مسلمانوں کے عروج و زوال میں نظریۂِ علم کا کردار (قسطِ پنجم)

MH Chohan
پروفیسر محمد حسین چوہان

مسلمانوں کے عروج و زوال میں نظریۂِ علم کا کردار (قسطِ پنجم)

 از، پروفیسر محمد حسین چوہان

سپین سے لے کر چین کی سرحدوں تک علمی و تجارتی، عسکری و تنظیمی قیادت و سیادت کے پیچھے ایک نظریۂِ علم کی قوت کارِ فرما تھی جو خذ ما صفا ودع ما کدر پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی۔

مسلمانوں نے تنظیم و اتحاد، مساوات و برابری، طبقاتی، نسلی و علاقائی تفریق کے خاتمے، نظریۂِ توحید کے فطری تصور، استحصالی قوتوں کے سد باب، جذبۂِ جہاد، روا داری و حسنِ سلوک اور دوسروں کے کلچر اور تجربات  سے استفادے کی جستجو  اور حصول کی بَہ دولت بہت سی فتوحات کیں اور ظلم و نا انصافی اور تفریق کا شکار لوگ عافیت کے لیے دائرۂِ اسلام میں داخل ہوئے۔

عُلُوم و فنون کو منظم کیا۔ ان کے تراجم و تشریح اور اطلاق پر کام کیا۔ بہت سے عُلُوم میں اضافے بھی کیے۔ انتخابی تہذیب میں معنوی وحدت پیدا کی جس کی نظیر قرونِ وسطیٰ کی صدیوں میں نہیں ملتی۔

یورپ کی نشاۃِ ثانیہ کا ظہور ان ہی کی بَہ دولت ہوا۔ یہ ایک تاریخی ارتقاء کا عبوری دور تھا جو اپنا دامن مثالیت پسندی اور مدرسیَّت سے چھڑا کر عقلی و تجربی عہد میں داخل ہونے کے لیے کوشاں تھا۔

اس نے یونانی، ہندی، چینی و ایرانی عُلُوم و فنوں کو اکھٹا کر کے نشاۃِ ثانیہ کی گود میں ڈال دیے۔


گزشتہ اقساط:

مسلمانوں کے عروج و زوال میں نظریۂِ علم کا کردار (قسطِ سوم)  از، پروفیسر محمد حسین چوہان

مسلمانوں کےعروج و زوال میں نظریۂِ علم کا کردار (قسطِ چہارم) از، پروفیسر محمد حسین چوہان


مگر یونانیوں کی پانچ سو سال قبلِ مسیح کی علمی ترقی اور عصرِ نو کی پندرھویں صدی سے لگاتار زمانۂِ حال تک علمی ترقی کے تسلسل کا تاریخ عالم میں کوئی جواب نہیں۔

اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ مسلم سائنسی علَماء و حکماء کلاسیکی علم کے دائرے سے باہر نہیں نکل سکے۔ یونانی فلسفی و سائنس دانوں کے علمی قضایا کے اندر رہ کر کام کیا، بل کہ ان کی، علمی ترقی کا ستارہ یونانی عُلُوم کی سورج کی شعاعوں سے جگمگاتا رہا، جس سے علمی دنیا میں کوئی بڑی جست لگانے سے رہے اور پیراڈائم شفٹ کی ایک مثال بھی قائم نہیں ہو سکی۔

مسلم سائنسی فکر ارسطو کا نظریۂِ کائنات کہ زمین ہم وار اور کائنات کا مرکز ہے اور اجرامِ  فلکی اس کے گرد گردش کرتے ہیں، اور دوسرا بھاری اجسام بہ نسبت ہلکے اجسام کے بلندی سے تیزی کے ساتھ زمین پر گرتے ہیں، پر ہی گھومتا رہا۔

اس نظریۂِ کائنات کی تردید 1643 میں کوپرنکس نے کی کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے اور سورج کائنات کا مرکز ہے، جس سے اڑھائی ہزار سے قائم نظریہ کا ابطال ہوا اور ایک سائنسی ماڈل کی نئے عہد میں منتقلی ممکن ہوئی۔

