مسلمانوں کا عدم اتحاد اور انتفاضۂ القدس
از، عادل فراز
یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیے جانے کے امریکی فیصلے کے خلاف پوری دنیا میں احتجاجات کا سلسلہ جاری ہے ۔یہ احتجاجات صرف اسلامی ملکوں تک محدود نہیں ہیں بلکہ غیر اسلامی ممالک میں بھی ٹرمپ کے فیصلے کے خلاف عوام سڑکوں پر اترے ہیں۔کیونکہ ساری دنیا جانتی ہے کہ ٹرمپ کے اس غیر سیاسی فیصلے کے نتائج کیا ہونگے ۔خاص طورپر مشرق وسطیٰ کی سیاست پر اس فیصلے کے منفی اثرات مرتب ہونا لازم ہے ۔جیسا کہ فلسطینی مجاہدین کی مزاحمتی تنظیم حماس نے کہاہے کہ ’’ ٹرمپ کے فیصلے نے جہنم کے دروازے کھول دیے ہیں‘‘۔ٹرمپ کا یہ بیان مشرق وسطیٰ کو جہنم کی آگ میں ڈالنے کی ایک کوشش ہے ۔ورنہ ٹرمپ یروشلم کی حیثیت اور اسرائیل کی حقیقت سے ناواقف نہیں ہیں۔
عالمی سطح پر ٹرمپ کے فیصلے کی مذمت کا سلسلہ جاری ہے ۔پہلی بار امریکہ کو ایسا محسوس ہوا ہے کہ وہ عالمی سیاست کے گلیاروں میں تنہا پڑرہاہے ۔کیونکہ دنیا کی آدھی سے زیادہ آبادی اسرائیل کی جارحیت اور امریکی سیاسی شعبدہ بازی کا شکار ہے اس لیے وہ خوب سمجھتے ہیں کہ یروشلم کو اسرائیل کی راجدھانی تسلیم کرنے کا امریکی فیصلہ کس پس منظر میں ہے اور اس فیصلے کا سیاسی مستقبل کیاہے۔
دنیا جانتی ہے کہ بیت المقدس پر اسرائیل کا ناجائز قبضہ ہے ۔فلسطینی مظلوم عوام آج تک اسرائیل کے غاصبانہ تسلط اور اپنی سرزمین کی آزادی کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں۔امریکہ کے اس اعلان کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ بیت المقدس کی مسلم شناخت کو ختم کردیا جائے ۔اس اعلان کے بعد تیزی کے ساتھ یہودی یروشلم اور فلسطین میں منتقل کیے جائیں گے اور اسرائیلی جاحیت میں اضافہ ہوگا ۔
ڈونالڈ ٹرمپ نے عالم اسلام کے خلاف اپنے ارادوں کا اظہار کردیا ہے مگر دنیا ابھی تک عالم اسلام کے باہمی ردعمل کی منتظر ہے۔ ردعمل ضرور سامنے آیاہے مگر اس رد عمل میں اتحاد کی کمی ہے ۔باہمی ردعمل کا فقدان سخت ردعمل اور احتجاجات کے تسلسل کی اہمیت کو بھی ختم کردے گا ۔در حقیقت ٹرمپ کا یہ بیان عالم اسلام کے خلاف نئی جنگ کا اعلان نامہ ہے۔اگر اب بھی مسلمان ان کی سازشوں اور منصوبوں کو نہ سمجھنے کی اداکاری کریں گے تو بڑا نقصان اٹھائیں گے ۔کیا ہی اچھا ہوتااگر بین الاقوامی سطح پر عالم سلام کی طرف سے امریکی اقدام کے خلاف شدید باہمی ردعمل سامنے آتا۔تمام اسلامی ملک احتجاجا َ امریکہ اور اسرائیل سے اپنے سفیروں کو واپس بلانے کاعزم کرتے ۔اقوام متحدہ میں ٹرمپ کے اس فیصلے کے خلاف اقوام متحدہ کی اہانت کے جرم میں کسی مناسب قراداد کو پاس کرنے کا مطالبہ رکھا جاتا۔کیونکہ ٹرمپ کا یہ اعلان یونیسکو میں منعقد ہوئے اقوام متحدہ کے اجلاس میں پاس کی گئی کئ اہم تجاویز کی مخالفت ہے۔اقوام متحدہ نے یونیسکو اجلاس میں بیت المقدس اور دیوار براق پر مسلمانوں کا حق تسلیم کیا تھا ۔لہذا اس مسئلے کو تمام اسلامی حکومتیں مل جُل کر اٹھانے کا عزم کریں اور ٹرمپ کے خلاف عالمی اداروں سے کاروائی کا مطالبہ کریں مگر ایساممکن نظر نہیں آتا۔
ایک آدھ اسلامی ملکوں کو چھوڑ دیں تو کسی بھی اسلامی ملک کی طرف سے ٹرمپ کے فیصلے کی سخت مذمت نہیں کی گئی ۔۳۴ ملکوں کا سعودی اتحاد بھی خاموش ہے اور امریکی اقدام کی حمایت میں ہے ۔اگر ایسا نہیں ہے تو اب تک ان کی طرف سے کوئی واضح ردعمل کیوں سامنے نہیں آیا ۔یہ اتحاد امت مسلمہ کے مسائل اور قبلۂ اول کی بازیابی کے لیے آواز احتجاج بلند نہیں کرسکتا تو پھریہ اتحاد امت کے لیے کتنا سودمند ہے اس کا احتساب ضروری ہے ۔سوال یہ بھی اٹھے گا کہ آخر یہ اتحاد کیوں وجود میں آیا کیونکہ اب تک میانما ر میں مسلمانوں کی نسل کشی پر ان کا کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ۔