیر یقینی رستہ کس لئے اختیار کیا جائے۔
اس ساری شطرنج کی بازی میں نوجوان طبقہ ایک ایسا فیکٹر ہے جو پورا کھیل بگاڑ سکتا ہے۔ اس کے لئے مسلم لیگ کی پروپیگنڈہ مشینری مسلسل حرکت میں ہے۔ عمران خان کو ایک ناپختہ سیاست دان کے طور پر پینٹ کیا جا رہا ہے تاکہ نوجوان طبقہ الیکشن کے دن گھر بیٹھ کر فلمیں دیکھتا رہے اور سٹیٹس کو ایک بار پھر جیت جائے۔