اسی طرح سترھویں صدی میں نیوٹن کے قوانینِ حرکت اور کششِ ثَقَل کے نظریے نے ثابت کیا کہ تمام مادی اجسام ایک ہی قانون کے تحت حرکت کرتے ہیں اور بھاری و ہلکے اجسام ایک ہی رفتار و قانون حرکت سے زمین پر گرتے ہیں۔

نیوٹن اپنے اور کیپلر کے قوانین حرکت کے مابین تطبیق قائم کر کے ثابت کر دیا کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے اور سورج کائنات کا مرکز ہے جس سے مزید صدیوں سے قائم ارسطو کے نظریے کا رد ہوا اور سائنس ما بعدُ الطبیعات سے آزاد ہو کر طبعیات و ریاضی میں داخل ہوئی۔

نیوٹن کے قوانینِ حرکت کہ ایک طبعی توانائی کے خلاف ایک مساوی طاقت کا ردِّ عمل ہوتا ہے، نے پنڈولم سے لے کر اجرامِ فلکی تک کی دنیا کو ایک ہی قانون حرکت کے تابِع کر دیا اور  پیراڈائم کی منتقلی واقع ہوئی جس سے طبعی و میکانکی دنیا میں ایک انقلاب بپا ہوا۔

انسان صنعتی عہد میں داخل ہوا، جس میں ڈیکارٹ کے فلسفہ کہ میں سوچتا ہوں اس لیے میں ہوں نے بھی انسان کی اناء اور وجود کو تسلیم کیا، یعنی انسان حقیقتِ مطلقہ کے عکس سے زیادہ ایک با ارادہ آدمی کی صورت میں شناخت ہوا۔

نیوٹن کے نظریے نے روشنی، انعکاس و انعطاف اور اس کی مِن جملہ تعبیرِ قوت، لہر، طول موج کو طبعی نقطۂِ نظر سے پیش کر کے نئے پیراڈائم کی بنیاد رکھ دی اور صدیوں سے قائم نظریہ کہ آنکھ روشنی کو دیکھتی ہے کی جگہ یہ دریافت کیا کی روشنی کے ذرات آنکھ کو روشن کرتے ہیں۔

نیوٹن یقیناً تاریخِ انسانی کی بڑی ہستی ہیں جنھوں نے انسانیت کو ما بعدُ الطبیعات سے نکال کر طبعی دنیا کا نظارہ کرایا۔ ان کے قوانینِ حرکت سے ہر طرح کی ایجاد ممکن ہوئی۔

دُخانی انجن کی ایجاد نے دنیا کی کایا پلٹ دی۔ سماجی عُلُوم کو ایک نئی جہت دی۔ صنعتی انقلاب نے نہ صرف مشین ایجاد کی، بل کہ انسان خود مشین بن گیا۔ اسی کے تسلسل سے نظریۂِ اضافیت اور کوانٹم تھیوری نے بَہ تدریج پیراڈائم کی منتقلی میں اہم کردار ادا کیا جو ہر ایک سائنسی انقلاب پر منتج ہوا۔

یہ سارا عمل سائنسی مشق و تجربہ، اطلاق اور آلاتیت کے دائرے میں رہ کر ممکن ہوا۔ کبھی یہ سائنسی ماڈل مسلسل مشق و تجربے کا رہینِ منت ہوتا ہے اور کبھی اچانک اس میں ایک معجزانہ جست لگ جاتی ہے، مگر اتفاق میں لزوم کے عمل و دخل سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا۔

اتنی تمہید باندھنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ مسلم حکَماء کی بہت سی سائنسی خدمات کے باوجود ان کے پانچ سو سالہ سنہری دور میں کسی ایک پیراڈائم کی بھی منتقلی نہیں ہو سکی۔

سولھویں صدی تک جسمانی قوت سے کام لیا جاتا رہا۔ لیور، پُلی، پہیہ، ایکسل، غراری اور سکریُو تک میکانیات سے کام لیا جاتا رہا جو عہدِ قدیم سے چلی آ رہی تھیں۔