آخریہ اتحادردعمل کے اظہار کے لیے کس وقت کا منتظر اور کن مصلحت کی زنجیروں کاپابندہے۔سعودی عرب کو تمام مسلمان اپنا مذہبی پیشوا سمجھتے ہیں ایسے وقت میں سرکاری سطح پر سخت ردعمل آنا ضروری تھا مگر ایک روایتی بیان سامنے آیا ۔اس کے برخلاف ایران نے امریکی فیصلے کی بین الاقوامی سطح پر سخت مذمت کی ۔مگر عالم اسلام ایران کے خلاف امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ ہے اس لیے ایران کی امریکی مخالفت کو بھی نظرانداز کرنے کی کوشش کی جارہی ہے مگر ایسا ممکن نہیں ہوگا ۔ایران اس وقت دنیا کو امریکہ اور اسرائیل کے خلاف متحد کرنے میں مصروف ہے اور اس کی سیاست کامیاب ہوتی نظر آرہی ہے ۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمیشہ دشمنوں نے ہمارے انتشار اور اختلاف کا فائدہ اٹھایا ہے ۔ہم مسلکوں اور فرقوں میں اس قدر بٹے ہوئے ہیں کہ مشترکات پر بھی متحد نہیں ہونا چاہتے ۔اتحاد کا قطعی مطلب یہ نہیں ہے کہ بریلوی اپنے نظریات سے باغی ہوکر دیوبندی ہوجائیں اور سنی اپنے عقائد سے دست بردار ہوکر شیعی عقائد کو اپنا لیں۔یا اہل تشیع اپنے مکتب فکر کو چھوڑ کر سنی مکتب فکر اختیار کرلیں ۔اتحاد کی اہمیت اور اس کے فلسفہ کو سمجھنا ضروری ہے تاکہ ہمارا انتشار دوسروں کے لیے سبب رحمت نہ بنے ۔اگر شیعہ اور سنی عالمی سطح پر متحد ہوکر ماہ رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو ’’یوم القدس‘‘ کے طوپر منارہے ہوتے ، اسرائیلی جارحیت اور دہشت گردی کے خلاف ایک آواز ہوکر سراپا احتجاج کرتے تو کبھی امریکہ یہ جرآت نہیں کرتا کہ وہ یروشلم کو اسرائیل کا دارلحکومت تسلیم کرلیتا۔مگر ہم فرقوں اور مسلکوں میں اس قدر بٹ چکے ہیں کہ قبلۂ اول پر صہیونیوں کے غاصبانہ قبضے کی مخالفت اور فلسطینیوں کی حمایت کو مذہب اور فرقہ کی عینک سے دیکھتے ہیں۔
اگر آج تک قبلۂ اول پر اسرائیل کا ناجائز قبضہ ہے اور فلسطین دہشت گردی کا شکار ہے تو اس کا ایک سبب ہمارا اختلاف و انتشار بھی ہے ۔المیہ یہ ہے کہ ہم اسی کے دشمن ہوجاتے ہیں جو ہمیں آئینہ دکھاتاہے ۔امام خمینی نے اسرائیل کے غاصبانہ تسلط اور قبلۂ اول کی بازیابی کے لیے ماہ رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو ’’عالمی یوم القدس ‘‘ کے عنوان سے منانے کی تاکید کی تھی جس کے بعد ’’قدس ڈے ‘‘ آج تک منایا جارہاہے۔ مگر مسلمان آج بھی ’’قدس ڈے ‘‘ کے موقع پر اس لیے احتجاج نہیں کرتے کیونکہ یہ نعرہ ایک شیعہ رہبر اور شیعہ ملک ایران کی سرزمین سے بلند ہوا تھا ۔اگرہم ایران دشمنی میں ایک شیعہ رہبر کی آواز پر لبیک کہنا اپنی ہتک سمجھتے ہیں تو پھر کوئی ایک دن معین کرلیا جاتا جس دن تمام مسلمان متحد ہوکر قبلۂ اول کی بازیابی اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف عالمی سطح پر احتجاج کرتے۔مگر ایسا نہیں ہوا۔ کیونکہ ہمارا ضمیر مردہ ہوچکاہے اور ہماری ساری فعالیت زبانی نعروں تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔
ہم ایک دوسرے کے خلاف خوب زہر اگلتے ہیں ،مناظروں پر زور قلم صرف کررہے ہیں،فرقہ پرستی کا شکار ہیں اور اتحاد اسلامی کے لیے ہورہی کوششوں کی مخالفت کو اپنا فریضہ سمجھتے ہیں۔حضرت علیؑ کے بقول کہ دشمن باطل پر ہوتے ہوئے بھی متحد ہے اور ہم حق پر ہوتے ہوئے بھی منتشر ہیں۔آخر ایسا کیوں ہے ؟کیا اتحاد اسلامی کا نعرہ فقط سیاسی نعرہ ہے ؟۔نہیں قطعی ایسا نہیں ہے ۔اتحاد اسلامی کا نعرہ قرآن اور سنت رسولؐ کی بنیاد پر دیا گیا نعرہ ہے ۔اگر ہم قرآن اور سنت رسولؐ پر عمل پیرا ہیں تو ہمیں اس نعرہ کی اہمیت اور ضرورت کو سمجھنا ہوگا اور اس راہ میں کوششیں کرنا ہونگی ۔اگر ہم یونہی منتشر رہے تو القدس کبھی آزاد نہیں ہوگا اوراس کی آزادی کی امید رکھنا بھی دیوانہ کا خواب ثابت ہوگا۔