طب میں مسلمانوں نے صحتِ عامہ کے اصول متعارف کرائے۔ ابنِ خلدون نے سماجی عُلُوم کو طبعی و جغرافیائی عُلُوم سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی۔ ابنِ ہثیم نے نظریۂِ بصارت میں کچھ اضافے کیے اور فلکیات پر بھی کچھ کام ہوا مگر ایک بھی ایسی دریافت اور ایجاد ممکن نہ ہو سکی جسے انقلابی جَست لگ سکتی جو بعد ازاں کوپرنکس، نیوٹن اور آئن سٹائن سے ممکن ہو سکی۔

اس بناء پر علم کی خدمت کا سہرا مسلمانوں کے سر پر ضرور ہے، مگر تخلیق و ایجاد اور انقلابی جَست کے حق دار نہیں ہیں وہ یقیناً اہل مغرب ہیں۔ مگر اسے مسلمانوں کے قد و کاٹھ میں کوئی فرق بھی قائم نہیں ہوتا کیوں کہ علم نوعِ انسان کا مشترکہ ورثہ ہے۔

مسلمانوں کے وقت سے پہلے کی وسیع رومی سلطنت بھی تھی ان سے بھی کوئی علمی و انقلابی کارنامہ سر زَد نہیں ہو سکا، جو یونانیوں اور بعد ازاں عصرِ حاضر میں یورپی سائنس دانوں کے ہاتھوں ممکن ہوا۔

آج افادی سائنس کی تحصیل میں چین جاپان اور دیگر ابھرتی ہوئی معاشی قوتوں کا وہی کردار اور حیثیت ہے جو قرونِ وسطیٰ میں مسلمانوں کی تھی۔ علم مؤمن کی گم شُدہ میراث ہے کا مطلب یہی تھا کہ کچھ ایجاد نہیں کر سکتے تو نقل ہی کر لو کہ علم نوعِ انسانیت کی مشترکہ میراث ہے۔

اس میں ہر فرد اور قوم ایک ہی برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ ہے انسانیت، مگر انسانیت کے شرف اور درجے سے وہ ضرور کم تر ہے جو اسے نہیں سیکھتا۔ تیرھویں صدی کے وسط میں عباسیہ دور کے تاتاریوں کے ہاتھوں خاتمے کے بعد علمی اکتساب و انجذاب کے سلسلے کا مکمل  خاتمہ ہو جاتا ہے۔

اس کے بعدتیرھویں صدی ترک عثمانیہ کے دور کا آغاز ارطغرل سے لے کر بیسویں صدی کے کمال اتا ترک تک خلافتِ عثمانیہ ایک طاقت ور بحری و بَرّی قوت کے ساتھ تین بر اعظموں، جنوبی یورپ، شمالی افریقہ اور ایران تک قابض رہے۔

نشاۃِ ثانیہ کے ظہور کے بعد ان کی قوت کا طوطی بولتا رہا، جس تیزی کے ساتھ ترکوں نے فتوحات کیں، اپنی مثال آپ ہے۔ اس کی بڑی وجہ ان کی بحری قوت، توپ خانہ اور یری چری بے خطر لڑنے والی فوج تھی۔

ترکی ایک ایسے مقام پر تھا جہاں سے سمندری تجارت کے تمام راستے گزرتے تھے۔ ٹیکس اور محصولات کی آمدنی کی وجہ سے ایک امیر ریاست وجود میں آ چکی تھی۔ یورپ کے دیگر ممالک کے بر عکس ان کی فی کس آمدنی زیادہ تھی۔

یورپی یونین کی طرح ترک خلافت ایک بہت بڑا مسلم بلاک بن چکا تھا۔

سولھویں صدی میں پرتگیزیوں نے بحرِ ہند و خلیجِ فارس کے بحری راستوں پر قبضہ جما لیا۔ دیگر یورپی ممالک نے بھی چین تک متبادل تجارتی راستے تلاش کر لیے جس سے ترکوں کی طاقت و فتوحات پر نمایاں فرق پڑا۔

تین برِّ اعظموں پر حکومت کرنے والے آئینِ نو سے ڈرنے اور طرزِ کُہن پر اَڑنے کی وجہ سے یورپ کے مردِ بیمار کے لقب سے  نوازے گئے۔ اس نا کامی کی وجہ سولھویں سترہویں صدی کی ایجادات و انقلاب بھی ہے اور پھر صنعتی انقلاب کے بر عکس کلاسیکی دانش کو اوڑھنا بچھونا بنانا بھی ہے۔

ترکوں کے پاس کلاسیکی عہد کی مِن جُملہ قوت و دانش منظم شکل میں موجود تھی۔ مگرخارجی و باطنی زندگی میں تضاد موجود تھا، جس کو اس عہد میں علت پورا کر رہی تھی۔ قوانینِ حرکت نے میکانیات کی دنیا میں انقلاب بپا کر دیا تھا، مگر ترک عثمانی پرانے پیراڈائم سے چمٹے رہے۔

یورپ میں جدید ٹیکنالوجی اور معاشی نظریات نے سماجی زندگی کو یک سَر بدل دیا تھا۔ سنہ 1493 میں بڑی مشکل سے تاخیر کے ساتھ  ترکی میں چھاپہ خانہ شروع ہوا، جس کی مخالفت میں خطاط اور مذہبی طبقہ پیش پیش تھا۔

ینی چری روایتی بے تیغ لڑنے والے سپاہی اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کے لیے یورپ سے جدید ٹیکنالوجی در آمد کرنے کی مخالفت کر رہے تھے۔ مابعد الطبیعیات، فلکیات، نجوم  اور گرامر جیسے مضامین پڑھائے جاتے تھے۔ پانچ سو مدارس صرف قسطنطنیہ میں قائم تھے۔

جب کہ یورپ میں مابعد الطبیعیات کی جگہ فزکس اور حساب و ریاضی لازمی  و غالب مضامیں علمی قضایا میں داخل ہو چکے تھے۔

یورپ میں تحقیق و تجربات نے سائنسی مسلک اختیار کر لیا تھا بل کہ انسان بھی طبی میکانیات کا درجہ حاصل کر چکا تھا۔ جس کے بر عکس ترک عثمانیہ پر فکری و عسکری جمود، مذہبی دقیانوسیت،  قومیت پرستی کے ساتھ ساتھ نفس پرستی غالب آ چکی تھی۔ سماجی انصاف کے حوالے سے جاگیر داری کا خاتمہ نہیں کر سکے۔

جدید عُلُوم و فنون اور انتظامی اصلاحات میں اتنی تاخیر کی جب پانی سر سے گزر چکا تھا تو اپنی ناکامی کا احساس ابھرا تو ترکوں نے درویشوں، صوفیوں اور  یری چری فوج کی روحانی و عسکری خدمات سے نجات حاصل کی۔

یہی حال مغلیہ سلطنت کا بھی تھا کہ تحقیق و تجربات کی نہ ترغیب دی گئی اور نہ ہی اس کے لیے سازگار ماحول پیدا کیا گیا۔ الٹا ہر نئی ایجاد کو شیطانی ایجاد یا فطرت میں مداخلت سے تعبیر کیا گیا۔

مسلمانوں کے ہر مکتبۂِ فکر نے کسی نئی چیز کو کئی عشروں کے بعد قبول کیا تو یہ اپنی عظمتِ رفتہ اور شوکتِ گم گشتہ کو کیسے قائم رکھ سکتے۔  سماجی انقلاب کے لیے عوامی بیداری اور سائنسی ترقی کے لیے سائنسی کمیونٹی کا قیام بنیادی چیز ہے۔

سائنسی سوسائٹی سترھویں صدی میں اٹلی میں قائم ہو چکی تھی۔ سنہ 1662 میں رائل سوسائٹی آف لندن نیچرل سائنسوں پر کام کر رہی تھی۔ سنہ 1666 میں فرانس میں اکیڈمی آف سائنس قائم ہو چکی تھی، جس سے دورِ مدرسیت اور کلاسیکی عُلُوم کی جگہ نئی علمیات نے جگہ بنا لی تھی۔

حقیقی تبدیلی کا سورج طلوع ہو چکا تھا، قرونِ وسطیٰ کا سورج ڈوب رہا تھا۔

ادھر برّ صغیر میں مغلیہ حکم ران سنہ 1526 تا سنہ 1857 شعر و شاعری، آرٹ، تجارت و صنعت، تعمیرات، صَرف و نَحو اور درسِ نظامی تک محدود تھے۔ ایسی تعلیم جو صرف اطاعت سکھاتی تھی، اس میں سوال منع تھا۔

تقلید راسخ العقیدگی کی علامت تھی۔ تخلیق و عقلیت اور تجربیت علمی قضایا میں شامل نہیں تھے۔ جب ایجادات و اختراعات کا انقلاب آ چکا تھا تو یہ پرانے چرخوں اور پُلیوں پر سماجی حرکت کی گاڑی کو دھکا دے رہے تھے۔ اپنا علاج تک انگریزوں سے کراتے تھے۔

ان کی طب و نسخہ جات قصۂِ پارینہ و غیر فعال ہو چکے تھے، جس کے عوِض انگریزوں کو برِّ صغیر میں داخل ہونے کی اجازت ملی۔

ایک بندوق مسلمانوں کے ایمانی لشکر کا صفایا کرنے کے لیے کافی تھی۔ مغلیہ سلطنت جاگیر داری عہد کے اندر سمٹ اور گھٹ کر مر گئی۔ درسِ نظامی کی تعلیمات اور صوفیاء کی تجَلّیات مسلمانوں کے زوال کو روک نہیں سکیں۔

علمی نظام عصرِ حاضر سے ہم آہنگ نہیں تھا۔ اسلام کی عقلی روح نا پید تھی۔ جاگیر داری کے خلاف امام ابو حنیفہؒ اور عمرؒ بن عبدالعزیز نے جو فکری و عملی اقدامات اٹھائے تھے ان کی ایک مثال ہندوستان کی خانقاہوں اور درس گاہوں نے قائم نہیں کی۔

ہندوستان میں مغلیہ دورِ حکومت کا نظامِ تعلیم متصوفانہ اور دینی تھا جو سماجی حرکت کا ساتھ نہیں دے رہا تھا اور نہ ہی جدید دور کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ تھا اور نہ ہی یہ دوسروں  سے کچھ سیکھنے کے لیے تیار تھے۔

بغداد اور ترکی تک تجارت اور عُلُوم و فنون کی ترسیل جاری تھی مگر انھیں کچھ سیکھنے کا اشتیاق ہی نہیں تھا۔ چھاپہ خانہ اس لیے نہیں لگوایا کہ خطاط بے روزگار ہو جائیں گے زوال اور غلامی ان کے مقدر میں لکھی جا چکی تھی، کیوں کہ قرآن کی روح کے مطابق علم ہی کسی قوم کی قیادت و سیادت کا فیصلہ کرتا ہے اور رب العالمین کے نزدیک سب اس کے بندے و مخلوق ہیں۔

یہاں مذہب و قوم کی تخصیص نہیں ہے۔ انگریزوں نے حکومتی ضروریات کے پیشِ نظر ہندوستانیوں پر یہ احسان کیا کہ زبان و تاریخ اور دیگر عُلُوم کے لیے 1871 میں ایشیاٹک سو سائٹی، سنہ 1871 مدرسۂِ عالیہ کلکتہ اور 1800 میں فورٹ ولیم کالج قائم کیا۔

اگر چِہ یہ ان کی ذاتی حکم رانی کی ضروریات پورا کرنے کے لیے تھا مگر جدید تعلیم کی روشنی سے بھی برِّ صغیر کے باشندے رُو شناس ہوئے۔

سر سید احمد خان کا مسلمانوں کی بیداری میں اہم کردار ہے، مگر جدید عُلُوم کے خلاف فتویٰ فروشی اور بند باندھنے میں عُلَمائے کرام نے کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا۔

بر صغیر تو کیا مسلمانوں کی تمام جامعات قاہرہ یونی ورسٹی، مدینہ یونی ورسٹی، ایران کی جامعَہ قُم اور مدرسۂِ دیوبند جنھوں نے اسلامی اور روحانی عُلُوم کی ترویج و اشاعت میں نمایاں کردار ادا کیا اور اسلامی تشخص کو قائم رکھا، اخلاق و تربیت اور کردار سازی کی تعلیم دی، ایک بھی سماجی، سائنسی اور تخلیقی تھیوری نہیں دے سکے، علم و سائنس کی دنیا میں ایک بھی اضافہ نہیں کر سکے۔

صرف تشریحات و تراجم کے سوا تخلیق و جدت کا عُنصر غائب ہے۔ اخوانُ المسلین، جماعتِ اسلامی اور امام خمینی کے انقلاب تک کا مطالعہ کر لیں، سماجی انقلاب و تغیر اور طبقاتی شعور کی جدلیات سے یہ نا بلد ہیں۔ احکامات و

تعینات کی روشنی میں سماجی انقلاب و انصاف کا خواب کبھی شرمندۂِ تعبیر نہیں ہوتا۔

آئیڈیالوجی کی عینک سے حقیقی مسائل کو نہ دیکھا جا سکتا ہے اور نہ حل کیا جا سکتا ہے۔ مسائل کی پَرکھ و تفہیم میں قطعیت ہونی چاہیے، جو آئیڈیالوجی دھندلا دیتی ہے، کیوں کہ ہم ایک پیچیدہ معاشرے میں رہ رہے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام کی عقلی روح، سوشل ڈِیموکریسی کی آئینہ دار ہے، مگر جماعتِ اسلامی میں اجتہادی فکر کی کمی نے جاگیر داروں اور سرمایہ داروں کی گود میں بیٹھنا گوارہ کیا جو تمام مسائل کی جڑ ہیں۔ اجتماعی انقلابی سوچ پیدا نہیں ہو سکی، مذہبی فکر اساسی فکر کا درجہ رکھتی ہے، مگر ان کی کج فہمی نے متحرک اجتہادی اسلامی فکر کا ساتھ چھوڑ کر ملائیت زدہ جمود کا مظاہرہ کیا۔ سیاسی و سماجی ارتقاء کے سفر میں روڑے اٹکائے گئے۔

جس سے آج تک جاگیر داروں و سرمایہ داروں کا غالب طبقہ سیاہ و سفید کا مالک بنا چلا آ رہا ہے اور سماجی انصاف اور عوامی جمہوریت کی راہیں ہم وار نہیں ہو سکیں۔ جو مذہب اپنی ضروریات سے زائد چیزوں کو خرچ کرنے کی تعلیم دیتا ہے، اس کے ماننے والے کیسے استحصالی سرمایہ داروں کے ہم نوا ہو سکتے ہیں۔

یہ کھلا فکری تضاد اگر آئیڈیالوجی میں نہیں تو مذہبی سیاسی جماعتوں میں ضرور موجود ہے۔ مسائل کا بہترین حل ان کو حقیقی شکل میں دیکھنے میں ہے اور ان کی وجوہات کی تلاش اور حل کرنے میں مُضمر ہے۔

حقیقی آزادی سیاسی معاشیات کی درستی اور نظم کو درست کیے بَہ غیر نا ممکن ہے۔ طبقاتی خلیج جتنی زیادہ وسیع ہو گی مسائل اتنے ہی گھمبیر ہوں گے۔

صنعتی انقلاب سے تو کچھ سبق حاصل نہیں کیا گیا، مگر سماجی انقلابات جنھوں نے دنیا بھر کے معاشروں کو تبدیل کیا سیاسی تبدیلیاں رُو نما ہوئیں ان سے بھی سیکھنے، اور اپنے سیاسی نظام میں جگہ نہیں دی۔

سوشلسٹ انقلاب نے دنیا کے فرسودہ استحصالی سیاسی نظام کو اکھاڑ کر رکھ دیا جس کے فلسفہ کے تمام سیاسی نظریے باج گزار ہیں اور ہر ریاست نے کُلی و جزوی لحاظ سے سوشلسٹ نظام کی برکات کو اپنے سیاسی سسٹم کا حصہ بنایا، اصلاحات لائی گئیں، معاشرتی و طبقاتی تفریق ختم ہوئی، غربت کا خاتمہ ہوا۔

عوام کو اقتدار میں آنے کا موقع ملا، اشرافیہ و جاگیرداری کی بالا دستی ختم ہوئی۔ انسان کو فطری و حقیقی مساوات کا شعور حاصل ہوا۔ مسلسل تغیر و تبدیلی ہر شے کا مقدر ٹھہری۔ روایتی تقدیس کی جگہ فطری تقدیس کو تقدس حاصل ہوا۔ انسان کو اپنے سماجی وجود کا احساس ہوا کہ شعور نہیں، بل کہ سماجی وجود اس کے شعور کا تعین کرتا ہے۔ ہر نیا نقش پرانے نقش کی نفی کرتا ہے۔ حقیقی آزادی و فلاح نظامِ کُہن کو ختم کرنے میں مضمر ہے۔

یہ وہ انقلابی سیاسی فلسفہ تھا جس کا دنیا بھر میں استقبال کیا گیا، مگر مسلمان شخصی و خاندانی نظاموں سے باہر نہیں نکلے۔ خاندانوں کی جمہوریت اور شخصیت پرستی نے سیاسی نظام کو فرسودگی اور دقیانوسیت کی بھینٹ چڑھا دیا۔ تاریخ کے بے رحم جدلیاتی عمل کو قبول نہ کرنے سے تمام تر سیاسی سماجی و علمی ماحول متعفن ہو گیا۔ نظامِ کُہن کو مٹانے کا خواب چکنا چُور ہو گیا۔

سماج اپنی فطری حرکت سے آگے نکل گیا، مگر مقتدر طبقات کے جبر کی چکّی میں عوام پِس گئی۔ ہر مقتدر طبقہ تبدیلی کا دشمن ہوتا ہے مگر خاندانوں، اشرافیہ، جاگیر دار اور سرمایہ داروں کی حکم رانی ایک مخصوس طبقے کے لیے ہوتی ہے جس میں عوام کا بَہ راہِ نام حصہ ہوتا ہے۔

اس سسٹم کو کج کلاہ حرف پرست مُلا کی تصدیق کی ضرورت ہوتی ہے جو آسانی سے مقتدر طبقات حاصل کر لیتے ہیں۔

اگر عالمِ اسلام سماجی فلسفے کے صرف چند پہلووں کو ہی قبول کر لیتا تو وہاں انقلاب و تبدیلی کب کی آ چکی ہوتی کیوں کہ اسلام بھی اپنے عہد کا ایک انقلاب تھا جس نے گزشتہ سٹیٹس-کو کو چیلنج کیا تھا۔

ایسی باتیں کہنے اور لکھنے سے روایت پسندوں کے نظامِ اخلاق کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔

اخلاق کو اس طبقہ نے کوئی مجرد شے سمجھ رکھا ہے جو کہنے اور سکھانے سے حاصل ہوتا ہے، جب کہ انھیں معُلُوم نہیں کہ اخلاق، سماجی نظام کے کھلیانوں میں کونپلوں کی شکل میں پھوٹتا ہے جیسے نظم کی کھیتی میں معیشت، قانون اور سماجی انصاف کے بیج بوئے ہوں گئے ایسی ہی فصل پیدا ہو گی۔

عالمِ نفس کی روحانی تربیت سیاسی معیشت سے بہتر کوئی چیز نہیں کر سکتی۔ جسے ظاہر ہوا مسائل و برائی کی جڑ مقتدر طبقات ہی ہوتے ہیں، جس کا رد عمل نچلے طبقات میں اخلاقی بے راہ روی کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔

(جاری ہے …)